Ads

کورونا ویکسی نیشن ، مژدہ جانفزا

کل عالم ایک وباء کے ہاتھوں ایک برس سے بے بس اور لاچارنظر آرہا ہے، جاں بحق افراد کی تعداد 21 لاکھ سے زائد ہوگئی ہے جب کہ اس مہلک وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 10کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔

دنیا بھر میں ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے اور پاکستان کے حوالے سے بھی اب یہ خبر آئی ہے کہ این سی او سی نے ملک بھر میں ویکسین لگانے کے حوالے سے جامع پلان بھی مرتب کرلیا ہے ،تمام افراد بمعہ فرنٹ لائن ہیلتھ کئیرورکروںکے، ایس ایم ایس کے ذریعے 1166 یا نمزکی ویب سائٹ پراپنا شناختی کارڈ نمبر بھیج کررجسٹرڈ ہوسکیں گے۔ سب سے پہلے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کو ویکسین لگا کر مہم کا آغاز کیا جائے گا۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کورونا ویکسی نیشن کا آغاز ہوچکا ہے،جب کہ روس اور بھارت میں مقامی سطح پر تیار کردہ ویکسین لگائی جارہی ہیں۔کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں بالترتیب امریکا، بھارت، برازیل، برطانیہ اور روس شامل ہیں۔

گزشتہ برس کے آخری ماہ جنوبی افریقا اور برطانیہ میں سامنے آنے والی کورونا کی نئی قسم زیادہ متعدی ثابت ہورہی ہیں۔کورونا وائرس کی نئی قسم کے باعث اس لہر میں متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے،کئی ممالک نے برطانیہ اور جنوبی افریقا کے لیے فضائی آپریشن بند کردیے تھے۔حالیہ ہفتوں میں کورونا وائرس کی کئی نئی اقسام برطانیہ، جنوبی افریقہ اور برازیل میں دریافت ہوئی ہیں۔

اب پہلی بار ایک تحقیق میں برطانیہ میں نئی وائرس کے شکار ہونے والے افراد میں نمودار ہونے والی عام علامات کی شناخت کی گئی ہے۔برطانیہ کے آفس فار نیشنل اسٹیٹکس (او این ایس)کی تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں دریافت ہونے والی نئی قسم سے متاثر افراد میں کھانسی، تھکاوٹ، گلے میں سوجن اور مسلز کی تکلیف زیادہ عام علامات ہوتی ہیں۔

اس تحقیق میں یہ نتیجہ برطانیہ میں کووڈ 19 کی نئی اور پرانی اقسام سے متاثر 6 ہزار افراد کے ڈیٹا کے تجزیے کے بعد نکالا گیا۔تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرس کی نئی قسم سے متاثر افراد میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی کا امکان کم ہوتا ہے، تاہم پھر بھی یہ وائرس کی 3بنیادی علامات میں سے ایک ہے۔وائرس اپنی ہیئت بدل کر انسانوں پر تاحال حملہ آور ہے، بنی نوع انسان کے لیے یہ جنگ جیتنا اتنا آسان نہیں ہے ۔

دوسری جانب نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (این سی او سی) نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے ہفتے سے پرائمری اور مڈل کلاسز کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کو بھی کھول دیا جائے گا،چار بڑے شہروں لاہور، کراچی، حیدرآباد اور پشاور میں واقع تعلیمی اداروں میں متبادل بنیادوں پر 50،50 فیصد طلبا کلاسز میں آسکیں گے۔

یہ فیصلہ انتہائی خوش آیندہے ، تعلیمی اداروں کی بندش سے طلبا کا بہت زیادہ علمی نقصان ہوا ہے ، سنجیدہ اور دانش مندحلقے ملک میں تعلیمی اداروں کی بندش کو مسئلے کا ’’ہر ممکنہ حد تک بہترین‘‘حل نہیں سمجھتے۔ ان کی رائے میں پورے ملک میں تمام تعلیمی ادارے مہینوں تک بند کر دینے سے زیادہ بہتر حل یہ ہوتا کہ ادارے کھلے رہتے لیکن وہاں اساتذہ اور طالب علموں سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے ایس او پیز پر سختی سے عمل کروایا جاتا،جہاں یہ عمل درآمد ناقص نظر آتا، وہاں اداروں اور افراد کو جرمانے کیے جاتے۔لہٰذا اب اگر حکومت ان گذارشات کی موجودگی تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ کرچکی ہے تو اسے ہم مثبت اقدام قرار دیں گے۔

کورونابا کے وجہ سے یکدم آن لائن ایجوکیشن پر دیا جانے والا بہت زیادہ زور اساتذہ کے لیے بھی ایک مشکل امتحان کا سبب بنا ہے۔ اول تو پاکستان میں تعلیمی شعبے سے وابستہ افراد میں سے ہر کسی کے پاس کافی ثابت ہونے والا تکنیکی انفرااسٹرکچر نہیں ہے اور جن کے پاس ہے بھی، وہ بغیر کسی مناسب تربیت اور کوچنگ کے ورچوئل کلاس رومز میں اپنی ذمے داریاں کتنے احسن طریقے سے انجام دے رہے ہوں گے۔پاکستان میں طالب علموں کے لیے آن لائن تعلیم کافی حد تک اچھا متبادل ثابت ہو گی، یہ بات تو اس وبا کی پہلی لہر کے دوران ہونے والے تجربے کی روشنی میں بھی نہیں کہی جا سکتی۔

اسکولوں کے ایسے بچے جنھیں کمرہ جماعت میں قابو میں رکھنا اور دل سے پڑھائی کرنے پر آمادہ کرنا زیادہ تر اساتذہ کے لیے مسلسل جدوجہد ثابت ہوتا ہے، وہ رضا کارانہ طور پر اور بڑی کامیابی سے گھر بیٹھے ہی پڑھائی کیسے کریں گے؟یہاں پر ایک اہم ترین موضوع کی جانب توجہ ازحد ضروری ہے، معاشرے کے ذہنی وجسمانی معذوربچے ، جنھیں کورونا میں سب نے بھلا دیا ہے۔

معاشرے میں ڈاؤن سینڈروم یا آٹزم کا شکار بچوں کے علاوہ کئی ایسے بچے بھی ہیں، جنھیں مختلف نوعیت کی ذہنی اور جسمانی معذوری کا سامنا ہوتا ہے، چونکہ ان بچوں میں بات سمجھنے کی صلاحیت عام بچوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے لہٰذا ان کو یہ بات سمجھانا کہ اسکول کیوں بند ہیں اور اسکول نہ جانے کی وجہ کیا ہے، ایک پیچیدہ عمل ہے۔ایسے میں ان بچوں کو تصویروں اور ویڈیوز کی مدد سے کورونا وائرس کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے، جسے کچھ بچے سمجھ پاتے ہیں لیکن بہت سے بچوں کو بار بار سمجھانا پڑتا ہے۔والدین کے بھی صبر کا امتحان لیتے ہیں یہ بچے، لہٰذا ہماری وزارت تعلیم کو ان بچوں کے اداروں پربھی خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

کورونا وائرس نے پوری دنیا کا نظام تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے ، وسیع پیمانے پر جو مالی اور جانی نقصان ہوا ہے اور عالمی معیشت جن مشکلات سے دوچار ہوئی ہے ، اس کے بہت گہرے اور نقصان دہ اثرات سے نکلنے میں برسہابرس لگیں گے۔پاکستان کی معیشت کے حوالے سے اعدادوشمار اور حقائق کی روشنی میں بات کی جائے تو صورتحال خاصی پریشان کن ہے۔

یکم جنوری 2020 کو پاکستان میں ڈالر کی قیمت تقریباً 154 روپے تھی اور دسمبر میں اس کی قیمت تقریباً 160 روپے کے آس پاس تھی، لیکن اس ایک سال میں ڈالر کی قیمت 170 کے قریب بھی پہنچی تھی۔ڈالر کی قیمت میں بے ترتیب اتار چڑھاؤ کی وجہ آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ ہے۔ معاہدے کے مطابق اسٹیٹ بینک ڈالر کو کنٹرول نہیں کرے گا اور طلب اور رسد کی بنیاد پر مارکیٹ خود ہی قیمت کا تعین کرے گی، لیکن ایک سال میں جو اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے ماضی میں ایسی مثالیں بہت کم ہیں۔ ماضی میں ڈالر کی قیمت میں بڑا اضافہ تو ہوتا رہا ہے لیکن تقریباً 12 روپے کی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

2014میں جب ڈالر کی قیمت 108 روپے تک پہنچی تھی تو کہا گیا تھا کہ حکومت ڈالر کی قیمت 100 روپے پر نہیں لاسکتی، مگر اس وقت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے سعودی عرب کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی  امداد کو استعمال کرتے ہوئے ڈالر کی قیمتمیں کمی  لانے میں کامیاب ہوگئے تھے،لیکن وہ ایک مصنوعی طریقہ تھا جب کہ موجودہ کمی مارکیٹ کے اصولوں کے تحت ہوئی ہے۔ حکومت نے ڈالرز کے ذخائر بڑھانے کے لیے جو قانون سازی کی ہے۔

اس نے ملک میں روپے کی قدر کو مضبوط کیا ہے،اگر مہنگائی کی بات کریں تو گزرا برس انتہائی مشکل سال تھا۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت نے ہر چیز کو پَر لگا دیے ہیں۔ اگر ڈالر 10 فیصد بڑھتا ہے تو مارکیٹ میں ہر چیز کی قیمت 50 فیصد تک بڑھا دی جاتی ہے اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔

اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے اور مافیا کے ہتھکنڈوں کی بدولت عام آدمی کے لیے گھریلو بجٹ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ کبھی آٹے کی قلت، کبھی چینی مارکیٹ سے غائب اور کبھی ٹماٹر آسمان سے باتیں کرتے دکھائی دیے۔ بعض رپورٹس کے مطابق سال 2020میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔

جولائی 2020 میں نئے مالی سال کے شروع کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 9.3 فیصد رہی اور حکومتی دعوؤں کے باوجود ستمبر میں یہ شرح 9 فیصد تھی۔پاکستان میں بے روزگاری کی شرح رواں سال بھی گزشتہ سال کے برابر 4.5 فیصد رہی، لیکن آنے والے دنوں میں شاید یہ صورتحال برقرار نہ رہ سکے۔ اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری کی یہ شرح بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال 21-2020 میں بے روزگاری کی شرح 7 سے 10 فیصد تک ہوسکتی ہے۔

آنے والے دنوں میں اگر بے روزگاری بڑھتی ہے تو اس کی وجہ کورونا کو قرار دینا شاید مشکل ہوجائے کیونکہ کورونا کی وجہ سے جو کاروبار بند ہوئے تھے وہ دوبارہ چل پڑے ہیں اور پہلے سے زیادہ قوت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔بے روزگاری کی شرح بڑھنے کی وجہ بین الاقوامی ہوسکتی ہے کیونکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکا سے بہت سے بے روزگار لوگ پاکستان واپس آرہے ہیں اور اس کا بوجھ پاکستانی معیشت پر پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس سارے جائزے اور تجزیے کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ کورونا وائرس کے بعدمعاشی واقتصادی نظام کی بحالی کے لیے حکومت کو سنجیدہ طرز عمل کو اپنا نا ہوگا، اپوزیشن سے کب تک بے مقصد لڑتے رہیں گے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی معیشت کو دوبارہ مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جو ہمیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرسکے۔

The post کورونا ویکسی نیشن ، مژدہ جانفزا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3osMbJC
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment