Ads

اناڑی مڈل کلاسر

ہم جس نظام معیشت میں زندہ ہیں، اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں سچائی، ایمانداری، حکومت کی کوئی اہمیت ہے نہ عزت اس کے برخلاف جھوٹ، بددیانتی، دھوکا، فریب کامیابی کی ضمانت ہیں۔ ہمارے سامنے اس حوالے سے دو مثالیں موجود ہیں جنھیں دیکھنے کے بعد نہ صرف سچ، سچائی، ایمانداری پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے بلکہ جھوٹ بددیانتی، دھوکا، فریب کی طاقت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ بے ایمانی، دھوکا، فریب، جھوٹ تو اشرافیہ یعنی دولت مند طبقے کی میراث ہے لیکن جب عام آدمی ایلیٹ کی اس میراث کا حامی اور محافظ بن جاتا ہے تو انسان ایسی مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو جاتا ہے کہ دنیا کا مستقبل تاریک نظر آنے لگتا ہے اور اس کھیل میں دولت بہت اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

ہمارے سامنے اس حوالے سے تازہ مثال یہ ہے کہ ماضی میں جھوٹ بے ایمانی عوامی دولت کی کھلی لوٹ مار کر ایسا کلچر چلتا رہا کہ اشرافیہ کی ایک چھوٹی سی تعداد نے عوام کو اس طرح لوٹا کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی میڈیا اس اشرافیائی لوٹ مار کی داستانوں سے اٹا رہا ملک کا بچہ بچہ ان لٹیروں اور عوام دشمن عناصر سے واقف ہو گیا ،لٹیروں نے لوٹ کے اربوں کی دولت کو بڑی ہوشیاری اور فنکاری سے ملک کے اندر اور ملک کے باہر محفوظ کرلیا۔

اس دوران مڈل کلاس سے ایک کردار ابھرا جو ایماندار تھا، راست باز تھا اور عوام سے مخلص تھا لیکن یہ کردار ان ’’خوبیوں‘‘ سے محروم تھا جو بے ایمانی عوام دشمنی لوٹ مار وغیرہ جیسی فنکاریوں کے لیے ضروری اور ناگزیر ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مڈل کلاس سے ابھرنے والا یہ کردار جلد ہی ناکامیوں سے دوچار ہونے لگا۔ اس دوران میڈیا کے کردار اور لٹیروں کی لوٹ مار کی داستانوں نے لٹیروں کو مایوس کردیا اور سچائی ایمانداری اور عوام دوستی کا کردار عوام میں پذیرائی حاصل کرنے لگا یہ تبدیلی اشرافیہ کی شکست تھی۔

سو اشرافیہ نے اس ایماندار مخلص اور عوام دوست کردار کو ناکام بنانے کی مضبوط اور مربوط پلاننگ کی اور  مڈل کلاس کے عوام دوست کردار کے خلاف پروپیگنڈے کی ایک مضبوط اور ایسی موثر مہم چلائی کہ  عوام اس مہم میں بہہ گئے اور مڈل کلاس کا عوام دوست کردار کمزور ہو کر کارنر ہوتا چلا گیا۔ یہ بات درست ہے کہ عوام کی 80 فیصد تعداد مڈل کلاسر عوام دوست کردار کی حامی ہے اور اسے پسند بھی کرتی ہے لیکن اس کو لیڈ کرنے والا کوئی نہیں۔ عوام دوستی کا دعویٰ کرنے والے منہ بند کرکے خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔

قلم میں بہت بڑی طاقت ہوتی ہے جب کہ قلم کاروں کو یہ احساس ہو کہ انھیں سچ کا ساتھ دینا ہے اور جھوٹ کے خلاف ڈٹ جانا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ قلم کار بیٹھے ہوئے ہیں وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اشرافیہ مڈل کلاسر کے خلاف  ہے ہم جس نظام سرمایہ داری میں زندہ ہیں۔

اس میں دولت مردے کو بھی زندہ کر دیتی ہے، سو یہی ہو رہا ہے کل تک کرپشن کے الزام  والی اشرافیہ آج  یہ ثابت کر رہی ہے کہ وہ عوام دوست ہے چونکہ مڈل کلاسر دولت مند ہے نہ اس کے پاس لوٹ مار کی دولت ہے اس لیے اشرافیہ اسے ملک کے لیے نااہل ثابت کر رہی ہے اور اس مہم یا سازش میں وہ کامیاب ہو رہی ہے جس میں مڈل کلاسر کی غلطیوں اور ناسمجھی کا بھی بڑا دخل ہے۔ سادگی کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور ہمارا مڈل کلاسر ان حدوں سے گزر گیا ہے جس کا بھرپور فائدہ  ایلیٹ اٹھا رہی ہے اور دانستہ نادانستہ میڈیا اس کی حمایت کر رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کی 80 فیصد سے زیادہ عوام سادہ لوح ہے وہ ہماری  سیاست کے اسرار کو نہیں سمجھتے لیکن اتنی بات تو اس کی سمجھ میں آنی چاہیے کہ  اشرافیہ اور دولت کے انباروں سے محروم ایک مڈل کلاسر بلکہ اشرافیائی ہتھکنڈوں سے ناواقف انسان میں فرق ہوتا ہے۔ مڈل کلاسر ہی نہیں بلکہ ورکنگ کلاس میں بھی ایسے ذہین اور تیز انسان ہوتے ہیں جو اشرافیہ کی چالوں کو سمجھتے ہی نہیں بلکہ انھیں ناکام بنانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں لیکن ہمارا مڈل کلاسر اس قدر سادہ ہے کہ اس میں اتنی ہوشیاری  بھی نہیں جو بہت سارے ورکنگ کلاسرز میں دیکھی جاسکتی ہے۔

ملک کے سیاسی حالات ایک فیصلہ کن موڑ کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اشرافیہ تیزی سے اپنے داؤ پیچ استعمال کر رہی ہے عوام بے عملی کا شکار ہیں کوئی معجزہ ہی اب مڈل کلاسر کو ناکامی سے بچا سکتا ہے اس کھیل میں دولت نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے اور اشرافیہ کے پاس دولت کے انبار ہیں مڈل کلاسر اس حوالے سے کنگال ہے اب سامنے عوام کا مستقبل ہے ان عوام کا جو 72 سال سے اندھیروں میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

The post اناڑی مڈل کلاسر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3hLHV6j
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment