Ads

ویکسی نیشن کا آغاز اور درپیش چیلنجز

این سی او سی کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق کورونا وائرس سے ایک ہی دن میں مزید 49 افراد جان کی بازی ہارگئے، مجموعی اموات کی تعداد 11 ہزار637 ہو گئی ہے، دوسری طرف نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینیٹر (این سی او سی) کے سربراہ اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے اعلان کیا ہے کہ کوویکس کی جانب سے ایک کروڑ 70لاکھ ویکسین ڈوزفراہمی کا خط موصول ہواہے، کورونا ویکسین فروری سے ملنا شروع ہو رہی ہے جب کہ حکومتی سطح پر فرنٹ لائن ہیلتھ ورکروں کو پہلی بار کووڈ19 سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین لگانے کے تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔

یہ جان لیوا وباء دنیا کے بائیس لاکھ افراد کی جان لے چکی ہے، وبا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے مسیحاؤں نے اب ویکسین ایجاد کرلی ہے اور اس کو لگانے کے عمل کا بتدریج آغاز ہوچکا ہے ۔ پاکستانیوں کے لیے بھی یہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ دوست ملک چین سے درآمد ویکسین لگانے کے عمل کا آغاز ہونے جارہا ہے۔

بلاشبہ پاکستان میں انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے،لیکن دوسری طرف پاکستانی قوم جس طرح بے خوف وخطر سڑکوں، بازاروں ، پارکوں اور شاپنگ سینٹر میں جم غفیر کی صورت میں نظرآرہی ہے ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس وبا سرے سے موجود نہیں ہے، قوم کا یہ طرزعمل اختیار کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے اور ایک ہم ہیں کہ احتیاطی تدابیر کونظرانداز کررہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قوم سوشل میڈیا سے پھیلائی جانے والی سازشی تھیوری اور افواہوں پریقین کرچکی ہے۔

یہ طرز تغافل ہمارے لیے آنے والے دنوں میں مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دے گا۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ایسے سخت اقدامات دوبارہ اٹھائے ، جس میں بے احتیاطی اور لاپرواہی برتنے والے افراد کو قرار واقعی سزا دی جاسکے ، ہم خطرے کی تمام حدود پار کرچکے ہیں ، احتیاط کے دامن چھوڑنے کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے، خدانخواستہ متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھ گئی تو انسانی اموات پر قابوپانا مشکل ہوجائے گا، چند منٹ نکال کر ہر شخص اپنی غفلت ، لاپرواہی اور غیرسنجیدہ طرزعمل کے بارے میں سوچے تو اصلاح کی امید پیدا ہوسکتی ہے۔

عوام کی حکومت سے یہ خوش گمانی درست معلوم ہوتی ہے کہ ویکسی نیشن کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا ۔ کوروناوائرس نے پوری دنیا کا نظام ہی بدل دیا ہے، ترقی یافتہ ، ترقی پذیر اور غریب ممالک ایک ہی صف میںکھڑے نظر آتے ہیں ، اس وبا کے پھیلاؤ سے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع جاری رہنا اور ایک برس بعد ویکسین کی تیاری نے ایک سوال کو جنم ضرور دیا ہے کہ انسان اپنی بربادی کا سامان خود کررہا ہے۔

دنیا کے تمام ممالک نے شعبہ صحت کو بری طرح نظراندازکیا ہے ، صرف دولت کی ہوس اور ہتھیاروں کی تیاری کے جنون میں مبتلا انسان نے اقدار اور سب سے بڑھ کر جان کی حرمت اور اہمیت کو بھلادیا ہے۔بنی نوع انسان کو بہت سے معاشی اور اقتصادی مسائل کا سامنا  آنے والے کئی برسوں تک کرنا پڑے گا، کیا دنیا کی وہ تمام رونقیں ویکسی نیشن کے بعد لوٹ آئیں گی جو اس وبا کے آغاز سے پہلے تھیں ، اس سوال کا جواب قبل از وقت ہے، ماہرین کے مطابق دنیا کو اپنی اصل حالت میں لوٹنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

پاکستانی حکومت کے ایک محتاط ترین اندازے کے مطابق دنیا بھر سے 90 ہزار پاکستانیوں کی ملازمتیں ختم ہوئی ہیں، یہ وہ پاکستانی ہیں،جو ملکی معیشت کو چلانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں ، ان کا بے روزگارہوجانا ، ملکی معیشت کے لیے کسی بھی طور نیک شگون قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس وقت سب سے بڑا چیلنج کورونا ہی ہے جس کے باعث بیرون ممالک میں تعمیرات، کنسٹرکشن انڈسٹری، ہوٹلنگ اور اس سے وابستہ دیگر کاروبار مکمل طور فعال نہیں ہو پا رہے ہیں، جس سے نہ صرف میزبان ممالک مسائل کا شکار ہیں بلکہ کمپنیوں کو روزگار کے مواقعے فراہم کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے،انھی چیلنجز میں ایک بڑا چیلنج ان پاکستانیوں کا بھی ہے جو کورونا سے پہلے پاکستان آئے تھے اور ان کے اقاموں کی میعاد ختم ہوگئی تھی، یہ کورونا وائرس کی ملکی معیشت پر ایک ایسی کاری ضرب ہے، جس کے زخم بھرنے میں بہت وقت لگے گا۔

ملکی اخبارات میں یہ خبریں بھی شایع ہوئی ہیں کہ ٹریول انڈسٹری کے50 فیصد دفاتر ڈیفالٹرز ہوکر بند ہوگئے ہیں اور اس انڈسٹری سے30 ہزار ملازمین کو بھی فارغ کر کے بے روزگار کر دیا گیا ہے۔ نئے سال کے آغاز پر ٹریول اینڈ ٹورز انڈسٹری نے فوری بیل آؤٹ پیکیج، آسان شرائط پر قرضے دینے کا مطالبہ کر دیا ہے اور ایس ای سی پی کو انشورنس کمپنیوں کو ٹریول ایجنسیوں کی بینک گارنٹی جاری کرنے کی فوری اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

شعبہ سیاحت اگرچہ اکثر و بیشتر دہشت گردی کے واقعات، قدرتی آفات اور ملکی سیاست کی رسہ کشی و دیگر کئی وجوہات کے باعث مختلف صورتوں میں متاثر رہا ہے مگر گزشتہ تین سے چار برسوں سے ملک میں امن و امان کی بہتر ہوتی صورتحال، قدرتی آفات میں کمی، سوشل میڈیا پر عوام میں آگاہی اور حکومتی توجہ سے سیاحت کی صنعت میں بہت بہتری آئی ہے اور یہ شعبہ بھی ملکی جی ڈی پی میں 80کروڑ روپے سے زائد کا حصہ ڈالنے کے قابل ہوگیا تھا اور توقع کی جارہی تھی کہ 2025تک یہ رقم ایک کھرب تک پہنچ جائے گی، لیکن اب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب یہ ہدف حاصل ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔

پاکستان میں مئی سے اگست تک کے سیاحتی سیزن کے لیے غیر ملکی سیاحوں کی بکنگ و ریزرویشن کا عمل مارچ تک مکمل ہوجاتا ہے مگر اس بار کورونا ایمرجنسی کی وجہ سے اب تک غیر ملکی سیاحوں کی بکنگ نہ ہونے کے برابر ہے اور جو پہلے ہی ہوچکی تھی، اب وہ بھی منسوخ ہورہی ہیں۔ پاکستانی پہاڑ سر کرنے والے کوہ پیماؤں اور سیر سپاٹے کے لیے آنے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق اٹلی، جرمنی، اسپین، پولینڈ، جاپان اور کوریا سے ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے مذکورہ ممالک ہی کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستان میں سیاحت کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کے لیے بینکوں سے قرضہ لینے والے افراد کو بینکوں کی طرف سے تعاون اور سود میں کمی، لوکل ٹور آپریٹرز کے لیے خصوصی پیکیج اس شعبے سے وابستہ پورٹرز، گائیڈ، ڈرائیور اور ہوٹل میں کام کرنے والے افراد کے لیے خصوصی اقدامات یہ وہ کام ہے جنھیں ہر حال میں کرنا ہوگا، ورنہ یاد رکھیے کہ ہم نے بڑی مشکل سے ابھی سیاحتی شعبے کو پیروں پر کھڑا ہی کیا تھا اور اگر آج لوگ نقصان کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے تو دوبارہ اس صنعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ایک بار پھر بہت زیادہ محنت کرنی ہوگی۔

ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں70فیصد سے زائد ملازمت کے مواقعے اور 3فیصد شرح نمو فراہم کرنے والا زرعی شعبہ قدرت کا عطیہ ‘ جس کی پاکستان میں سرکاری سطح پر خاطرخواہ قدردانی دکھائی نہیں دیتی ہے ۔کورونا اور زرعی شعبے کی مشکلات کسی ایک صوبے کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں زرعی معیشت و معاشرت دباؤ غیریقینی دور سے گزر رہی ہے اور اِس پورے ماحول میں قومی و صوبائی سطح پر زرعی حکمت عملیوں کو مربوط و منظم کرنے کی ضرورت ہے، بالخصوص چھوٹے کاشتکار توجہ کے مستحق ہیں۔

جن کی اکثریت اِجارے (ٹھیکے) پر اَراضی حاصل کرتی ہے اور جاگیردار اُن کے خسارے میں شریک (حصہ دار) نہیں ہوتے۔ وہ زرعی شعبہ جو بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت اور سبزی و پھل کی غیرمستحکم قیمتوں (منڈیوں) کے باعث دباؤ سے گزر رہے ہیں‘ انھیں سہارا دینے کے لیے یہی مناسب وقت ہے جس کے ذریعے نہ صرف زرعی شعبے کو ڈوبنے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ اِس سے غذائی خودکفالت کی صورتحال میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور مہنگائی کی بڑھتی شرح پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

وطن عزیز کے لاکھوں نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود روزگار کے مواقعے نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری سے نبرد آزما ہیں جس کی وجہ سے مایوسی نے ان کو آن گھیرا ہے ۔ نوجوان اپنے والدین اور اپنی محنت سے حاصل کردہ تعلیم کو عملی میدان میں استعمال کرنے سے قاصر ہیں، جس سے نوجوانوں کی صلاحیتوں پر زنگ لگ رہا ہے۔ چین کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے،چین نے صنعتی میدان میں گزشتہ چند دہائیوں میں اپنی پالیسیوں کی بنیاد پر بیش بہا ترقی کر کے ایک مثال قائم کی ہے اور ایک نئی اقتصادی سپر پاور کے طور پر سامنے آکر ہر ملک کی اشد ضرورت بن گیا ہے۔

ہمیں اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے کے لیے چین کے ماڈل کو سامنے رکھنا پڑے گا، اب یہ حکومتی معاشی ماہرین کی صلاحیتوں کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ آنیوالے دنوں میں کوروناوائرس کے سبب ملکی معیشت کو ہونیوالے نقصانات کا ازالہ کس طرح کرپاتے ہیں اور ایسی کونسی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں جو قوم کے تن مردہ میں روح پھونکنے کا سبب بن سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مزید صنعتوں کے قیام اور صنعتی سہولیات کی فراہمی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے اور جنگی بنیادوں پر کام کرے جس سے ہمارا ملک دنیا کے ترقی پزیر ممالک کے ہم پلہ کھڑا ہوسکے۔

The post ویکسی نیشن کا آغاز اور درپیش چیلنجز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3totF98
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment