ملک کو اس وقت اندرونی و بیرونی محاذ پر بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں اور اس محاذ آرائی میں چیلنجز سے نمٹنا خاصا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے ’’ملکی سیاسی صورتحال اور قومی ڈائیلاگ کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر امور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگار)
حکومت کا بنیادی مقصد عوام کو ریلیف دینا اور ان کی زندگی آسان بنانا ہوتا ہے اور اسی کیلئے ہی حکومتیں ہر ممکن اقدامات کرتی ہیں مگر جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان حالیہ لڑائی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق عوام یا ملکی مسائل سے نہیں ہے بلکہ یہ اشرافیہ کے درمیان اقتدار کی لڑائی ہے۔
بدقسمتی سے موجودہ حکومت ڈیلور کرنے میں ناکام رہی ہے۔ گزشتہ ڈھائی برس میں کسی بھی شعبے میں بہتری آئی اور نہ ہی کوئی اصلاحات لائی گئی بلکہ جو بھی کام نظر آرہے ہیں اور جتنے منصوبے چل رہے ہیں وہ گزشتہ حکومت کے منصوبوں کا ہی تسلسل ہیں جنہیں ردوبدل کے ساتھ آگے بڑھایا جارہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان پولیس میں اصلاحات اور مقامی حکومتوں کے قیام کی بات کرتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کا نظام تحریک انصاف کی ترجیحات میں شامل تھا مگر تاحال اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی بلکہ وزیراعظم آج مثالی نظام قائم کرنے کی بات کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ جس نظام کے دعوے کیے جارہے ہیں وہ کب قائم ہوگا؟اپوزیشن نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کیلئے ’پی ڈی ایم‘ کی صورت میں اتحاد قائم کیا مگر یہ کمزور اور تقسیم شدہ اتحاد ہے اور ایسا کمزور اتحاد ماضی میں کبھی بھی نہیں رہا ۔ اپوزیشن کا سولین بالادستی کانعرہ جاندار ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ کمزور اتحاد کس طرح اپنے مقاصد حاصل کرے گا؟اس اتحاد کی عوام میں مقبولیت کم ہے اور اس میں شامل جماعتوں کا ماضی بھی سب کے سامنے ہے۔
کمزور ترین اپوزیشن کے باوجود موجودہ حکومت پرفارم نہیں کر سکی۔ حکومتی ناقص کارکردگی کی وجہ سے عوام میں عمران خان اور موجودہ حکومت کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے، جو لوگ ان کے نعرے لگاتے تھے وہ متنفر ہورہے ہیں لہٰذا انہیں سمجھنا چاہیے کہ عام آدمی کا مسئلہ اپوزیشن نہیں بلکہ مہنگائی اور روزمرہ کی سہولیات ہیں جو اسے نہیں مل رہی۔لاہور جیسا بڑا شہر کوڑا دان بن کر رہ گیا ہے اور گزشتہ 2 ماہ سے ہر طرف کچڑے کے ڈھیر لگے ہیں جو افسوسناک ہے۔
اس کے علاوہ مہنگائی و دیگر مشکلات الگ ہیں۔ عمران خان میگا پراجیکٹس کے خلاف اور انسانی ترقی پر خرچ کرنے کے حامی تھے مگر انسانی ترقی، تعلیم اور صحت پر کچھ خرچ نہیں ہورہا بلکہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کا برا حال ہے اور تاحال کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا جاسکا جو تبدیلی کی طرف جاتا ہو۔ یکساں نصاب کے حوالے سے معاملات عجیب ہیں، یہ اس طرح کا نصاب نہیں ہے جس طرح ایران، بھارت و دیگر ممالک میں ہے۔ حکومت اس بات کو بارہا دہراتی ہے فوج اس کے ساتھ ہے اور تمام ادارے ایک پیج پر ہیں، اسی لیے وہ سمجھ رہی ہے کہ اسے کچھ نہیں ہوگا مگر حالات سدا ایک جیسے نہیں رہتے، اگر حکومت پرفارم نہ کر سکی اور موجودہ نظام فیل ہوگیا تو پھر عوام خود اپنا راستہ نکالیں گے، انہیں جہاں سے ریلیف ملے گا وہ اس طرف چلے جائیں گے ۔
کرپٹ مافیا کے خلاف کارروائی اور احتساب تحریک انصاف کے کی ترجیحات میں شامل تھا مگر اب احتساب کے عمل پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کتنی ریکوری ہوئی اور اس سے ملک اور عوام کو کیا فائدہ ہوا؟ اپوزیشن کا فوکس ’این آر او‘ ہے، اسی لیے اس نے بیشتر معاملات میں حکومت کو سپورٹ کیا مگر جب کچھ نہ ملا تو اب وہ حکومت کے سامنے کھڑی ہوگئی ہے۔ ملک پہلے ہی بحران کا شکار ہے اور مزید کسی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس محاذ آرائی سے صرف ملک و قوم کا نقصان ہوگا لہٰذاموجودہ صورتحال کا واحد حل ’گرینڈ ڈائیلاگ‘ ہے مگر صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اس میںفوج اور عدلیہ کو بھی شامل کرنا ہوگا، ان کے بغیر ڈائیلاگ بے نتیجہ ہوگا۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ نگار )
بدقسمتی سے ملکی معیشت خراب اور گورننس بدحالی کا شکار ہے، حکومت کہہ رہی ہے کہ اس سے گورننس اور ناکامیوں کا نہ پوچھا جائے بلکہ ریلیف نہ ملنے کی وجہ تو ماضی کی حکومتوں کی لوٹ مار ہے۔ اسی بیانیے کے تحت اپوزیشن کو دبایا گیا ہے جبکہ اپوزیشن اس سے باہر نکلنا چاہتی ہے اور عوام کو موجودہ حکومت کی ناکامیاں دکھا کر اسے ایکسپوز کرنا چاہتی ہے۔
اس لڑائی میں ملک سیاسی حوالے سے بند گلی میں جا رہا ہے جو نقصاندہ ہوگا۔ حکومت کی غلطیوں سے لوگوں کا معیار زندگی تیزی سے گر رہا ہے، لوگ غریب ہورہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ امیر اور غریب میں فرق بڑھ رہا ہے جو تشویشناک ہے کیونکہ اس طرح کے حالات کسی بھی معاشرے کیلئے خطرناک ہوتے ہیں۔ اندرونی مسائل کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پاکستان اس وقت بڑے چیلنجز سے دوچار ہے، خارجہ پالیسی کے مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں۔
سعودی عرب و گلف ممالک سے تعلقات، سی پیک منصوبہ اور نئے امریکی صدر کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاک امریکا تعلقات ، پاک چین تعلقات و دیگر اہم معاملات بڑے چیلنجز ہیں جن سے نمٹنے کیلئے اندورنی استحکام بہت ضروری ہے۔ حکومت، اپوزیشن اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور اندرونی و بیرونی تمام چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ملک میں ’گرینڈ ڈائیلاگ‘ کرنا ہوگاجس میں طے کیا جائے کہ دستوری اقتدار ہوگا،سب کچھ آئین کے مطابق ہوگا اور سب اپنی اپنی حدود میں کام کریں گے۔
اس کے علاوہ آئندہ 25 سے 30 برس کی منصوبہ بندی بھی جائے تاکہ عوام اور آنے والے حکومتوں کو بھی معلوم ہو کہ کس سمت میں جانا ہے۔ اس کے بغیر ملک میں ہیجانی کیفیت ہی رہے گی۔ تحریک انصاف نے عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے مگر اقتدار میں آنے کے بعد صرف احتساب کا وعدہ یاد رہا، احتساب کے نام ملک میں جو سنسنی پھیلائی جارہی ہے اور ہر روز ایک نیا سکینڈل سامنے لایا جاتا ہے جس کا حاصل کچھ نہیں ہوتا، سب کو سمجھنا چاہیے کہ اگر عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ نہ کیا گیا تو عوام احتساب سمیت تمام معاملات سے لاتعلق ہوجائیں گے۔
اس وقت ملکی مسائل سنگین ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی جماعت کیلئے وفاق میں آنا خودکشی کے مترادف ہوگا لہٰذا اپوزیشن بھی مرکز میں نہیں آنا چاہتی بلکہ پنجاب کی حکومت کیلئے کوششیں کی جائیں گی۔ فیٹف کی پابندیوں کا تعلق ٹیررفرانسنگ سے نہیں بلکہ چین سے تعلقات سے ہے، پاکستان بلیک لسٹ ہوگا اور نہ ہی وائٹ بلکہ ہمیں دبانے کیلئے اسی طرح معاملات چلائے جائیں گے۔ حکومت کو معاملات چلانے، مسائل کے حل کیلئے قانون سازی اور ترامیم کرنے کیلئے اپوزیشن کی ضرورت ہے بصورت دیگر یہ مسائل حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بنیں گے۔ موجودہ مشکل حالات میں وزیراعظم بہتر سیاسی حکمت عملی سے کام لیں اور سب کو ڈائیلاگ کی دعوت دیکر ملک کو مسائل سے نکالیں، انہیں سمجھنا چاہیے کہ اندرونی سیاسی استحکام سے ہی تمام مسائل کا حل ممکن ہے۔
سلمان عابد
(دانشور )
حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ دونوں کے درمیان اعتماد کا بدترین فقدان ہے، اپوزیشن ان کے انتخاب پر سوال اٹھا رہی ہے جبکہ وزیراعظم مفاہمت کے حامی نہیں ہیں اور اس لڑائی میں دونوں فریقین نے ہی نقصان اٹھایا ہے۔ اس وقت ملک کواندرونی ، معاشی اور علاقائی سیاسی استحکام کی صورت میں 3 بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ ان چیلنجز میں اندرونی استحکام سب سے ضروری ہے اور اس سے ہی معاشی اور علاقائی سیاسی استحکام ممکن ہے مگر بدقسمتی سے اس وقت ملک اندورونی طور پر سیاسی حوالے سے کمزور ہے۔
پاکستان میں شروع سے ہی سول ملٹری تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے مگر موجودہ دور حکومت میں ان کے مابین تعلقات بہترین ہیں۔اس بار اپوزیشن براہ راست اسٹبلشمنٹ اور اداروں کے سربراہان کا نام لے رہی ہے اور یہ پہلی بار ہے کہ سیاسی لڑائی میں اداروں کی ساکھ بھی سٹیک پر لگ گئی ہے۔
یہ لڑائی جمہوریت ، قانون اور عوام کی حکمرانی نہیں بلکہ طاقت کے مراکز کی لڑائی ہے، جس میں عوام کو ریلیف دینا شامل نہیںبلکہ اس لڑائی سے ملک اورعوام کا نقصان ہورہا ہے۔ اپوزیشن غیر متعلقہ ہوچکی تھی مگر ’پی ڈی ایم‘ کی صورت میں اس کی اہمیت بڑھ گئی مگر اس نے عمران خان کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا، سمجھ نہیں آرہا کہ پی ڈی ایم کیا چاہتی ہے؟ اپوزیشن ضمنی انتخابات اور سینیٹ میں حصہ لے رہی ہے، اب تحریک عدم اعتماد کی باتیں کی جارہی ہیں، آصف زرداری وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں، اس وقت انہوں نے اچھا کارڈ کھیلا ہے، انہیں معلوم ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی تاہم یہ معاملات کو لٹکانے کا حربہ ہے۔
پی ڈی ایم کا لانگ مارچ بھی تاحال نہیں ہوسکا، اب مارچ میں مارچ کی باتیں ہورہی ہیں مگر سینیٹ الیکشن کی وجہ سے لانگ مارچ نہیں ہوگا، اپریل میں ماہ رمضان ہے لہٰذا عید کے بعد ہی کچھ ہوسکتا ہے۔ پی ڈی ایم تاحال ہر حربے میں ناکام ہوئی ہے۔پہلے اس نے فوج اور حکومت کے درمیان معاملات خراب کرنے کی کوشش کی جو نہیں کر سکی۔ پھر اداروں کے سربراہان کا نام لے کر اداروں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی مگر اس میں بھی ناکامی ہوئی اور اب اب وہ حکومت کی کارکردگی متاثر کرنے اور اسے ناکام حکومت ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لاہور جلسے کے بعد پی ڈی ایم اور مریم نواز کو جھٹکا لگا، الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے کیا جانے والا احتجاج بھی متاثر کن نہیں تھا جس سے تحریک میں کمی آئی ہے۔
اب حکومت ’پی ڈی ایم‘ سے خائف ہونے کے بجائے ان کے اندرونی فاصلوں اور مسائل کا مزہ لے رہی ہے تاہم حکومت کو جو اصل چیلنج درپیش ہے وہ گورننس کا مسئلہ ہے، حکومت اس حوالے سے ناکام ہوئی ہے، عام آدمی کو ریلیف نہیں ملا بلکہ اس کی مشکلات میں اضافہ ہو اہے۔ خارجی محاذ پر پاکستان نے کامیابی حاصل کی ہے اور بھارت کو پیچھے دھکیلا ہے تاہم اس میں کامیابی صرف حکومت کی نہیں متعلقہ اداروں کی بھی ہے۔ جمہوریت میں ڈائیلاگ کا راستہ بند ہوجائے تو انتشار پیدا ہوتا ہے لہٰذا موجودہ سیاسی کشیدگی کے خاتمے کیلئے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کومل کر ’گرینڈ ڈائیلاگ‘ کرنا ہوگا، مل کر معیشت، گورننس، انتخابی اصلاحات، علاقائی سیاست و دیگر معاملات طے کیے جائیں ، اس حوالے سے وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں جاکر سب کو ڈائیلاگ کی دعوت دینا ہوگی۔
The post ملک کو درپیش تمام چیلنجز کا حل گرینڈ ڈائیلاگ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3oDrMBL
0 comments:
Post a Comment