پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور فیصلہ کن جنگ لڑی جس میں مختلف مراحل طے کیے گئے۔
چار برس قبل آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا جس کے تحت ملک کے طول و عرض میں ہزاروں کامیاب آپریشن کیے گئے جن سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی، ان کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا گیا ،انہیں جہنم واصل کیا گیا اور بیشتر کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیاگیا۔
حال ہی میں آپریشن ردالفساد کے کامیاب چار سال مکمل ہوئے ہیں جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے قوم کو بریفگنگ دی۔ اس اہم آپریشن کے چار سال مکمل ہونے پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا اور اس کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
مولانا طاہر محمود اشرفی ( وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی )
افغانستان کے جہاد کے خاتمے کے بعد سے پاکستان پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی مگر پوری قوم، افواج پاکستان اور سلامتی کے اداروں نے مل کر اس کا مقابلہ کیا۔ سنہ 2000ء کے بعد ہمارے دشمنوں نے پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو پھیلانے کا منصوبہ بنایا جس کے بعد ہمارے پارک، مساجد، امام بارگاہیں،چرچ کوئی مقام ایسا نہیں تھا جو محفوظ رہا ہو۔ دہشت گردوں نے ہمارے بچوں کو بھی نہیں چھوڑا اور آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کرکے بدترین کام کیاجس کے بعد قوم نے فیصلہ کیا کہ اب ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے۔
اس کے نتیجے میں آپریشن ردالفساد کیا گیا جس کی ذمہ داری صرف فوج نہیں بلکہ پوری قوم نے لی۔ آپریشن ردالفسادسے میں امن ، سکون اور اطمینان آیا اور اس آپریشن کی کامیابی کی بڑی وجہ قومی اتحاد تھا۔ اس جنگ میں ہمارے 80 ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں فوج، پولیس و سکیورٹی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد، بچے، بڑے ، بوڑھے اور8 ہزار علماء شامل ہیں۔ہمارے دشمن نے ملک کو کمزور کرنے کیلئے یہاں دینی اداروں، افواج پاکستان اور سلامتی کے اداروں میں ٹکرائو پیدا کرنے کی کوشش کی۔
یہاں فرقہ واریت اور نفرت کو فروغ دینے پر کام کیا جس کا اعتراف خود بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو نے اپنی گرفتاری کے بعد کیا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ایک دن شیعہ لیڈر اور دوسرے دن سنی لیڈر کو قتل کیا جاتا تھا تاکہ فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی جائے مگر پاکستانی عوام اور محراب و ممبر نے ان سازشوں کو سمجھا اور ٹکرائو پیدا کرنے کے اس منصوبے کو باہمی اتحاد سے ناکام بنایا۔ ایک بات قابل فکر ہے کہ پہلے صرف مذہبی حوالے سے کام کرنے کی ضرورت تھی مگر اب ہماری سیاست میں بھی انتہا پسندی آگئی ہے اور سیاستدان ایک دوسرے کے بارے میں بات کرتے ہوئے نہیں سوچتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
ہمیں ملک سے انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ کرنا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے ’ایک قوم ایک منزل‘ کا جو نعرہ دیا وہ بہترین ہے۔ ہماری منزل اخوت، محبت، رواداری، امن، سلامتی، استحکام اور اعتدال ہے۔ ہمیں نفرتوں کو ختم کرنا ہے جس کے لیے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔ آپریشن ردالفساد کی کامیابی میں قومی ایکشن پلان کا بہت بڑا کردار ہے۔ ماضی میں قومی ایکشن پلان کے صرف ایک حصے پر عمل ہوا جس سے ایسا لگا کہ یہ پلان صرف محراب و ممبر کے لیے بنا ہے، اس کے تحت مساجد سے سپیکر اتروانے ہیں اور آئمہ اور خطباء کو تنگ کرنا ہے جو درست نہیں ہے۔
اس پلان کے 20نکات ہیں جن میں انتہا پسندی کے ہر پہلو کو بہتر کرنے کے بارے میں بات کی گئی ہے لہٰذااس پلان کو مکمل طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ مساجدو مدارس سے ہمیشہ امن، ترقی اور رواداری کی بات کی گئی ہے، مدارس کے جو نئے وفاق بنائے گئے ہیںان سے انشاء اللہ مزید بہتری آئے گی۔ آپریشن ردالفساد کے 4 سال پورے ہونے کے بعد الحمداللہ آج ہمارے پارک آباد ہیں اور بقول ڈی جی آئی ایس پی آر ہم ٹیررازم سے ٹورازم کی طرف آئے ہیں۔
ملک معاشی لحاظ سے درست سمت میں جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کورونا کے باوجود ہماری معیشت بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ ہماری فیکٹریوں کو لیبر نہیں مل رہی، ان کے پاس 2،3 برس کے ایڈوانس آرڈرز موجود ہیں جو یقینا بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ آپریشن ردالفساد کے ہی ثمرات ہیں۔ ملک ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف کاوشوں پر دنیا ہماری معترف ہے ایسے حالات میں بھارت و دیگر دشمن طاقتیں افغانستان میں دہشت گردوں کو منظم کر رہی ہیں اور پاکستان مخالف منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
ان حالات میں ہمیں قومی وحدت کی ضرورت ہے،ہمیںقومی یکجہتی اور استحکام کی طرف جانا ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے ادارے اور افواج نے ملکی سلامتی کیلئے جو کردار ادا کیا ہے، اس کی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ہمیں مل کر فوج اور قوم کو آپس میں لڑانے کی دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔
مسرت جمشید چیمہ (ترجمان پنجاب حکومت)
آپریشن رد الفساد کے 4 سال بعد آج پاکستان پہلے سے نہ صرف زیادہ محفوظ ہے بلکہ ہمارے ملک کی رونقیں بھی بحال ہو چکی ہیں۔ اس فساد کی بیخ کنی کرنے میں پاک فوج سمیت تمام سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور افسران نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں، پوری قوم اپنی سیکورٹی فورسز کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے ملک سے دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ کیا۔
سب سے پہلے تو میں آپریشن ردالفساد میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا ء کو خرج عقیدت پیش کرتی ہوں جنہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر وطن کا دفاع کیا ۔ میں ان ماؤں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جنہوں نے ایسے بہادر بیٹے پیدا کیے اور اس ملک پر قربان کئے۔ آپریشن ردالفساد پورے ملک میں کیا گیا جس کا مقصد پر امن اور مستحکم پاکستان بنانا ہے۔ آپریشن ردالفساد کے ذریعے پاک افواج نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ دہشت گردوں نے پاکستان میں نظام زندگی کو مفلوج کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن ہماری افواج نے ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔
آپریشن ردالفساد کے تحت پنجاب میں 34ہزار، سندھ میں ڈیڑھ لاکھ، بلوچستان میں 52 ہزار جبکہ خیبر پختونخوا میں 80ہزار آپریشن کیے گئے۔ اسی دوران جب دشمن نے کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملے کی مزموم کوشش کی تو فوری ایکشن لیتے ہوئے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔
اس کے علاوہ خفیہ ایجنسیوں نے سخت محنت سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک پکڑے اور ان کی کمر توڑ دی۔ 2017ء سے لے کر اب تک 78 سے زائد دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ایکشن لیا گیا جبکہ1200 سے زائد دہشت گردوں نے ہتھیار ڈالے۔خیبر فور آپریشن بھی کیا گیا جس سے راجگال ویلی کو خالی کروایا گیا۔ انہی کاوشوں کی وجہ سے ہم خوشحالی، استحکام اور ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
آپریشن ردالفساد کامیابی سے جاری ہے۔ ہمیں امن عمل کو مزید مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر ترقی، خوشحالی اور استحکام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ امن اور بین المذاہب ہم آہنگی ہمارا فلیگ شپ پروگرام ہے۔نفرت انگیز تقریر پر ہماری ’زیرو ٹالرنس ‘ کی پالیسی ہے۔ ہم نے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت ، شیعہ سنی فسادات کو ختم کرنے کی ہرممکن کوشش کی، یہی وجہ ہے کہ آج حالات بہتر ہیں اور کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیںا ٓیا۔ اب ہمارا بیانیہ بھی پہلے سے بہتر ہے اور دنیا میں ہماراسافٹ امیج بھی بہتر ہوا ہے۔
کھیل کے وہ میدان جو دہشت گردی کی وجہ سے ویران ہوگئے تھے آج دوبارہ آباد ہوچکے ہیں اور کرکٹ میچز ہورہے ہیں ۔ اسی طرح اب بیرونی سرمایہ دار اور اوورسیز پاکستانی بھی یہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور خود کو محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ ہم ٹیررازم سے ٹورازم کی طرف بڑھ رہے ہیں جو یقینا بہت بڑی کامیابی ہے۔ افسوس ہے کہ اپوزیشن نے دہشت گردی کے خلاف ملکی سالمیت کی اس جنگ میں بھی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی اور این آر او پر توجہ رکھی۔ مرکز اور تین صوبوں میں تو روابط مثالی ہیں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت اور ملک کی اپوزیشن اس طرح سے تعاون نہیں کر رہی جیسے کرنا چاہیے تھا۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ مضبوط پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے اور یہ وطن ہمیں اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ جو لوگ جانے انجانے میں ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔دشمن نے ہماری افواج کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کی ناکام کوشش کی، ہائبرڈ وار کے ذریعے وہ ہمارے ذمہ دار لوگوں تک پہنچا مگر اسے کامیابی نہیں ہوسکی۔ افواج پاکستان نے سرحدوں کی حفاظت کی ہم پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں گے اور فرنٹ لائن سولجر بن کر ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کریں گے۔
جنرل (ر) غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ نگار)
افواج پاکستان، ملکی سلامتی کے اداروں، پولیس اور سب نے مل کر دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور کامیاب جنگ لڑی جس کا آغاز 2008ء میں سوات آپریشن سے ہوا اور پھر ہم مختلف مراحل طے کرتے ہوئے آپریشن ردالفساد تک پہنچے۔
ملک میں نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا جو مشعل راہ تھا کہ ہم نے کس سمت میں جانا ہے۔ گزشتہ 4برسوں میں ملکی سلامتی کے ادارے چوکس رہے اورملک کے طول و عرض میں ہزاروں آپریشن کیے جن میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی دی۔ ملک میں ابھی بھی کچھ مسائل ہیں، دہشت گردی کے اکا دکا افسوسناک واقعات ہو رہے ہیں مگر پاکستان کے شیردل جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملک کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس لیے قربانیاں دے رہے ہیں لوگ چین کی نیند سو سکیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بات پر خصوصی زور دیا کہ یہ صرف افواج پاکستان کی کامیابی نہیں بلکہ پاکستان کی کامیابی ہے۔
عوام نے سیسہ پلائی دیوار کی طرح افواج پاکستان کا ساتھ دیا اور ڈٹ کر کھڑے رہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی واضح کیا کہ جنگ صرف فوج نہیں قوم لڑتی ہے اور اگر قوم ساتھ کھڑی نہ ہو توکسی جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی ۔ ملک میں سویلین بالادستی پر بات ہوتی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی واضح کیا کہ جو کچھ کر رہی ہے وہ حکومت کر رہی ہے اور اس کے احکامات کے مطابق کام کیا جا رہا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ آسان نہیں ہے اور یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ ہمارے دشمن ہماری سرزمین استعمال کرکے ہمیں ہی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ ہم زمینی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں مگر اب ہائبرڈ وار ،ففتھ جنریشن وار کے حوالے سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں بدنما قسم کے خاردار پودے موجود ہیں۔
جنہیں ختم کرنے کی ضرروت ہے۔ آپریشن ردالفساد میں کچھ خامیاں بھی رہی ہیں ، سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان روابط کا فقدان تھا اور وہاں صوبائیت کی جھلک نظر آئی تاہم مجموعی طور پر سب نے مل کر اس آپریشن کو کامیاب بنایا۔ ہمیں مرکز اور صوبوں کے مابین روابط کو مثالی بنانا چاہیے اور قومی مسائل پر قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ اس حوالے سے آئین اور قانون میں جو ترمیم کی ضرورت ہے وہ بھی کرلینی چاہئیں تاکہ مسائل سے مکمل طور پر نمٹا جاسکے۔ امریکا نے 9/11 کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی تو ہم اپنے ملک کی خاطر کیوں نہیں کرسکتے؟
دہشت گردی سے ملکی معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا، سکیورٹی کیلئے اخراجات میں اضافہ ہوا، معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہوگئیں اور ملک کو معاشی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر اب آپریشن ردالفساد کی کامیابی کے بعد یہ خوش آئند ہے کہ ملکی معیشت بہتر ہورہی ہے اور مختلف سیکٹرز نے دوبارہ سے ترقی بھی کی ہے۔ ردالفساد کے باجود افواج پاکستان نے کورونا کی مشکل گھڑی میں ایمرجنسی کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں، اس کے خطرات شدید تھے مگر اللہ کا شکر ہے کہ اب حالات بہتر ہیں۔ جو لوگ بلاوجہ تنقید کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ کٹھن اور مشکل حالات میں قومی سلامتی کے اداروں کا ساتھ دیں۔
پاک افغان سرحد پر باڑ لگانا ایک بڑا اور مشکل کام تھا جو تقریباََ مکمل ہوچکی ہے ، ایران کے ساتھ بارڈر کے معاملات بھی بہتر کیے جارہے ہیں جلد انٹری اور اگزٹ پر کنٹرول بہتر ہوجائے گا۔ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کیا جاچکا ہے۔ وہاں تیزی سے ترقی ہورہی ہے، سکول، کالج، سٹرکیں، مارکیٹیں بن رہی ہیں اور آہستہ آہستہ کنٹرول سول انتظامیہ کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اس وقت درست سمت میں جا رہا ہے، آپریشن ردالفساد ابھی بھی کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور جو اندرونی و بیرونی دشمن سازشیں کر رہے ہیںا ن کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں۔
The post آپریشن ردالفساد کی کامیابی … ٹیررازم سے ٹورازم تک کا سفر! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NRTdLH
0 comments:
Post a Comment