پاکستان کی تاریخ حالیہ ضمنی انتخابات کو یاد رکھے گی۔ یہ خون خرابے اور دلچسپی سے بھرپور تھے۔ کراچی میں گولیاں چلیں، ڈسکہ میں 2 بندے مارے گئے۔ چھوٹے سے شہر میں فائرنگ کرنے والے دندناتے پھرتے رہے۔ جیسے تیسے ووٹ پڑگئے۔ جب گنتی کی باری آئی تو مزاح سے بھرپور۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے رات گیارہ بجے کے سلاٹ میں کوئی مزاحیہ پروگرام چل رہا ہو۔
این اے 75 کے بیس سے زائد پولنگ اسٹیشنوں کا عملہ ہی غائب ہوگیا۔ 11 گھنٹے کے بعد اچانک اکٹھا آر او کے پاس پہنچ گیا۔ وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ دھند تھی۔ تحریک انصاف کو بری شکست ہوئی۔ سندھ، پنجاب میں تو ہاری ہی ہے، خیبرپختونخوا میں تو اپنی جیتی ہوئی سیٹ چھن گئی۔ اپوزیشن کو گھر میں گھس کر مارنے کا نعرہ بھی مل گیا۔
ضمنی انتخابات اور ان کے نتائج نے ایک ماحول بنادیا ہے۔ یہ ماحول حکمران جماعت کےلیے اچھا نہیں۔ آج کل پی ٹی آئی وزرا کے چہروں پر پریشانی بھی نظر آرہی ہے۔ اس ماحول میں کوئی اپ سیٹ ہوجاتا ہے تو یہ پی ٹی آئی کےلیے بالکل اچھا نہیں ہوگا۔ اپ سیٹ کے بعد ہلچل مچ جائے گی۔
بحث یہ ہے کہ وزیراعظم کا شو آف ہینڈ پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ ان کو اتنا خوف کیوں ہے؟ کچھ ڈر ہے تو اتنا شور مچ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی وہ چمک دمک نہیں رہی جو ڈھائی سال قبل تھی۔ ضمنی الیکشن حکومت کےلیے شرمندگی کا باعث بن چکے ہیں۔ ن لیگ کو تو نقصان نہیں ہوا، بلکہ فائدہ ہوا ہے۔ الیکشن نفسیاتی جنگ ہوتی ہے، مخالف کو مرعوب کرنا ہوتا ہے۔ ایک بیان بازی ہوتی ہے، دوسری سیاسی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ جوڑ توڑ ہوتی ہے۔ یہ دونوں عناصر نفسیاتی جنگ میں اہم ہوتے ہیں۔ ضمنی انتخابات کا سینیٹ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن نفسیات کا تعلق ضرور ہے۔ کوشش دونوں طرف سے ہے کہ ہم جیت جائیں، وہ ہار جائیں۔ اس وقت نفسیاتی طور پر اپوزیشن کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ سے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف کی ضمانت ہوگئی ہے۔ انہوں نے تقریباً 2 سال قید کاٹی ہے۔ جیل نے حمزہ شہباز کے سیاسی قد کو بڑھا دیا ہے۔ حمزہ شہباز کا مریم نواز سے سیاسی تجربہ کہیں زیادہ ہے۔ کیا وہ مریم نواز کی زیر قیادت سیاست کریں گے؟ شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی خارج از امکان نہیں۔ حمزہ شہباز کی رہائی کی ٹائمنگ کتنی اہم ہے؟ پاکستانی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی؟
دیکھا جائے تو یہ غیر معمولی اہمیت کا حامل واقعہ ہے۔ حمزہ شہباز کا اثر و رسوخ بہت ہے۔ یہ پنجاب کے ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ بھی رہے۔ ہم نے دیکھا کہ ایم پی ایز، ایم این ایز کا ان کے دفتر کے باہر رش لگا ہوتا تھا۔ آنے والے الیکشن سے پہلے ان کے تعلقات کی بہت اہمیت ہے۔ حمزہ شہباز کی تنظیمی گرفت مریم نواز سے زیادہ ہے۔ ابھی تک مریم نواز سب کچھ اکیلے کھیل رہی تھیں، اب ان کا ساتھ دینے والا باہر آگیا ہے۔ ن لیگی ذرائع بتاتے ہیں کہ نواز شریف کو 2013 میں بطور وزیراعظم آگے لانے میں، قائل کرنے میں حمزہ شہباز نے کردار ادا کیا۔ نواز شریف بھی وقتاً فوقتاً ان کو سیاسی جانشین قرار دیتے رہے۔ حمزہ شہباز کے پاس چوائس ہے کہ وہ مریم نواز کے ساتھ مل کرچلیں یا پھر چوہدری نثار کی طرح بغاوت کردیں۔ کیوں کہ ن لیگ میں کئی ایسے ارکان اسمبلی ہیں جو مریم نواز کے بیانیے کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔
وہ کر کیا سکتے ہیں؟ اس وقت مریم نواز نے پارٹی نظریے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ نواز شریف کا ہاتھ بھی ان کے سر پر ہے۔ حمزہ شہباز کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مریم نواز کی سپورٹ کریں یا پھر خاموش ہوجائیں۔ لیکن حمزہ شہباز نہ تو خاموش رہیں گے اور نہ ہی چوہدری نثار بنیں گے۔ شہباز شریف یا حمزہ نے پارٹی ٹیک اوور کرنی ہوتی تو پہلے ہی کرلیتے۔ اس وقت میدان صاف تھا جب نواز شریف اور مریم نواز اندر تھے۔ شریف خاندان کا تعلق بہت مضبوط ہے۔ شریف خاندان میں ایک دوسرے کی بہت عزت ہے۔ ان کے آپس میں سو اختلاف بھی ہوں تو ان کی بدن بولی سے کبھی بھی نہیں لگے گا کہ کوئی اختلاف ہے۔ ایک مثال ہمارے سامنے ہے کہ جج ارشد ملک کے حوالے سے پریس کانفرنس میں شہباز شریف نہیں بیٹھنا چاہتے تھے۔ مریم نواز کے کہنے پر ان کو بیٹھنا پڑا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک نیام میں دو تلواریں رہتی ہیں یا نہیں؟ میرے خیال میں حمزہ شہباز پنجاب کو دیکھیں گے اور مریم نواز مرکز میں رہیں گی۔ اگر مریم نواز دوبارہ سے گرفتار ہوتی ہیں تو پھر بھی پارٹی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مریم نواز نے اپنے آپ کو پارٹی میں منوا لیا ہے۔ ایک بار پھر پارٹی کو زندہ کیا، مخالفین کی لاکھ کوششوں اور دعوؤں کے باوجود اپنے ارکان کو بکھرنے نہیں دیا۔ اپنا ووٹ بھی برقرار رکھا ہے، جس کی تازہ مثال ضمنی انتخابات ہیں۔
غور کیجئے تو ن لیگ کا ڈی این اے تبدیل ہوگیا ہے۔ احتجاج اور دھرنوں کی سیاست سے دور بھاگنے والی ن لیگ اب جارحانہ پارٹی بن چکی ہے۔ اب ٹھنڈا میٹھا بیانیہ نہیں چل سکتا۔ تلواریں ایک ہی نیام میں رہیں گی لیکن چلے گی وہی جس میں مخالفین کو کاٹنے کی صلاحیت ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post حمزہ کی رہائی: ن لیگی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Mr5Z37
via Blogger https://ift.tt/3knxreR
February 25, 2021 at 09:59PM
0 comments:
Post a Comment