Ads

سیاسی منظرنامہ اور ترجیحات

جمہوریت سیاسی بگولوں کی زد میں ہے، حکومت اور اپوزیشن میں کورونا، مہنگائی، بیروزگاری اور سیاسی جلسوں کی کشمکش نے عوام کو شدید تناؤکا شکارکر دیا ہے، بادی النظر میں مائیکرو لاک ڈاؤن اور ڈھل مل حکومتی بیانیے کے ساتھ چومکھی جنگ جاری ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ جلسوں میں شرکاء کے ہجوم کا یہ مطلب نہیں کہ عوام کو اپوزیشن سے کوئی محبت ہوگئی ہے، اصل میں انھیں کسی چارہ گرکی تلاش ہے، وہ پریشان ہیں کہ کدھرجائیں،کون ان کے درد کا علاج کرے گا، وہ حالات سے تنگ آ چکے ہیں، ویسے بھی کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ ملک میں جب انجینئرز اور ڈاکٹرز بے روزگار ہوں، ہنرمند فاقہ کشی کا شکار ہوں، کسان کو روزی میسر نہیں، بڑے اداروں سے چھانٹی ہو رہی ہو تو  غربت اور مہنگائی کیا قیامت ڈھائے گی۔ سپریم کورٹ نے ماحولیات پر چشم کشا ریمارکس دیے ہیں، ان پر ارباب اختیار،کمال تدبر اور سنجیدگی سے غورکریں۔

وزیر اعظم عمران خان نے جلسوں کا موضوع بدلا اورکہا ہے کہ غریب ممالک سے پیسوں کی غیر قانونی منتقلی ان ملکوں میں پسماندگی اورغربت کی بنیادی وجہ ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ لوٹی ہوئی رقم کی ملک میں واپسی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

وزیر اعظم سے پیرکو معاشی ماہر ڈاکٹر شاہدکاردار نے ملاقات کی۔ وفاقی وزیر حماد اظہر، مشیر ِخزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور معاونِ خصوصی ڈاکٹر وقار مسعود بھی ملاقات میں موجود تھے۔ ملاقات میں منی لانڈرنگ کی روک تھام، لوٹی ہوئی رقم کے واپسی کے لیے اقدامات اور مجموعی معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا۔ وزیراعظم کی زیرصدارت موجودہ بارڈر مینجمنٹ سسٹم کو مزید فعال اور بہتر بنانے کے حوالے سے اعلیٰ سطح اجلاس ہوا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ 10مختلف وفاقی وزارتیں اور صوبائی حکومتیں بارڈر مینجمنٹ سے وابستہ ہیں تاہم وفاقی سطح پر بارڈرکے معاملات کو دیکھنے کے لیے کوئی مرکزی ادارہ موجود نہیں۔ اجلاس کو مختلف بارڈرکراسنگ پر نصب نظام اور بارڈر فینسنگ پر ہونے والے کام کی پیشرفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ غیر قانونی راستوں کی بندش اور اسمگلنگ کی روک تھام سے ملکی معیشت کو ایک سال کے دورانیے میں اربوں روپے کا فائدہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے افغانستان کے ساتھ تجارت کے فروغ کے لیے عملی اقدامات اٹھانے اور وزارتِ داخلہ میں ایڈیشنل سیکریٹری کی سرپرستی میں بارڈر مینجمنٹ سسٹم کے لیے ایک خصوصی ڈویژن بنانے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے کہا حکومت آزاد لیکن محفوظ بارڈرز پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جائے۔

ادھر جو سیاسی درجہ حرارت ہے اس کی تپش صورتحال کی ہولناکی کی عکاس ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست دھڑ اور سر کی عجیب لاتعلقی کے بحران میں گرفتار ہے، ابھی یا کبھی نہیں کا سماں ہے، ایک حکومتی سیاستدان نے خبردارکیا ہے کہ اپوزیشن بندگلی میں جانے کی کوشش نہ کرے جب کہ پورا ملک واقعتاً بند گلی بن چکا ہے۔

کیا کسی صائب، ہوش مند دور اندیش اور فہمیدہ حلقے کے پاس حکمرانوں اور اپوزیشن رہنماؤں سے یہ کہنے کا معتبر آپشن موجود ہے جو آواز دے کہ رہبرو! اپنی لڑائی روک دو، تناؤ کے حصار سے باہر نکلو، تحمل سے کام لو، پارلیمنٹ میں اپنے معاملات طے کرو، جمہوری طریقے سے ڈائیلاگ کو ترجیح دو جو دنیا کی جمہوریتوں کا صحیح اور مسلمہ جمہوری انداز فکر ہے، لیکن ملین ڈالر سوال سیاسی ارتقا اور ملکی جمہوری اور سیاسی بحرانوں کی گھمبیرتا کا ہے، 72 سال ہو چکے، اس عرصہ محشر میں سیاسی رہنماؤں نے شاید بہت سے سیاسی داؤ پیچ آزمائے، انتخابی تجربات کیے اور پارٹی منشور پر عمل درآمد کے کتنے وعدے بے فیض گزار دیے، مگر تاریخ سے کوئی سبق آموز ورق کسی حکمراں نے نہ الٹا۔

آج قوم پھر خانماں بربادی کی اسی منزل پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے ، جس کا با عزم سفر بانی پاکستان کے ساتھ اس نے شروع کیا تھا اوراس عہد کے ساتھ کہ مملکت خداداد اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست ہو گی جس میں ہر شہری کو امن،آزادی، مساوات، انصاف اور رواداری کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو گا، آئین وقانون کی بالادستی ہو گی۔

ان ہی آفاقی اصولوں کی روشنی میں قوم نے اپنے جمہوری سفر کا آغازکیا تھا، اس سفرکی اب کوئی تو منزل ہونی چاہیے؟ مگر آج مہنگائی، بیروزگاری، بے سمتی اورسیاسی انتشارکے بھنور میں پھنسی قوم حیراں ہے کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھے، وہ خود کو جمہوریت کے سب سے بڑے صحرا میں تنہا ہجوم کے طور پر بے آسرا دیکھ رہی ہے، یہ رونے کا مقام ہے، کیا سیاستدان اس درد انگیز صورتحال کا کوئی ادراک رکھتے ہیں، کسی پارلیمانی ’’جولیس سیزر‘‘ کے پاس ہمارے مسائل کا کوئی پائیدارحل ہے، کوئی ناصح مشفق ہے جو اندھیرے میں قوم کو سیاسی ڈیڈ لاک سے بچائے؟ حالیہ منظرنامہ کو ساری قوم دیکھ رہی ہے۔

ایک طرف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم)نے رکاوٹوں،گرفتاریوں اور مقدمات کے باوجود گزشتہ روز ملتان میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا، جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن رہنماؤں نے  تندو تیز تقاریر کیں۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے جمعہ اور اتوارکو پورے ملک میں جلسوں اور مظاہروں کو اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تیرہ دسمبرکو لاہور میں ٹا کرا ہو گا۔

سیاسی اتحاد کے مقررین نے سیاسی تاریخ کے سارے تلخ ایام و تجربات گنوا دیے۔ وفاقی وزراء نے اپوزیشن کے جلسے جلسوں کو پھر آڑے ہاتھوں لیا، وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے ٹویٹ کیا، امید ہے 53 ویں یوم تاسیس پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اپنا محاسبہ کیا ہو گا کہ کیسے ایک وفاقی جماعت کو علاقائی جماعت میں تبدیل کر دیا؟ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹی وی انٹرویومیں ملکی خارجہ پالیسی پر معروضات پیش کیں، کہا کہ مسئلہ کشمیر پر56 ممالک، پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات اچھے اور مستحکم ہیں، یو اے ای نے نئے ویزوں پر عارضی پابندی لگائی ہے، پاکستان کی خواہش ہے یہ جلد ہٹا لی جائے، پی ڈی ایم جلسے ضرورکرے لیکن اگرکچھ دنوں کے لیے وقفہ کر دیں تو قیامت نہیں آ جائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومتی ٹیم کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس طرح وزیراعظم کو بریف کریں کہ حالات معمول پر آ جائیں،کیونکہ صورتحال ڈیڈ اینڈکی طرف چلی گئی تو ہاتھ ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، لہٰذا صائب مشورہ جو عمران خان کو دیا جا سکتاہے، وہ یہی ہے کہ وہ خود میدان میں اتریں، تدبر اور لیڈرشپ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ خود اپوزیشن کو مکالمہ کی دعوت دیں۔

اگر وزیر خارجہ اپوزیشن سے کہتے ہیں کہ وہ جلسے موخرکر دیں تو ان کی شان میں کمی نہیں آئے گی، بعینہ یہی پیشکش خود وزیر اعظم پی ڈی ایم کی قیادت کو کریں تو یقیناً قوم اس کا بھی خیر مقدم کرے گی، یہ تاریخ کا بہت اہم فیصلہ پیراڈائم شفٹ کہلائے گا، وزیر اعظم اپنی اس دیدہ وری پر ’’پارٹ آف دی سالیوشن‘‘ قرار پائیں گے۔ ان کے اس خیر سگالی کے جذبہ سے ملکی سیاست کی کیمسٹری بدل سکتی ہے جب کہ اپوزیشن ایسے کسی بھی صائب فیصلے کو رد نہیں کرے گی جس میں ملک و قوم کا وسیع ترمفاد مضمر ہو۔ بسم اﷲ تو کریں۔

The post سیاسی منظرنامہ اور ترجیحات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2I5f5R6
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment