ملک میں بے حد سیاسی جوش وخروش نظر آرہا ہے، تمام عالیشان ہوٹلز بک ہیں، قائدین اورسیاسی جماعتوں نے انھیں بدنظری سے بچانے کا موثر انتظام کر رکھا ہے، مہمان مرکز نگاہ بنے ہوئے ہیں، وہ مستقبل میں قوم کے سینیٹرزکہلائیں گے۔
یاد رہے نوزائیدہ جمہوریت کے اولین تاریخی سفر میں اہل سیاست کی پذیرائی کے اندازوآداب مختلف تھے، اب زمانہ بدل گیا لیکن جمہوریت تمام ترخرابیوں کے باوجود آج بھی ہمارے سیاسی سسٹم کی اساس کا درجہ رکھتی ہے، وقت کا تقاضہ ہے کہ جمہوریت سے قوم کی کمٹمنٹ استوار رہے، جمہوری ادارے اور منتخب ایوان قوم کی توقعات پر پورا اتریں۔
سینیٹ الیکشن کے تناظر میں سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی مختصر تحریری رائے جاری کردی۔ 8 صفحات پر مشتمل رائے چیف جسٹس گلزار احمد کی جانب سے تحریرکی گئی جسے صدر مملکت کو بھی بھجوا دیا گیا۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ مختصر تحریری رائے 4-1 کے تناسب سے دی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد، جسٹس مشیرعالم، جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے ریفرنس قابل جواب قرار دیا جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز، الیکشن کمیشن کے وکیل، سیاسی جماعتوں، پاکستان بارکونسل، سندھ ہائیکورٹ بار کے وکلا اور دیگر فریقین کے وکلا نے دلائل دیے۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ سینیٹ انتخابات آئین اور قانون کے تحت ہوتے ہیں، یہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ آئین کے تحت حاصل اختیارات کے تحت شفاف، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔ سپریم کورٹ اس سلسلے میں متعدد فیصلے بھی دے چکی ہے۔
آرٹیکل218(3)کے تحت یہ بھی الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ انتخابی عمل میں کرپٹ پریکٹسزکی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کرے، سپریم کورٹ ورکرز پارٹی کیس میں قرار دے چکی ہے کہ شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرے۔
پارلیمنٹ کو بھی آئین نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کرپٹ پریکٹس اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو روکے، آئین کے آرٹیکل 222 کے تحت پارلیمنٹ کا بھی اختیار ہے کہ الیکشن کے معاملات میں قانون سازی کرے، آئین کے آرٹیکل 220کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں الیکشن کمیشن کے فرائض کی انجام دہی میں اس کی معاونت کے پابند ہیں۔ عدالتی رائے میں کہا گیا ہے کہ جہاں تک خفیہ بیلٹ کا تعلق ہے تو اس حوالے سے سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلے میں جواب دے چکی ہے۔
سپریم کورٹ 1967 میں نیاز احمد بنام عزیز الدین کیس میں فیصلہ دے چکی ہے کہ ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا، ووٹ کی رازداری تاحیات نہیں ہوسکتی، بیلٹ پیپرکی رازداری دائمی نہیں ہے۔ اس لیے آئین کے آرٹیکلز 218(3) اور220کے تحت الیکشن کمیشن کے لیے لازم ہے کہ شفاف، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد اورکرپٹ پریکٹسزکے خاتمے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال سمیت تمام اقدامات کرے۔ الیکشن کمیشن کا کام کرپٹ پریکٹسزکو روکنا ہے۔ بنچ کے پانچویں رکن جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل186 کے تناظر میں صدر مملکت کی جانب سے پوچھا گیا سوال قانونی نہیں۔
ادھر اپنے اپنے سینیٹرزکو جتوانے کی کوششیں عروج پر ہیں، انتخابی مہم اگرچہ بند ہے، لیکن سینہ گزٹ کنویسنگ جاری ہے، سیاسی جوڑ توڑکے بھی صد ہزار رنگ نظر آئے ہیں، حکومت نے اپوزیشن اتحاد کو خیبرپختونخوا میں 2 اور بلوچستان میں 4 سینیٹ نشستیں دینے اورامیدوار بلامقابلہ منتخب کرانے کی پیشکش کی ہے۔ میڈیا کے مطابق پی ٹی آئی کی طرف سے سینیٹر تاج آفریدی یہ پیشکش لے کر سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کے پاس گئے۔ اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی اور پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف بھی موجود تھے۔
تاج آفریدی نے فضل الرحمان کو بلامقابلہ سینیٹ امیدوار منتخب کرانے کی پیشکش سے آگاہ کیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے مشاورت کے بعد اس آفر پر جواب دیں گے۔ تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں 7جنرل نشستوں میں سے 2 نشستیں اپوزیشن کو دینے کی آفر کی ہے۔ بلوچستان میں حکومتی اتحاد نے متحدہ اپوزیشن کو4 نشستیں دینے کی پیش کش کی تاہم اپوزیشن5 نشستوں کے لیے ڈٹ گئی۔
ذرایع کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے ایک خاتون، ایک ٹیکنوکریٹ اور3 جنرل نشستوں کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ اپوزیشن کی پیشکش کو نہ مانا گیا تو نقصان حکومت کا ہوگا۔ تحریک انصاف کراچی کے صدر اور رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سندھ میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ کچھ دن قبل لاپتہ اراکین نے ہمارے کچھ ارکان کو بتایا تھا کہ ہمیں مختلف طریقوں سے ڈرایا جارہا ہے، ہم پر دباؤ ڈالا جارہا ہے اور ہمیں ووٹ بیچنے کے لیے پیشکش کی جارہی ہیں۔
تین ارکان کے بارے میں ہمیں کوئی اطلاعات نہیں مل رہیں۔ پیپلز پارٹی اضافی نشستوں کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی سینیٹرل پنجاب کے صدر اور نو منتخب سینیٹر اعجاز چوہدری نے منصورہ لاہور میں سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم سے ملاقات کی اور سینیٹ الیکشن میں جماعت اسلامی سے تعاون کی اپیل کی تاہم جماعت اسلامی نے تعاون اور حمایت سے انکار کردیا۔ امیرالعظیم نے کہا ہم کے پی کے، کی حد تک اپوزیشن کی پارٹیوں کا ساتھ دیں گے، چونکہ وہاں ہمارے ووٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کی ایک صورت موجود ہے۔
وہاں اپوزیشن کی پارٹیاں جماعت اسلامی کی خاتون امیدوار کو ووٹ دیں گی اور اس کے بدلے میں جماعت اسلامی کے ارکان ان کی جنرل سیٹ، پروفیشنل سیٹ اور اقلیتی سیٹ کے امیدواران کو ووٹ دیں گے۔ اسلام آباد اور سندھ میں ہمارے پاس کوئی ایسا راستہ نہیں کہ ہم ووٹ کے تبادلے کو ممکن بنا سکیں۔ ان دونوں جگہ پر ہم غیر حاضر رہیں گے۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز سینیٹ انتخابات کے سلسلے میں پارلیمنٹ میں اپنے چیمبر میں وفاقی وزراء اور حکومتی ارکان قومی اسمبلی سے ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم نے ارکان اسمبلی کے تحفظات اور خدشات دور کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ ترقیاتی فنڈز متعلقہ حلقوں کے نمایندوں سے پوچھ کر استعمال ہوںگے۔ حکومتی وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ سینیٹ الیکشن کے لیے ووٹ کو قابل شناخت بنانے کے لیے طریقہ کار وضع کیا جائے۔
اوپن بیلٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے آنے کے بعد وفاقی وزرا فواد چوہدری، بابر اعوان، شہزاد اکبر، شفقت محمود، فیصل جاوید پر مشتمل وفد الیکشن کمیشن پہنچ گیا اور چیف الیکشن کمشنر اور ممبران سے ملاقات کرکے فیصلے پر قانونی نکات سے آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں شفافیت کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن آفس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شفقت محمود نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے موقف کی تائید ہے، ہماری نظر میں بہترین طریقہ قابل شناخت بیلٹ پیپر سے الیکشن کمیشن پتا چلا سکے کہ کس نے کسے ووٹ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے، بدعنوانی نہیں ہوگی۔ سینیٹ انتخابات 2021کے لیے بڑا مقابلہ عبدالحفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہوگا۔
بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام کو اس کے بانیوں نے پسند کیا تھا۔ اس نظام میں جمہوریت کی روح کے مطابق سیاسی قائدین قوم کی سیاسی تربیت کرتے ہیں، ملکی تعمیر نو یا جمہوری عمارت کسی بیوروکریسی کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہوتی، سیاسی قیادت ہی جمہوریت کو سمت عطا کرتی ہے، مگر ہمارا المیہ ایک کمزور جمہوریت کا استعارہ رہا ہے، یادش بخیر ہمارے ہاں چیئرمین سینیٹ کے انتخابات اور بلوچستان کی حکومت چشم زدن میں سامنے لائی گئی، میرغوث بخش بزنجو کے سیاستدان بیٹے میرحاصل بزنجو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے لیے کھڑے تھے تو انھیں اپنی جیت کیا سو فیصد یقین تھا لیکن جب الیکشن کا نتیجہ سامنے آیا تو وہ ہار چکے تھے۔
اس دن اہل جمہوریت کو اپنی منافقت پر رونا نہیں آیا جب قدروں کی مٹی پلید ہورہی تھی اور ملک جمہوریت، سسٹم شفافیت اور میرٹ سب خاک بسر ہوگئے تھے، اب سینیٹ کے الیکشن اہل جمہوریت سے سوال کرتے ہیں کہ جمہوری اقدارکیسے زوال پذیر ہوگئیں، ہم دو عملی کی دلدل میں کیسے دھنس گئے، اہل سیاست کی جمہوری اقدار سے ایسی روگردانی کے بارے میں سنجیدہ اور فہمیدہ حلقوں نے سوچا بھی نہ تھا، سوچیں کہ ہماری سیاسی اخلاقیات کیوں گلی کوچوں میں رسوا ہوگئی ہے؟ سینیٹ کے الیکشن میں اب اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ ووٹ لے کر بکس تک جانا والے کا بیلٹ پیپرکس رنگ کا ہونا چاہیے، تاکہ ’’چور‘‘ پکڑا جائے۔
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ایوان بالاکی تقدیس کے پیش نظر اہل سیاست ہوا کا رخ دیکھیں، قوم کے غم کو شیئرکریں، گزری دہائیوں میں جو غلطیاں و فروگزاشتیں ہوئی ہیں ان کا ادراک کریں، روح جمہوریت کو مزید نہ تڑپائیں۔ عہد کریں کہ عوام کی خدمت ہمارا شعار ہوگا، ہم حاکم نہیں قوم کے خادم بنیں گے۔
The post سینیٹ الیکشن appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/380TxhZ
0 comments:
Post a Comment