Ads

ملکی صورتحال، عدلیہ اور جمہوریت

قوم نے یوم یکجہتی کشمیر جوش وخروش سے منایا، مگر قومی اسمبلی میں سنجیدہ اور بصیرت پر مبنی بحث نہ ہوسکی،اراکین میں گالم گلوچ، ہاتھا پائی ہوئی، ہنگامے میں سینیٹ اوپن بیلٹنگ پر قانون سازی نہ ہوسکی۔

میڈیا کے مطابق یہاں تک کہ یوم یکجہتی کشمیر قرارداد بھی ہنگامے کی بھینٹ چڑھ گئی، مشتعل اراکین اسمبلی ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہے۔ اس درد انگیز صورتحال کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی،اس دن پوری قوم کی زبان سے دنیا کوکشمیریوں سے یکجہتی کا جو مشترکہ اور متحدہ پیغام ملکی پارلیمان کے فورم سے جانا چاہیے تھا۔

افسوس اس کی ضرورت کا پارلیمان اور جمہوریت کی روح کے مطابق ادراک نہیں کیا گیا،گوکہ یہ سنہری موقع تھا کہ مقتدر سیاستدان عالمی ضمیر تک اپنا مافی الضمیر بے دھڑک پہنچاتے اور دل گرفتہ ومظلوم کشمیریوں کو یقین دلاتے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق تنازع کشمیرکے منصفانہ حل کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر اور خطے کے عوام امن کے حقدار ہیں۔ آئی ایس پی آرکے مطابق جنرل باجوہ نے لاہورکا دورہ کیا اورگیریژن میں افسران سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ فوج ہائبرڈ وار کے جدید چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار اورکشمیریوں کی خواہشات کے مطابق کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے پر عزم ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ وطن عزیزکو اعصاب شکن چیلنجز در پیش ہیں اور تاریخ سیاستدانوں، انٹیلی جنشیا، سنجیدہ اور صاحب الرائے قومی شخصیات سے اسی بے مثال قومی کردارکی ادائیگی کی بجا طور پر توقع رکھتی ہے جس کا مظاہرہ انھوں نے آزمائش کی ہرگھڑی میں کیا ہے۔

اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ ازلی دشمن بھارت کی مخاصمت اور جارحیت کے خطرات نے ہمیشہ قوم میں اتحاد، اتفاق اور جذبہ حب الوطنی کی روح پھونکی، دشمن کو للکارا اور اپنے غیر متزلزل عزم سے ملکی سلامتی اور وطن کے دفاع کے لیے پاک فوج کے جان نثار ہر قربانی کے لیے تیار رہے۔ کاش قربانی کا یہی جذبہ اور ایثار قوم کی رگوں میں آج بھی پھر سے جوش مارے، ملکی سیاست دان اپنے سارے اختلافات بھلا کر یک دل ویک جان ہوکر کشمیریوں کو بھارت کے ظلم و بربریت سے نجات کا وسیلہ بنا دیں۔

بلاشبہ خطے کے امن و آشتی کے لیے یوں تو ہر محب وطن پاکستانی دعاگو ہے لیکن بعض حقائق قابل غور اس لیے بھی ہیں کہ سیاست دوراں تدبر، سنجیدگی، درد وازالہ سے محروم ہے جس کی کہ قوم منتظر ہے، تجزیہ کار، فہیمدہ حلقے مغموم ہیں کہ جن سیاستدانوں، دردمند مشاہیر اور ہمارے دور اندیش آباؤاجداد نے ایک الگ وطن کے لیے جو جدوجہدکی تھی،کیا وہ ایک مختلف مخلوق تھی اور اسلامیان ہند کی درد آشنائی کا خاص ورثہ اپنے ساتھ رکھتی تھی،کیا آج وہ درد آشنائی ہماری سیاست سے لاتعلق ہے؟ اس سوال کا جواب قوم مانگتی ہے۔

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ کے روبرو اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 226آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے، سینیٹ انتخابات میں شفافیت سے سیاسی جماعتوں میں جمہوریت آئے گی، ایک دن آئے گا جب پاکستان میں ایڈوانس جمہوریت آئے گی، سینیٹ میں اکثریت پوری نہ ہو تو حکومتی جماعت انتخابی وعدے کیسے پورے کرے گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی طورپر سیاسی جماعتوں میں چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے، جس کی اسمبلی میں اکثریت ہو اسے سینیٹ میں اکثریت سے روکنا تباہ کن ہوگا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اندر جمہوری رویے اپنانا چاہییں، سیاسی جماعت کے سربراہ کو بھی ڈکٹیٹر نہیں ہونا چاہیے، پاکستان میں تو ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو ایک بندے پر مبنی ہیں، ایسے سیاستدان بھی ہیں جوکہتے رہے کہ ضمیرکے خلاف ووٹ ڈالا، پارٹی سربراہ سب کی رائے لے کر فیصلہ کرے تو ہی بہتر ہوگا، فیصلے سے پہلے رکن اسمبلی کو بھی پارٹی میں رائے دینی چاہیے۔

یہ چیف جسٹس کی جمہوری نظام کے حق میں صائب رائے ہے۔ ایک اور مقدمہ میں سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے تحلیل کرکے جمہوریت کا قتل کیا ہے۔ کیا صوبے کے عوام کو حقوق سے محروم کرکے پنجاب کا حال مشرقی پاکستان والا کرنا ہے۔کیا اپنی مرضی کی حکومت آنے تک آپ حکومتوں کو ختم کرتے رہیں گے۔

ملک کو منظم انداز میں تباہ کیا جا رہا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اگرچہ وفاقی حکومت بلدیاتی انتخابات کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر ڈال رہی ہے پھر بھی اٹارنی جنرل سے کچھ باتیں پوچھنا چاہتے ہیں، مختلف صوبوں نے مختلف وجوہات بتائی ہیں۔

حلقہ بندیوں، مردم شماری، کورونا، عدالتی احکامات کا کہا گیا ہے جب کہ پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمہ کا حوالہ دیا ہے۔ ان وجوہات کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا مردم شماری 2017 میں ہوئی لیکن ابھی تک حتمی نوٹیفکیشن جاری نہ ہوسکا۔

جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ2017 کے بعد سب سوگئے تھے، جسٹس صاحب نے مزیدکہا کہ بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضا ہیں، بلدیاتی انتخابات کی بات ہو تو صوبے اپنے مسائل گنوانا شروع کردیتے ہیں، مارشل لاء میں تو ایسا ہوتا تھا لیکن جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں سنا، جسٹس مقبول باقر نے کہا کیا پنجاب لوکل گورنمنٹ ختم کرنے کا موڈ بن گیا تھا؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا پنجاب لوکل گورنمنٹ کا نیا قانون 2019 بنا دیا گیا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ہم نے خود کو نہ سدھارا تو وقت نکل جائے گا، لوگ بددعائیں دے رہے ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کیا الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے اخراجات سے ڈرتا ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے الیکشن پر 18 ارب خرچہ آئے گا، یہ تو 36 ارکان اسمبلی کو دیے جانے والے ترقیاتی فنڈز کے برابر ہے، یہ عوام کا پیسہ ہے، مردم شماری کا ایشو ہے تو دوبارہ کروالیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی مردم شماری پر فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل میں ہوگا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسارکیا کہ کیا پاکستان میں میڈیا آزاد ہے؟

اٹارنی جنرل صاحب ہاں یا ناں میں جواب دیں، اٹارنی جنرل نے کہا ہاں یا ناں کے علاوہ کوئی آپشن دیں، جسٹس فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں میڈیا والوں سے استفسارکیا کہ میڈیا والے ہاتھ کھڑا کریں کہ کیا میڈیا آزاد ہے جس پر کسی میڈیا والے نے ہاتھ کھڑا نہ کیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا میڈیا پر پابندی لگانے والے مجرم ہیں۔ ایک سوال پر اٹارنی جنرل نے کہا ملک حالت جنگ میں ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا ملک میں واقعی ایک جنگ جاری ہے اور وہ عوام کے خلاف ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ملک میں میڈیا آزاد نہیں، ملک میں کیسے میڈیا کوکنٹرول کیا جا رہا ہے، کیسے اصل صحافیوں کو باہر پھینکا جا رہا ہے۔ ملک کو منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے، جب میڈیا تباہ ہوتا ہے تو ملک تباہ ہوتا ہے، عدلیہ نے ریمارکس دیے کہ ملک میں آئیڈیل صورتحال نہیں۔کب تک خاموش رہیں گے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ہر مخالف غدار اور حکومتی حمایت کرنے والا محب وطن بتایا جا رہا ہے۔ ملک جمہوریت کے لیے بنایا تھا، جمہوریت کھوئی تو آدھا ملک بھی گیا، میڈیا والے پٹ رہے ہیں، حکومت کہتی ہے ہمیں نہیں پتہ کس نے کس کو اٹھا لیا، نہیں معلوم تو حکومت گھرجائے۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا، ہفتوں کی نہیں دنوں کی بات ہے۔

موجودہ صورتحال میں عدلیہ کی معروضات ملکی سیاست سے وابستہ افراد کے لیے ایک ویک اپ کال ہے، اس ڈھلوان سے بچنا ناگزیر ہے جس میں سسٹم کی تباہی نوشتہ دیوار نظر آتی ہے، اہل سیاست کو عدلیہ کے انتباہ پر سنجیدگی سے غورکرنا چاہیے۔

یوم یکجہتی کشمیر پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کشمیری مایوس نہ ہوں پاکستانی قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے،کشمیر ریاست کا مسئلہ ہے کسی جماعت یا حکومت کا نہیں۔ میڈیا کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ اپوزیشن کی سیاست میں جھوٹ اور منافقت ہے، ہمارے سیاسی اختلافات ہوسکتے ہیں مگرکشمیر ایشو پر قوم متحد ہے، ہمیں دنیا کو باور کرانے کی ضرورت ہے ہمارا کشمیریوں سے وعدہ ہے انھیں کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سیاست دان پیدا شدہ صورتحال کے نکتہ زوال کا درست ادراک کریں، وقت تیزی سے ایک غیر محسوس تصادم اور ان اندیشہ ہائے دور دراز کی جانب دوڑتا جارہا ہے جس کے بارے میں قوم کے فہمیدہ حلقوں کی تشویش بڑھتی جارہی ہے، وہ متوشش ہیں کہ سیاست دان پوائنٹ آف نو ریٹرن سے ہونے والی ممکنہ تباہ کاریوں سے بچیں۔ سیاسی بصیرت سے کام لینے کی اس سے بہتر صورتحال اور کیا ہوسکتی ہے۔ صورتحال کو مغلوب کرنے والے سیاستدان ہی کسی کو کہہ سکتے ہیں کہ

ہمارے عزمِ مسلسل کی تاب و تب دیکھو

سحرکی گود میں رنگِ شکستِ شب دیکھو

The post ملکی صورتحال، عدلیہ اور جمہوریت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3pVq3t4
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment