Ads

تعلیم اور نظام اقدارکا بحران

وفاقی حکومت نے 18 جنوری سے تعلیمی ادارے مرحلہ وارکھولنے کا اعلان کردیا ہے۔کورونا وائرس کے تسلسل کے باعث ایسے اعلانات اس سے قبل بھی ہوچکے ہیں لیکن بادی النظر میں تعلیمی ماہرین اور تدریسی دانشور اس حقیقت کا ادارک رکھتے ہیں کہ مرکزی حکومت اور صوبائی وزارتوں کا طرز عمل آن گراوؤنڈ سنجیدہ نہیں ہے، وہ ایڈہاک ازم کا شکار ہیں اور تعلیمی مسائل کی گمبھیرتا نے انھیں فکری ابہام کا شکار بنادیا ہے.

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق پہلے مرحلے میں 18 جنوری سے نویں،دسویں (میٹرک) اورگیارہویں، بارہویں (انٹر)تک تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ پہلی سے8 ویں تک تعلیمی ادارے25 جنوری سے کھولے جائیں گے۔یکم فروری سے یونیورسٹیز میں تدریس کا عمل شروع ہوگا۔ مارچ میں ہونے والے بورڈ کے امتحانات اب مئی اور جون میں ہوںگے۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت شفقت محمود کی زیرصدارت بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس ہوئی، جس میں صوبائی وزرائے تعلیم نے ویڈیولنک کے ذریعے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک میں کورونا صورتحال، وائرس سے بچاؤ کے لیے اقدامات اورایس او پیز پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ کورونا کی دوسری لہر میں کافی حد تک ٹھہراؤ آیا ہے اور تعلیمی ادارے بند ہونے سے کورونا کیسز میں کمی آئی۔

اس سلسلے میں پنجاب کے صوبائی وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس کا کہنا ہے کہ جو طے شدہ ایس او پیز پر عمل پیرا نہیں ہوگا، اس کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ دوسری جانب وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ اسکول کب سے کھلیں گے، اس حوالے سے ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔

وزیر تعلیم سندھ نے بتایا کہ25 جنوری سے پرائمری اسکول کھولنے کی تجویز آئی ہے جب کہ سیکنڈری اسکول فروری کے پہلے ہفتے میں کھولنے کی تجویز سامنے آئی ہے، بعد میں بڑی کلاسیں کھولنے کی تجویز بھیجی گئی ہے۔19جنوری کو اجلاس میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ تجویز میں تین مراحل میں اسکول کھولنے کی بات کی گئی ہے۔ اسکول کھولنے کا فیصلہ این سی او سی، ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کا ڈیٹا دیکھ کرکرنا ہے۔

زمینی تعلیمی حقائق کا منظرنامہ قابل غور ہے، تخلیقی وتدریسی کلچرکی نشوونما میں غیرتعلیمی قوتوں کے ہوس زر کا عمل دخل بہت بڑھ گیا، پورے نظام تعلیم کو مسخ کرنے کی تاجرانہ مہم جوئی اور کاروباری کوششوں نے طالب علموں سے امتحانات اور تحقیق وتدریس کی متاع گم گشتہ چھین لی ہے۔

آج قوم ایک باوقار اور صد فی صد شفافیت پر مبنی نظام تعلیم وتدریس کو ترس رہی ہے اور ٹیلنٹ کو دیس نکالا مل چکا ہے، لہٰذا جو ماہرین تعلیم اسکولوں،کالجوں اورجامعات میں تدریس کی تاریخیں مرحلہ وار دے رہے ہیں انھیں خبر ہونی چاہیے کہ تعلیمی پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے اور تعلیم کے تاجروں، بوٹی مافیا نے قوم کی فکری مٹی سیم وتھورسے متاثرہ دلدلی زمین بنا دی ہے ۔

نئی نسل اس منطقی، فلسفیانہ اور سائنسی و تیکنیکی سوچ سے میلوں دور پھینک دی گئی ہے ، جن درسگاہوں کی اقدار سے آشنائی کی دولت کو ان کے معتبر استاد اپنی زندگی اور تعلیمی مشن کا سرچشمہ قراردیتے تھے، آج بدقسمتی سے استاد اور طالب علم کے درمیان ایک ایسا بوالہوس طبقہ حائل ہوگیا ہے جس کا مقصد حیات شارت کٹ اور پیسہ بناؤ چمتکاری کے سوا کچھ اورنہیں، اس لیے ماہرین تعلیم قوم کو بتائیں کہ ارباب اختیار تعلیمی آدرش کے کن آفاقی اصولوں کی روشنی میں نظام تعلیم مستقبل کی صورت گری کررہے ہیں؟

