ہمارا ملک کئی حوالوں سے دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں سر تاپا مختلف ہے۔ مثال کے طور پر ہماری اپوزیشن کو لے لیں، اس کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت مستعفی ہوجائے ورنہ ہم حکومت کو گرا دیں گے۔ اس قسم کی باتیں دوسرے ملکوں میں نہیں کی جاتیں، کیونکہ یہ مہذب قومیں ہیں۔
وہ جانتی ہیں کہ حکومت سے ان کے تعلقات کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ کسی ایسی حکومت کو خواہ اس سے اپوزیشن کے تعلقات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں اس کی تبدیلی کا واحد طریقہ انتخابات ہی ہے۔ تبدیلیوں کے حوالے سے ترقی یافتہ ملکوں کے اس موقف سے نہ ملک میں محاذ آرائی کا کوئی خطرہ پیدا ہوتا ہے نہ کسی افراتفری کی گنجائش، مقررہ وقت پر انتخابات ہو جاتے ہیں اور پرامن طریقے سے اقتدار انتخاب جیتنے والی جماعت کو منتقل ہو جاتا ہے اس پروسیس میں ایک گملا تک نہیں ٹوٹتا۔
ان حقائق کے پس منظر میں ذرا اپنے ملک پر نظر ڈالیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدان اس سب سے مختلف ہیں جو چوبیس گھنٹے ایک دوسرے پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ اس کلچرکو ہم سیاسی کلچر بھی نہیں کہہ سکتے کہ اہل سیاست کا ایک بڑا حصہ نہ صرف پڑھا لکھا ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ پھر اس سیاسی جہل کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ایک جہالت علمی حوالے کی ہوتی ہے، دوسری جہالت کلچر کے حوالے سے ہوتی ہے ،تیسری جہالت ضد اور جہل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں حکومت گرانے کی باتیں یوں کی جا رہی ہیں جیسے ہمارا ملک نہیں بلکہ ایک مخدوش دیوار ہے۔
ہمارے دستور کے حوالے سے ہمارے ملک میں ہر پانچ سال بعد انتخابات ہونے چاہئیں لیکن کسی بھی وجہ سے ملک میں ایک ایمرجنسی جیسی حالت پیدا ہو جاتی ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے حکومت گرانے کے علاوہ کئی مہذب طریقے بھی موجود ہیں مثلاً تحریک عدم اعتماد، استعفے وغیرہ۔ یہ ایک مہذب طریقہ ہے جس میں حکومت کوگرانے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ اقتدارکی پر امن منتقلی کا راستہ موجود ہوتا ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر کردیا ہے
۔لیکن ہمارے ملک میں سیاستدان کسی بھی آئینی اور قانونی راستے پر چلنے کے لیے تیار نہ تھے لیکن جب عوام کا موڈ دیکھا تو سینیٹ کے الیکشن میں شرکت کا اعلان کردیا اور الیکشن میں شرکت کی تیاری بھی شروع کردی لیکن زبان پر وہی نعرے ہیں کہ ہم نہیں مانتے، ہم نہیں جانتے۔ اس غرور کا بھی بہت جلد خاتمہ بالخیر ہو جائے گا۔ اصل میںیہ دولت کا کرشمہ ہے کہ انسان کی زبان پر چڑھا رہتا ہے جب عوام لال جھنڈی دکھا دیتے ہیں تو سر اٹھا کر نہیں چلتے۔ کیا دنیا میں کسی لیڈر نے دولت کے ذریعے آج تک عوام کا دل جیتنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان سوالوں سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے لیکن کرنسی کے گدوں پر سونے والوں کی نظر ان تلخ حقائق پر نہیں جاتی۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ عموماً اقتدار ہی میں رہی، اسے حزب اختلاف کی مشکلات کا احساس ہی نہیں لیکن وہ اس حقیقت سے واقف ضرور ہے کہ حزب اختلاف میں رہنے والوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اقتدار چھین لیں گے حکومت گرا دیں گے جیسی باتیں نہیں کرتے۔ لیکن ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ اب آواز کی گھن گرج میں بھی کمی آ رہی ہے۔ تجربات ہی وہ پیمانہ ہیں جو حقائق واضح کرتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان حالات کو شاید سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔
ان کے پچھلے کارناموں سے اب تک عوام الرٹ ہیں وہ مزید کسی جال میں پھنسنے کے لیے تیار نہیں۔ کیا اس حقیقت کو شہزادے اور شہزادیاں سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن ماضی کے بادشاہ کس طرح خوار ہوتے رہے ہیں غالباً اس کا انھیں علم نہیں۔ ایوب خان اگرچہ ایک طاقت کے ذریعے بادشاہ بن گیا تھا۔ اس بادشاہ کا حشر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو عوام کے منتخب وزیر اعظم تھے اور ان کی ہر دلعزیزی کا عالم یہ تھا کہ جب وہ ٹرین میں سفرکرتے تھے تو عوام دو دو دن پہلے ریلوے اسٹیشنوں پر ڈیرے ڈال دیتے تھے کہ اس لیڈرکے قریب سے درشن کریں، لیکن ہوا کیا۔ سب جانتے ہیں۔
زمارا ملک بھی جمہوری کہلاتا ہے کیونکہ ہر آئینی مدت کے بعد یہاں انتخابات ہوتے ہیں 22 کروڑ عوام کے ملک میں جمہوریت پسند لوگ اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشن جاتے ہیں اور وہاں لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے ہو کر اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ ووٹ کیا ہے اور وہ جسے اپنا ووٹ دے رہے ہیں ووٹر یا عوام کو کچھ پتا نہیں ہوتا وہ جس نشان پر انھیں ٹھپہ لگانے کے لیے کہا جاتا ہے وہ اس نشان پر ٹھپہ لگا کر اپنا جمہوری فرض ادا کردیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔ یہ ہے ہمارے ملک کی عوام جس کے کندھوں پر 72 سال سے اشرافیہ سوار ہے اور ملک کو لوٹ کر کنگال کر دیا ہے۔
جمہوریت کا مطلب اکثریتی عوام کی حکومت اور ہم نے عوام کی اکثریت کا حال زار آپ کو بتا دیا ہے حکمرانوں سے متعلق عوام کی جمہوریت کو ہرگز جمہوریت نہیں کہا جاسکتا ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں، ان سے زیادہ کسان ہیں، ان سے زیادہ عوام ہیں کیا ان میں سے کوئی منتخب ہو کر قانون ساز اداروں میں جاتا ہے؟ اس لے نہیں جاتا کہ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے سب سے اہم انتخابی اخراجات ہیں وہ عوام جن کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں کیا وہ کروڑوں کے انتخابی اخراجات برداشت کرسکتے ہیں؟ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جگہ جگہ ملک میں انقلاب فرانس کی تقلید ہوگی اور غریب عوام کے پیسے سے بنا گندا خون شہر کی نالیوں اور نالوں میں بہتا نظر آئے گا۔ کیا ہماری اشرافیہ نے انقلاب فرانس کی تاریخ پڑھی ہے؟ پڑھ لو تو اس سے شاید تمہارے غرور میں کمی آجائے گی ۔
The post مثبت تنقید appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3q72UDd
0 comments:
Post a Comment