لسانیات کی کسی قوم کی سیاسی، سماجی ، حتیٰ کہ اقتصادی زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ اس کا ہمارے یہاں چرچا تو بہت ہے لیکن علمی کام نہ ہونے کے برابر ہے، یہ ڈاکٹرمحمد قاسم بوگھیو ہیں جنھوں نے اس موضوع پر انتہائی منضبط اور غیر معمولی کام کیا ہے جسے ان کی شاہ کار کتاب ’لسانیات تا سماجی لسانیات‘ میں دیکھا جاسکتا ہے، یہ کتاب اتنی وقیع ہے کہ اسے لسانیات کے موضوع پر دنیا میں کسی بھی انتخاب کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر قاسم بگھیو چوں کہ نظریہ و تحقیق کے شہ سوار ہیں، اس لیے عمومی خیال یہی تھا کہ نقد و نظر میں شغف رکھنے والے عالم کے دور میں ادیبوں کے سب سے بڑے ادارے اکادمی ادبیات پاکستان کے معاملات کچھ سست روی کا شکار نہ ہو جائیں لیکن تعلیم و تدریس کے طویل تجربے کے علاوہ مختلف جامعات اورسندھی لینگویج اتھارٹی کی سربراہی کاتجربہ یہاں مزید نکھر کر سامنے آیا اور اکادمی کے تن مردہ میں جان پڑ گئی ۔ ان کے دور میں ادبیوں کی قومی کانفرنس کا انعقاد ہوا جو گزشتہ کئی دہائیوں سے نہیں ہو سکی تھی۔
اسی طرح سابق صدر ممنون حسین کی تجویز پر یہاں دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا جس میں کئی اہم کتابوں کے تراجم ہوئے۔ معذور ادیبوں کی امداد میں اضافہ اور ملک کے علمی و ادبی اداروں کی علمی اور مالی معاونت میں تیزی آئی۔ اس بنا پر خیال یہی تھا کہ اگلی ٹرم کے لیے بھی ان کا انتخاب ہو جائے گالیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ وہ یہاں سے رخصت ہوئے تو خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں اس اہم ادارے کا حشر بھی وہ نہ ہو جائے جو ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی رخصتی کے بعد نیشنل بک فاؤنڈیشن اور عقیل عباس جعفری کے بعداردو ڈکشنری بورڈ کا ہورہا ہے لیکن خوبی قسمت سے ارباب اختیار کی نگاہ انتخاب ڈاکٹر یوسف خشک پر جاپڑی ۔
ڈاکٹر یوسف خشک نسبتاً نوجوان ہیں اور ڈاکٹر قاسم بگھیو کی طرح دہری صلاحیت کے مالک ہیں ، یعنی علم و ادب پر بھی اتنی ہی توجہ ہے جتنی انتظامی معاملات پر۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے ان کی آمد ہوئی ہے، اکادمی میں رونق بڑھ گئی ہے۔ کوئی دن نہیں جاتاجب اکادمی میں کوئی ایسا پروگرام نہ ہو رہا ہو جس میں ملک کی نامور ادبی شخصیات کے علاوہ ارباب ریاست شریک نہ ہو تے ہوں۔اس طرح کی تقریبات اور میلوںسے اپنی جگہ گہما گہمی پیدا ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے ملک کی بھولی بسری زبانوں پر بھی توجہ دی ہے۔
اردو کے علاوہ ملک کی دیگر چار بڑی قومی زبانوں یعنی سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو تو ہمارے ہاں نگاہوں میں رہتی ہی ہیں لیکن ملک کے دور دراز علاقوں میں بولی جانے والی درجنوں زبانیں جن کے معدوم ہونے کا خطرہ ہر وقت سر پرمنڈلاتا رہتا ہے، ڈاکٹر صاحب نے ان پر بھی توجہ دی ہے جیسے شینا اور براہووی وغیرہ۔ وہ ان زبانوں کو تازگی بخشنے کے کئی منصوبے ذہن میں رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے نہ صرف ان دوردراز علاقوں میں جاکر ان خوابیدہ زبانوں کے ادیبوں کو متحرک کیا ہے بلکہ ان کے لیے کچھ ایسی سرگرمیوں کے منصوبے بھی تیار کیے ہیں جن پر عمل درآمد سے قومی سطح پر ادبی اور لسانی دنیا میں ایک نئی گہما گہمی پیدا ہو جائے گی۔
ان کا ایک اور بڑا کارنامہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اردو کی نئی بستیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا بھی ہے، اس مقصد کے لیے انھوں نے اکادمی کے پلیٹ فارم سے ’ادبیات‘ کے نام سے ایک آن لائن بین الاقوامی سہ ماہی جریدے کے اجرا کا فیصلہ کیا ہے جس میں بیرون ملک پاکستانیوں اور ان غیر پاکستانیوں کی تخلیقات کو جگہ ملے گی جو اردو سے محبت کرتے ہیں اور اردو میں لکھتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم صرف اردو ادب کے عالمی سطح پر فروغ اور پزیرائی کا باعث ہی نہیں بنے گا بلکہ پاکستان کے غیر روایتی سفیر کا کردار بھی ادا کرے گا۔توقع رکھنی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں ہمارا یہ قومی ادارہ ایسی مزید سرگرمیوں کے فروغ کا ذریعہ بنے گا جس سے ادب، ادیب اور ملک کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا۔
موجودہ دور حکومت میں اکادمی کی قیادت کے لیے ایک موزوں انتخاب نے علم و ادب کے ضمن میں اس حکومت کی ترجیحات کے بارے میں خوش گمانی پیدا ہوئی اور توقع کی جانے لگی کہ اور کچھ نہ سہی ادب کا شعبہ توبھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن حال ہی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس کی وجہ سے اس خوش گمانی کا تیا پانچہ ہو گیا ہے۔ یہ معاملہ ہے حکومت پنجاب کے تحت کام کرنے والے ادارے مجلس ترقی ادب کا۔ مجلس ترقی ادب اگرچہ ایک صوبائی ادارہ ہے لیکن اس کی شہرت اور نیک نامی صرف قومی نہیں بین الاقوامی سطح کی تھی۔
اس کا سبب یہ تھا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس ادارے کی قیادت پسند ناپسند جیسی آلائشوں سے بالا تر ہو کرہمیشہ کسی ایسی شخصیت کو سونپی گئی، علم وادب سے جس کی وابستگی شک و شبہ سے بالا اور صرف اور صرف اسی کے لیے مخصوص رہی ہے۔ ماضی میںکیسی کیسی باکمال شخصیات اس ادارے کی سربراہ رہی ہیں، صرف ان کے ناموں کی فہرست دیکھ کر ہی اس کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ 1950 میں قائم ہونے والے اس ادارے کے پہلے سربراہ سید امتیاز علی تاج تھے۔
ان کے بعد یہ عزت پروفیسر حمید احمد خان،احمد ندیم قاسمی اور شہزاد احمد جیسے بلند پایہ محققین اور ادیبوں کے حصے میں آئی۔ ان کے بعد یہ مرتبہ ڈاکٹر تحسین فراقی کو ملا۔ڈاکٹر تحسین فراقی اس شعبے میں کیا اہمیت رکھتے ہیں؟ اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری کے فکر و فن پر انتہائی خوبصورت کتاب ’ محمد حسن عسکری ادبی و فکری سفر ‘کے مصنف عزیز ابن الحسن لکھتے ہیں کہ تحسین فراقی تو وہ آدمی ہے کہ جسے اس زمانے میں کلاسیکی اردو، فارسی اور انگریزی کا سب سے بڑا رمز شناس کہیں۔
انھوں نے مزید لکھا ہے کہ اس عہد کے سب سے بڑے نکتہ رس مصنف اور نقاد شمس الرحمٰن فاروقی بھی ان کی علمی گہرائی اور گیرائی کے گھائل تھے۔ شان دار علمی روایت رکھنے والی مجلس ترقی ادب کی قیادت اگر ایسی شخصیت کے ہاتھ میں تھی تو یہ انتخاب کسی بھی حکومت کے لیے تمغہ حسن کارکردگی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ظلم یہ ہے ڈاکٹر صاحب کی ٹرم میں ابھی تقریباً ایک برس کا عرصہ باقی تھا لیکن اچانک ایک روز انھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
یوں نہ کوئی نوٹس ہوا، نہ لسانیات اور ادبیات کے ایک بلند پایہ عالم کو کسی رسمی اور باعزت طریقے سے رخصت کیا گیا بلکہ انتہائی بدصورتی سے انھیں سبک دوش کیا گیا اور ایک اور صاحب کو لگا دیا گیا۔ یہ کارنامہ کرنے والوں کو اگر فرصت ملے تو ذرا اپنی فائل دیکھ لیں، اس ادارے کی ایک خوبصورت روایت یہ رہی ہے کہ اوّل بہتر سے بڑھ کر بہترین فرد لگایا جائے اور پھر تاحیات اس سے استفادہ کیا جائے لیکن میرا خیال ہے‘ ایسا نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر تحسین فاروقی کے علمی مرتبے کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔
The post مجلس ترقی ادب کی ترقی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3r5IH1Z
0 comments:
Post a Comment