یکساں نظام تعلیم نافذ ہورہا ہے مگر ملکی نظام اقدار اور قوم کی بنیادی فکری اساس کی مضبوطی میں مادر علمی کی عملی حیثیت کیا ہے،کس نے تعلیم کو تجارت ، نفع بخش پیشہ کی چابی ہاتھ میں تھما دی ہے کہ پورا سماج تعلیمی جعل سازی اور دونمبرکام کی نذر ہوگیا ہے۔

ماہرین تعلیم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیم وتدریس کا ڈھانچہ ملک میں پھیلے ہوئے نقل اور بوٹی مافیا کی زد میں ہے، نظام امتحانات کی مٹی پلید ہوگئی،کنٹرولر امتحانات سر پکڑکر بیٹھ گئے، وہ تمام طالب علم جن کے والدین اپنی حق حلال کی کمائی کو بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنے کی فکر میں غلطاں تھے انھیں تعلیم فروشوں کی یلغار نے پریشان کردیا، جو اہل طلبا وطالبات ہیں، دن رات محنت سے پڑھائی کرنے میں منہمک ہیں وہ ان خبروں سے کس قدر متاثر ہوں گے اور وزارت تعلیم کے حکام کو ادراک ہے کہ پرچوں کے ’’آؤٹ‘‘ ہونے کی مافیائی علم دشمنی میں کون سے پردہ دار ملوث ہیں۔ عام آدمی یا گروہ ایسے خطرناک کاروبار میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا، جن کے کارندے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لیے شرمسارکھڑے نظر آتے ہیں۔

میڈیا کے مطابق پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تمام امتحانات مشکوک ہو گئے ہیں۔ انسپکٹر اینٹی کرپشن کے لیے ٹاپ کرنے والے دونوں امیدواروں نے پرچے خریدے تھے،کمیشن کے اعلیٰ افسروں کے ملوث ہونے کا امکان ظاہرکیا جارہا ہے، ٹیسٹنگ کنسلٹنٹ کو بھی گرفتارکرلیا گیا ہے ملزمان نے لیکچرار ایجوکیشن، کیمسٹری، تحصیلدار، ڈپٹی اکاؤنٹس آفیسر، انسپکٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن سمیت 12پرچے فروخت کرنے کا انکشاف کیا ہے۔ ذرایع کے مطابق پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تمام امتحانات مشکوک ہو گئے ہیں۔ گروہ نے 12امتحانات کے پیپرز لیک کرکے فروخت کیے جن میں لیکچرر، تحصیلدار، ڈپٹی اکاؤنٹس آفیسر، انسپکٹر اوراسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کے پرچے شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ کی بنائی گئی تحقیقاتی ٹیم نے ابتدائی رپورٹ تیارکرلی ہے۔ تحقیقات کے مطابق پی پی ایس سی کے متعدد افراد کے منظم گروہ کے ساتھ رابطے میں تھے، ملزمان نے تسلیم کیا کہ انسپکٹرزکا پرچہ لیک کرنے کا ریٹ 10لاکھ سے 15لاکھ رکھا۔ یہ پرچہ 8 افراد کو فروخت کیا گیا ،اینٹی کرپشن کے امتحان کا پرچہ 12لاکھ سے18 لاکھ کے درمیان فروخت کیا۔

صحافت،کیمسٹری، ایجوکیشن سمیت متعدد مضامین کے لیکچررزکی اسامیوں کے لیے بھی پرچے فروخت کیے گئے۔ اینٹی کرپشن پنجاب نے پی پی ایس سی کے پیپر لیک اسکینڈل میں ایک اور ملزم کوگرفتارکرکے عدالت سے دو روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا۔ ملزم نے تحصیلدار کے پرچے کے لیے 6 امیدواروں کو بک کیا تھا۔ اینٹی کرپشن ذرایع کے مطابق ملزم نے ایجوکیشن کمیشن میں کنسلٹنٹ ٹیسٹنگ ہے۔

اس کی تنخواہ ساڑھے 3 لاکھ روپے ہے۔ ملزم 210 سے 2017 تک ریجنل ڈائریکٹر این ٹی ایس رہا۔ ملزم نے اس کے بعد سی ٹی ایس بنا لی۔ ایک ملزم کی وٹس ایپ چیٹ سے دوسرے ملزم کے ملوث ہونے کا ثبوت ملا۔ امیدواروں کو رشوت کے عوض بک کرنے کی ذمے داری ایک ملزم کی تھی۔ بک کیے گئے امیدواروں کو ایک ملزم ، دوسرے ملزم کے حوالے کرتا تھا۔ اینٹی کرپشن حکام کے مطابق تحقیقات کے دوران ملزمان نے 12 اہم اسامیوں کے پرچے لیک کرنے کا انکشاف کیا ہے۔ جس کے بعد اینٹی کرپشن میں انسپکٹرز اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی اسامیوں پر بھرتیوں کا عمل بھی مشکوک ہوگیا ہے۔

اینٹی کرپشن میں انسپکٹرزکی اسامیوں کے لیے دونوں ٹاپرز بھی پرچہ خرید کر کامیاب ہوئے۔ انسپکٹر اینٹی کرپشن کی آسامی کے لیے دونوں ٹاپر بھی لیک پرچہ خریدنے والے امیدواروں میں شامل تھے۔ اینٹی کرپشن کے پرچے آؤٹ کرنے کے لیے امیدواروں سے فی کس مبینہ 5لاکھ روپے رشوت لی گئی۔ اینٹی کرپشن نے پی پی ایس سی کے گرفتار ڈیٹا اینٹری آپریٹرکے بیانات پر تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا ہے ۔ پرچہ لیک ہونے کے اسکینڈل میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے اعلیٰ افسران کے ملوث ہونے کا بھی امکان ہے۔

اینٹی کرپشن نے پی پی ایس سی کے ڈیٹا اینٹری آپریٹرزکو حراست میں لے لیا ہے، ڈی جی اینٹی کرپشن کا کہنا ہے کہ معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے۔ اسکینڈل کے تمام کرداروں کو جلد بے نقاب کرینگے۔لیکن سوال یہ ہے کہ جن مچھلیوں نے تعلیمی تالاب کوگندا کردیا ہے وہ تو پہلے سے ملک بھر میں پھیل چکی ہیں، مسئلہ چند تعلیم دشمنوں کا نہیں، یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، تحقیق اس بات پر ہونی چاہیے کہ جس ملک کے نظام تعلیم میں اتنے بڑے پیمانے پر سالہا سال سے ڈکیتیاں پڑرہی ہیں۔

ان گروہوں نے کیسا طبقہ پیدا کیا، جن کے بچے ان ہی نقل وبوٹی مافیا اور پرچہ لیک کرنے والے کی خرد دشمنی کے باعث تعلیمی اداروں سے ڈگریاں لیتے رہے، وہ بھی جعلی اور ان اسنادکی بنیاد پر وہ ترقیاں پاتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے جب کہ غریب مگراہل و ذہین طلبا وطالبات میریٹوکریسی نہ ہونے اور اقربا پروری کی وجہ سے تقرری اور ترقی نہ پاسکے تاہم کند ذہن،کام چور عناصر چور دروازے اور شارٹ کٹ تعلیم کی دیوار پھلانگ کر سرکاری ملازمتیں حاصل کرتے رہے،انھوں نے اشرافیائی طبقہ اور افسر شاہی کے وہ خواب پورے کرلیے جو مستحق اور اہل وغریب طالب علموں کے نصیب میں نہیں لکھے گئے تھے، اس چور دروازے کو اب بند ہونا چاہیے، یہ تعلیمی شعبے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

دوسری طرف اقربا پروری کے ناسور پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، تعلیم کا پورا نظام حکومتی فیصلہ سازی کے بحران سے متاثر ہوا ہے، وفاق وصوبوں میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے تضاد نے مرکزیت کے دھند کو گہرا کردیا۔ دوسری طرف اقربا پروری نے زندگی کے مختلف شعبوں اور فنون لطیفہ سے لے کر کھیل کی دنیا میں جوہر قابل کو بے قدری کے کنویں میں پھینک دیا، فٹبال، کبڈی، کشتی رانی، ملاکھڑہ اور باکسنگ و سائیکلنگ کے قومی ٹیلنٹ کو نظراندازکیا، ہاکی کی کیا حالت ہوگئی ہے۔

ایشیائی شہ سوارکوکہیں جائے پناہ نہیں ملتی۔ لیاری میں برازیل جیسی چارٹیمیں بنائی جاسکتی ہیں مگر فٹبالرکوکوئی پوچھتا نہیں۔لہٰذا ناقدری اور اقربا پروری کے اس کورونا وائرس کا بھی کوئی علاج تلاش کیجیے، اس طرح کی گروہی، لسانی اور قوم پرستی کی متعصبانہ روش اور غیر منصفانہ پالیسیوں سے ملک ترقی نہیں کرسکتا ، قوم کو ایک شفاف ہمہ جہتی نظام اقدارکی ضرورت ہے۔

The post تعلیم اور نظام اقدارکا بحران appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LkDBPk
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment