Ads

بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک

پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان نے گزشتہ روز بھارتی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے اپنے اندرونی معاملات پر توجہ دے ۔ اپنی اقلیتوں کے خلاف ریاستی سرپرستی میں ہونے والے امتیازی سلوک کے مرتکب بھارتی حکومت کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کہیں بھی اقلیتوں کے حقوق کے معاملے پر بات کرے۔

بی جے پی آر ایس ایس حکومت کا ریکارڈ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا ہے۔ پاکستانی دفترخارجہ کا بیان حقائق اور تاریخ کے آئینے میں درست ہے، کیونکہ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک، تشدد اور قتل جیسے واقعات کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی عالمی تنظیمیں تشویش کا اظہار کرچکی ہیں۔

بھارت میں لاکھوں افراد کو بھوک اور مصائب میں پھنسانے والی مودی سرکار اپنی ناکام پالیسیوں کو چھپانے کے لیے نت نئے سماجی اور مذہبی مسائل پیدا کررہی ہے۔ نریندر مودی کے دوسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد انڈیا میں موجود اقلیتوں پر تشدد، دھمکانا، ان کو ہراساں کرنا اور ہجوم کے تشدد میں بہت اضافہ ہوا ہے اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ ہندو مذہبی انتہا پسندوں کو مودی سرکار کی حمایت حاصل ہے۔

گائے کو جواز بناکر دلت اور مسلمانوں کو زدوکوب کیا جاتا ہے، بعض اوقات انھیں جان سے مار دیا جاتا ہے۔ ہجوم اکٹھا ہوکر اقلیتی افراد کو مارتا ہے اور ان کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کرتا ہے۔خواتین اور بچوں پر جنسی حملوں میں اضافہ ہوا ہے ، مذہبی عدم رواداری، منافرت اور انتہا پسندی کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت بھارت میں اقلیتوں سے زیادہ گائے محفوظ ہے۔ یہ منظر نامہ اس حقیقت کا عکاس ہے کہ بھارت جو سیکولر ملک ہونے پر ناز کرتا تھا، اب ایک متعصب ریاست کا روپ دھار چکا ہے ، جہاں اقلیتوںپر عرصہ حیات تنگ کیا جاچکا ہے۔

بھارت میں جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے بھارتی معاشرے میں نفرت اور مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے، بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو آئے روز جبر و ستم یا تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔گزشتہ برسوںکی طرح اس برس بھی اونچی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے نچلی ذات کے ہندوؤں، مسیحوں اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور بدسلوکی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ مسلمان بھارت میں سب سے بڑی اقلیت ہیں جو تقسیم ہند سے قبل ہندوستان میں سیکڑوں برس حکمران بھی رہے۔

تاہم تقسیم ہند کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کو تعصب کا سامنا رہا اور بھارت کے بانی رہنماؤں میں سب سے معروف موہن داس کرم چند گاندھی کو ہی 1948 میں ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ایک ہندو انتہا پسند نتھورام گوڈسے نے قتل کردیا تھا۔ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ہندو انتہا پسندوں کی اکثریت مہاتما گاندھی کو ’’ غدار‘‘ قرار دیتی ہے حالانکہ وہ خود ایک کٹر ہندو تھے، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گاندھی کے قاتل گوڈسے کو ہیرو قراردیا جارہا ہے۔

بھارتی حکمراں جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد بابری مسجد پر بھی قبضہ کرلیا ہے، بابری مسجد کے سلسلے میں مسلمانوں کو انصاف فراہم نہیں کیا گیا، بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو آئے روز جبر و ستم یا تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوتوا یا اکھنڈ ہندو مملکت کی علمبردار مودی حکومت کی شہ پر اقلیتوں کو کورونا وائرس کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ہندو اکثریتی علاقوں سے مار مار کر نکالا جارہا ہے۔ انھیں سبزی، پھل اور کھانے پینے کی دوسری اشیا خریدنے نہیں دی جارہی ہیں اور مسلمان مریضوں کو سرکاری اسپتالوں میں علاج کی سہولت دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔

بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی اور اس سے منسلک ہندو انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں نفرت کی دیواریں تعمیر کررہی ہیں۔ بھارت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کی کوششوں اور کاوشوں کو دنیا کی کوئی طاقت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ بھارتی مسلمان بڑے صبر و تحمل کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں حالانکہ ان سے ان کی ترقی اور پیشرفت کے اسباب کو سلب کرنے کی تلاش کی جاری ہے۔ بھارتی حکومت کو اپنے رویہ میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے ،ورنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

دوسری جانب پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کا تعلق افغانستان کے حالات سے بھی ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے مخالفین کی کاروائیوں سے بھی ہے۔ اندرون ملک سیاسی منظر نامے کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہماری فوج دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف سب سے بڑا خطرہ بھارت کے قائم کیے ہوئے جاسوسی کے اڈے ہیں۔ بھارت کی پشت پناہی کے سبب یہ نیٹ ورک بلوچستان سے لے کر سوات تک دہشت گردی کرتا رہا ہے اور اب یہ نیٹ ورک پاکستان کے ساحلی علاقوں کی جانب منتقل ہو چکا ہے۔

افغانستان، پاکستان کے خلاف بھارتی خفیہ کارروائیوں کے بڑے مراکز ہیں۔ جہاں افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں سے پاکستان بالخصوص پشاور اور قبائلی علاقہ جات میں منفی سرگرمیوں کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ قندھار میں بھارتی ایجنسی اثر رکھتی ہے ۔ پاکستان بارہا ایسی دستاویزات ثبوت کے طور پر پیش کرچکا ہے جن کے مطابق بھارت افغان سرزمین کو بلوچستان میں حالات خراب کرنے اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

بھارت کی بحیثیت ریاست دہشت گردانہ سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور سرپرستی سے پاکستان ہی نہیں خطے کے تمام ممالک بخوبی واقف ہیں کیونکہ وہ سب اس کا براہ راست تجربہ رکھتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گرد ی کو ہوا دینے میں بھارت کا ہاتھ ہے جس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔بھارت خطے کے دوسرے ممالک میں بھی دہشت گردی کر رہا ہے۔ سری لنکا، نیپال بھوٹا ن، بنگلہ دیش اور پاکستان، ہر ملک کو اس نے عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے ہاں بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

ان تنظیموں نے غیرمقامی آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کیا اور پھر ایف سی کے اہلکاروں کو بھی ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔ بھارت ایسی تنظیموں کی مکمل سرپرستی اور فنڈنگ کررہا ہے۔ گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع بولان کی تحصیل مچھ کے علاقے گشتری میں نامعلوم افراد کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کواغوا کرکے پہلے پہاڑوں پر لے گئے اور پھر ان پر فائرنگ کردی۔

وزیراعظم نے اپنے ٹویٹ میںکہا ہے کہ گیارہ معصوم کان کنوں کا قابل مذمت قتل، انسانیت سوز ، بزدلانہ دہشتگردی کا ایک اور واقعہ ہے ۔ ایف سی کو حکم دیا گیا ہے کہ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے قاتل گرفتار اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑے کیے جائیں ، حکومت متاثرہ خاندانوں کو بالکل تنہا نہیں چھوڑے گی۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران بلوچستان میں تشدد اور بدامنی کی نئی لہر اٹھی ہے ، چند روز قبل آواران میں سات سیکیورٹی اہلکار شہید کردیے گئے تھے۔

افغانستان کے حکمران بھارت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ بھارت کے ایماء پر کم و بیش اڑھائی ہزار کلو میٹر سرحد کو انھوں نے غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔ بھارت افغان سرزمین پاکستان میں مداخلت کے لیے استعمال کرتا آرہا ہے۔ اس کے ناقابل تردید ثبوت اقوام متحدہ اور امریکا کے سامنے رکھے جاچکے ہیں مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔

دراصل بھارت ایک مرتبہ پھر خطے کے امن کو تباہ کرنے کے لیے سر گرم ہوگیا ہے جس کے باعث پاکستان کی مسلح افواج ہائی الرٹ ہیں۔لداخ اور دو کلم میں ہزیمت کے بعد اندورنی اور بیرونی دباؤ سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری میں مصروف ہے ۔بھارت بارڈر ایکشن یا سرجیکل اسٹرائیک کا سہارا لے سکتا ہے، بھارت اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک، کسانوں کے احتجاج،کشمیر میں غاصبانہ قبضے، جبرا خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے اور وادی میں سوا سال سے جاری لاک ڈاؤن سے توجہ ہٹانے توجہ ہٹانے کے لیے ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی کوشش کر رہا ہے۔

اس سے قبل 2016 میں بھی بھارت نے ناکام سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ کیا تھا، 26فروری 2019 کو بھی بھارت نے ایک ایسے ہی ناکام آپریشن کی کوشش کی تھی۔بھارتی پنجاب میں جاری کسان تحریک سے خالصتان تحریک کو اُبھرنے سے روکنے کے لیے اور اُس کا زور توڑنے کے لیے بھارت شر انگیزی کرسکتا ہے۔

اسلامی اخوت کا تقاضا تھا کہ پاکستان اور افغانستان سرحد کو مل کر محفوظ بناتے مگر افغان حکمران ذاتی مفادات کے اسیر بن کر بھارتی مفادات کو پاکستانی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ بھارت کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے پاک فوج ،حکومت اورقوم متحد اور ایک پیج پر ہیں۔

The post بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3pPtfpp
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment