Ads

وباء اور موسم سرما

بہت سے لوگوں کے لیے گزشتہ چند مہینے انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوئے ہوں گے۔

عالمی وباء  کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو دکھ، تکالیف، صدموں، مالی پریشانیوں، بے روزگاری اور مسلسل تنہائی کا سامنا رہا ہے۔ اب موسم سرما کے طویل تاریک مہینے ہیں جو عام دنوں میں بھی بہت سے لوگوں کے لیے گزارنا بہت کٹھن ہوتے ہیں لیکن صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے طریقے ہیں جن کو اختیار کر کے آپ ذہنی طور پر ہشاش بشاش اور مطمئن رہ سکتے ہیں۔چند ایسے اہم گر ذیل میں پڑھیے۔

اپنے آپ کو متحرک اور مصروف رکھیں

موسم سرما میں بہت سے ملکوں میں ورزش یا کسرت کی غرض سے گھر سے باہر قدم رکھنا ٹھنڈ کی وجہ سے محال ہوجاتا ہے لیکن تقریباً تمام ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند رہنے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا۔ لندن کی یونیورسٹی کنگز کالج کے پروفیسر ڈاکٹر برینڈن سٹبز کا کہنا ہے کہ ’ہمارے جسم اور دماغ کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔‘ ورزش کرنے سے ہمارے خون میں ’اینڈورفن‘ نامی کیمیائی مرکبات کا اخراج ہوتا ہے جس سے درد میں کمی اور راحت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سٹبز کی تحقیق کے مطابق ورزش کرنے سے انسانی ذہن کے ان حصوں میں جو احساسات سے متعلق ہیں ان میں برقی تحریک تیز ہو جاتی ہے خاص طور پر ’ہپو کیمپس‘ اور ’پری فرونٹل کورٹیکس‘ میں۔

ان کا کہنا ہے کہ دماغی صحت کے لیے یہ انتہائی اہم ہے۔ یہ ذہن کے ان حصوں کو متحرک اور ہشاش بشاش رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ ’اگر آپ ورزش نہیں کرتے تو ذہن کے ان حصوں میں حرکت کم ہو جاتی ہے۔‘

ورزش نہ کرنے یا کم کرنے کی وجہ سے آپ کے ذہنی دباؤ اور مایوسی کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ورزش کرنے سے آپ کے جسم میں پروٹین یا نامیاتی مرکبات، ’برین ڈیراوئڈ نیروٹروفک فیکٹر‘ یا بی ڈی این ایف کی افزائش بڑھ جاتی ہے جو کہ دماغی صحت کے لیے بہت اہم ہے۔

ڈاکٹر سٹبز کا کہنا ہے کہ ’آپ اسے دماغ کی کھاد کہہ سکتے ہیں۔ یہ آپ کے ذہن کے بعض حصوں کی افزائش کرتا ہے۔ ڈاکٹر سٹبز کے مطابق صرف 10 منٹ کی ورزش بھی کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ ’ایسا کوئی بھی کام جس سے آپ کا سانس پھول جائے مثلاً تیز تیز چلنا، یا باغبانی کرنا یا پھر سائیکل چلانا یہ سب مؤثر ہو سکتے ہیں۔‘

زیادہ مت سوچیں

صحت مند مصروفیات کے اختیار کرنے سے آپ فکر کرنا چھوڑ دیتے ہیں جو آکسفورڈ یونیورسٹی کی ماہر نفسیات پروفیسر جینفر وائلڈ کے مطابق ایک بہترین طریقہ ہے۔ وہ اسے ’ذہن سے نکال دینا‘ کہتی ہیں۔ لوگ اکثر اپنے مسائل کے ساتھ زندہ رہتے ہیں اور اپنے منفی خیالوں کو بار بار یاد کرتے رہے ہیں۔ پروفیسر وائلڈ کے پاس کچھ سادہ سے مشورے ہیں جن سے اس مسئلے کا حل کیا جا سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ کسی مسئلہ کے بارے میں متفکر ہیں اور آدھے گھنٹے تک سوچنے کے باوجود آپ کو اس کا کوئی حل نہیں ملتا یا آپ کسی مسئلے کے بارے میں بار بار سوچتے رہتے ہیں اور آپ کو کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی تو اس کو بھول جائیں۔

اصل میں کسی بات کے بارے میں پریشان یا متفکر ہونے کے بجائے اس کا حل نکالنے کی طرف توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ آپ کو متفکر ہونے کے بجائے اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ اس مسئلے کا کیا حل ممکن ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کہ آپ سوچنا یا متفکر ہونا چھوڑ دیں۔

کچھ لوگ آپ کو مشورہ دیں گے کہ آپ جسمانی طور پر متحرک رہیں اس سے آپ کو اپنا ذہن بدلنے میں مدد ملتی ہے۔ بہرصورت اس کے لیے تریبت کی ضرورت ہے۔ کسی چیز کے بارے میں متفکر ہونا ایک قدرتی بات ہے۔ لیکن آپ کی بہت سی پریشانیاں حقیقی نہیں ہوتیں۔

ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ذہنی پریشانیوں کے مریضوں کی صرف 10 میں سے ایک پریشانی حقیقی ثابت ہوئی ہے۔ اس کی ایک توجیہ یہ دی جاتی ہے کہ جس ارتقائی عمل سے انسان گزرا ہے، یہ اس کے سبب ہے۔ اس کی وجہ سے انسانوں میں منفی سوچ اور خوف گھر کر گیا جو کہ ہمارا ایسے خطرات سے دفاعی نظام ہے جو کہ جسمانی معذوری یا موت کا باعث بن سکتے ہیں۔ پروفیسر وائلڈ کے مطابق ہمارے ذہنوں میں خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ اگر آپ یہ سوچنا شروع کر دیں کہ آپ بلاوجہ پریشان ہو رہے ہیں اور آپ حقائق پر غور کرنا شروع کر دیں تو آپ ذہنی طور پر پرسکون رہ سکتے ہیں۔

نئے اہداف مقرر کریں

کارڈف یونیورسٹی کے نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر ڈین برنٹ کہتے ہیں کہ اپنی زندگیوں میں نئے اہداف مقرر کرنے سے بھی آپ کو زندگی میں بہت مدد ملتی ہے۔ یہ کوئی نئی زبان سیکھنے کا بڑا ہدف بھی ہو سکتا ہے اور کھانے کی کسی نئی ترکیب کا تجربہ کرنے کا چھوٹا سا ارادہ بھی۔ اگر کوئی بڑا ہدف آپ کے لیے مشکل ہو تو پھر کوئی چھوٹا اور آسان ہدف مقرر کر لیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا کام جس کے لیے ذرا زیادہ کوشش درکار ہو تو اس سے زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد ملتی ہے اور آپ کو ذہنی یکسوئی حاصل ہوتی ہے اور فخر کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

بہت سے لوگوں کے لیے اپنی ذہنی حالت درست رکھنے میں یہ بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ڈاکٹر برنٹ کے نزدیک جدت بنیادی طور پر بہت سود مند ثابت ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی چیزیں جلد سیکھنے سے ہم میں اپنی اہمیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

بات کریں

کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے ملنا جلنا مشکل ہو گیا ہے اور سردی نے اسے اور مشکل بنا دیا ہے۔ یہ لاکھوں لوگوں کے لیے بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور اس سے ان کے لیے سنگین ذہنی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ لہٰذا جتنے بھی سماجی رابطے میسر ہیں ان کو بڑھایا جائے۔

لندن کے کنگز کالج میں پروفیسر ایمرٹا الزبتھ کیوپرز کہتی ہیں کہ ’ہمیں اپنے آپ تک رہنے کے لیے تخلیق نہیں کی گیا ہے۔‘ ’ہمارا مزاج سماجی ہے اور ہم سماجی رابطے رکھنے میں خوش رہتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ اپنے مسائل پر دوسروں سے بات کرنا ایک اچھا طریقہ ہو سکتا ہے لیکن ہم یہ کیسے کرتے ہیں وہ بہت اہم چیز ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اپنے مسائل پر بار بار سوچتے رہنے سے آپ اپنے ساتھ اچھا نہیں کرتے۔ کسی ایسے شخص سے جو آپ کو کوئی اچھا مشورہ دے سکے یا آپ کی مشکل حل کرنے میں کوئی مدد دے سکے ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔‘

پروفیسر کیوپرز کا کہنا ہے کہ تنہائی کے شکار لوگ اپنے بارے میں سوچتے یا متفکر رہتے ہیں اور اس سے زیادہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب ممکن ہو آپ ایسے لوگوں سے رابطہ کریں۔

اگر کووڈ 19 کی وباء کی وجہ سے آپ ان سے مل نہیں سکتے تو ان سے فون پر رابطہ رکھیں یا آئن لائن گفتگو کرنے کا بندوبست کریں۔

غلط طریقے سے ہی کریں، مگر کریں

کیمبرج یونیورسٹی کی اولیویا ریمز کہتی ہیں کہ خوش امید لوگوں کی زندگیاں لمبی ہوتی ہیں، ان کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں اور ان کا مدافعتی نظام بہتر ہوتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ آپ خوش امیدی پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ذہنی عنصر ہے جس سے آپ کی زندگی میں فرق پڑ سکتا ہے اور یہ کوئی ایسی شے نہیں جو آپ کے بس سے باہر ہو۔ کس طرح پروفیسر ریمز کے نسخے میں پہلا اصول ’ڈو اٹ بیڈلی‘ یعنی غلط طرح ہی کرو، مگر کرو۔

دوسرے لفظوں میں، کبھی کسی کام کو بہترین طریقے سے انجام دینے کا انتظار مت کریں کہ جب ٹھیک وقت اور ٹھیک دن ہوگا جب آپ وہ کام کریں گے۔ سردیوں کے موسم میں یہ بات اور اہم ہو جاتی ہے جب آپ موسم کی وجہ سے کوئی کام کرتے وقت دو مرتبہ سوچتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ہمارے اندر سے ایک تنقیدی آواز مستقل طور پر ہمیں کئی ضروری اور اہم کام کرنے سے روکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کام میں جت جائیں اور یہ سوچ لیں کہ ابتدا میں آپ سے یہ کام ٹھیک طریقے سے نہیں ہو گا۔ جب آپ کوئی کام کرتے ہیں تو نتیجہ اتنا برا نہیں آتا اور یہ ہمیشہ کچھ نہ کرنا سے بہتر ہے۔

ان کا دوسرا مشورہ یہ ہے کہ ایسی تین چیزوں کے بارے میں لکھیں جن پر آپ شکر گزار ہیں تاکہ آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ آپ کی زندگی میں کیا اچھا ہوا ہے اور کیوں ہوا ہے۔ اس سے آپ کے ذہن کا بائیں طرف والا حصہ متحرک ہو گا جس کا تعلق مثبت چیزوں سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ احساسات متعدی ہوتے ہیں آپ اپنے آپ کو آہستہ آہستہ ایسے لوگوں سے دور کر لیں جو ہمیشہ شکایات کرتے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی بات کا رونا روتے رہتے ہیں، وگرنہ آپ بھی ان جیسے ہو جائیں گے۔    ( بشکریہ بی بی سی )

The post وباء اور موسم سرما appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3n1sGXS
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment