بچپن میں یہ محاورہ کئی بار سنا اور یاد کرایا جاتا رہا، مگر اس کا مطلب ہمیشہ یہی سمجھا کہ چور جب بھی چوری کرتا ہوگا تو کوئی تنکا اس کی داڑھی میں پھنس جاتا ہوگا، اسی لیے ایسا کہا جاتا ہے۔
میں چونکہ ایک گاؤں میں پلا بڑھا تھا جہاں تنکے تو عام ہوتے ہیں اور وہاں اکثر اوقات پیسہ اور قیمتی اشیا کو بھی گندم کے بھوسے (توڑی) میں چھپا کر رکھا جاتا تھا۔ داڑھی بھی گاؤں کے تقریباً سارے مرد رکھتے تھے۔ اس لیے میرے چھوٹے سے دماغ میں یہی آتا کہ چوری کرتے وقت تنکا چور کی داڑھی میں رہ جاتا ہوگا، اس لیے وہ پکڑا جاتا ہے۔ پھر یوں ہوا کہ والد صاحب کا تبادلہ شہر میں ہوگیا۔ شہر میں جب دیکھا کہ یہاں تو بغیر داڑھی والے بھی ہوتے ہیں تو اس محاورے کی تشریح بھی دوبارہ کرنی پڑی۔ استاد محترم نے سمجھایا کہ چور جب بھی چوری کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی نشانی چھوڑ جاتا ہے، جس سے وہ پکڑا جاتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ چور کی داڑھی میں تنکا۔ مگر دماغ میں یہ بات بیٹھی نہیں، کیوں کہ جب تک کوئی عملی مظاہرہ نہ ہو تو بات سمجھ میں نہیں آتی، اسی لیے پریکٹیکل بہت ضروری ہوتےہیں ہر اہم مضمون میں۔
بڑے ہونے پر اس محاورے کے کئی عملی مظاہرے بھی دیکھ لیے اور یہ بات سمجھ میں آگئی کہ واقعی چور کوئی ایسا کام کرتا ہے یا کوئی ایسی نشانی رہ جاتی ہے کہ جس سے اس تک پہنچنا یا اسے پہچاننا آسان ہوجاتا ہے۔ اور اب تو اس محاورے نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ حکومتی سطح پر بھی اس کا عملی مظاہرہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ اب کم سن بچوں کو بھی یہ سمجھ آسکے کہ چور کی داڑھی میں تنکا کا کیا مطلب ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک جماعت نے پاکستان میں چور چور کا شور مچایا اور ہمارے پاکستانی بھائیوں نے حسب روایت ان کے پیچھے دوڑ لگادی کہ اب کے چور کو نہیں چھوڑیں گے اور اس سے چوری کا مال بھی برآمد کرکے دم لیں گے۔ کرپشن اور چوری کا یہ شور مسلسل کئی سال چلتا رہا مگر سنوائی نہ ہوئی تو عوام نے ان شور کرنے والوں کو اپنا مسیحا سمجھ کر اپنے ووٹ کی طاقت بھی ان کے ساتھ شامل کردی۔ پھر کیا تھا، ان کی حکومت آگئی اور چور پکڑے جانے لگے۔ عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ چلو اب پکڑے تو گئے ہیں ناں، تو اب پیسہ بھی برآمد ہوجائے گا۔
مگر ہوا کچھ یوں کہ کچھ ہی عرصے میں ملک میں غربت بڑھنے لگی، مہنگائی بڑھنے لگی، بے روزگاری بڑھنے لگی۔ لوگوں کے مکانات منہدم ہونے لگے اور شور یہ ڈالا جانے لگا کہ قبضہ مافیا کے خلاف جنگ ہورہی ہے، اس لیے صبر کریں۔ عوام پھر خون کے گھونٹ پی کر چپ ہوگئے۔
پھر یوں ہوا کہ چور بغیر وصولی کے جیلوں سے باہر جانے لگے اور ان پر الزامات جھوٹے ثابت ہونے لگے اور باہر کی عدالتوں میں بھی چور سچے ثابت ہونے لگے تو میرے جیسے لوگ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا وجہ ہے کہ چور کی کوئی نشانی، کوئی ایسا کام، کوئی تنکا ایسا کیوں نہ ملا جس سے مال مسروقہ برآمد ہوسکے؟
اس سارے گورکھ دھندے میں تقریباً پونے تین سال کا عرصہ بیت گیا اور اس عرصے میں ریلوے تباہ ہوکر رہ گئی اور بیرونی قرضے میں ملک غوطے کھانے لگا۔ پوسٹل سروس میں پورے 80 ارب غریب پنشن والوں کے غائب ہوگئے۔ جب کہ اس کا وزیر بھی وہ جو سب سے زیادہ مال مسروقہ برآمد کرنے اور اس کے مصارف بیان کرنے میں پیش پیش تھا۔ ایف اے ٹی ایف سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھ کر چوتھی ایکسٹینشن ملی، جس کا حکومتی سطح پر جشن منایا جارہا ہے کہ بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے میں ناکام رہا۔ حالانکہ پاکستان گرے لسٹ میں رہتے ہوئے بھی 38 بلین ڈالر کا نقصان برداشت کرچکا اور ایسا کچھ نہیں کیا جاسکا کہ اسے وائٹ لسٹ میں ہی لے جاتے۔ بلکہ انٹرنیشنل ٹرانپیرنسی رپورٹ کے مطابق ملک میں کرپشن میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ایف بی آر نے ٹیکس کی چوری روکنے کےلیے الیکٹرانک ٹریکنک سسٹم لگانے کا کنٹریکٹ ایک کمپنی کو جاری کیا اور پیپرا رولز کو ایک سائیڈ پر رکھ دیا۔ پیپرا نے دخل اندازی کی کہ اپنوں کو نوازنے کےلیے 25 ارب روپے کا کنٹریکٹ بغیر ٹینڈر کے کیسے جاری ہوا تو پیپرا کو بھی ٹھیک کرنا پڑا۔ اور پھر پیپرا نے بھی ’’سب اوکے ہے‘‘ کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
ملین ٹری سونامی کا حال بھی زبان زد عام ہوچکا۔ چینی، آٹا، پٹرول، گھی، آئل، چکن، انڈے، ان سب مافیاز کے خلاف حکومتی جہاد جاری ہے، جس کی وجہ سے چور خوشحال پروگرام بہت ترقی کررہا ہے۔
چور چور کا شور کرتے ہوئے جو حکومت میں آئے وہ اپنی داڑھی میں تنکا ایک ضمنی الیکشن میں ہی پھنسا بیٹھے۔ جب کہیں سے بھی کامیابی نہ مل سکی اور این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں دو انسانی جانوں کے نقصان کے بعد بھی جب نتائج حسب منشا نہ آئے تو پورے 20 پولنگ اسٹیشنز کا عملہ ہی غائب کردیا گیا۔ مگر یہ چوری پکڑی گئی تو حکومتی سطح پر پورے زور و شور سے یہ کہا جانے لگا کہ ہم نے تو نہیں کیا، اپوزیشن نے کیا ہوگا۔ کیوں کہ ہم تو الیکشن جیت رہے تھے۔ پھر بھی دوبارہ پولنگ کرانے کو تیار ہیں۔
ان کے اس بیان کو الیکشن کمیشن نے سچ سمجھ لیا یا اپنی ایمانداری کی بنا پر دوبارہ الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا تو وہی حکومت اسے چیلنج کرنے کا کہہ رہی ہے۔ اور اگر اب بھی کسی کو یہ محاورہ سمجھ میں نہیں آتا تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post چور کی داڑھی میں تنکا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Pp8eFo
0 comments:
Post a Comment