لاہور: وزیر اعظم عمران خان نے سابق وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کومہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی کا’’ ذمہ دار‘‘ قرار دے کر ڈھائی سال میں تیسری مرتبہ اپنی معاشی ٹیم تبدیل کر لی ہے ،نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑی حماد اظہر کو نیا وفاقی وزیر خزانہ مقرر کردیا گیا ہے۔
مہنگائی پر قابو پانے کی بات کی جائے تو صوبائی حکومتیں پرائس کنٹرول کے حوالے سے ابھی تک کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہیں اور ان کے متعدد فیصلے اورا قدامات رسد وطلب کے بنیادی حقائق اور ضروریات سے متصادم ہیں۔ ویسے تو بجلی، پٹرولیم، گیس سب کچھ مہنگا ہوتا جا رہا ہے لیکن حکومت،اپوزیشن اور میڈیا کے لئے مہنگائی کی بنیادی تشریح اشیائے خورونوش بالخصوص آٹا اور چینی ہیں۔
گندم آٹا چینی طویل عرصہ سے ’’سیاسی‘‘ ہو چکے ہیں، حکومت ان اشیاء کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر کم رکھ کر سیاسی فوائد اور عوامی مقبولیت حاصل کرنا چاہتی ہے تو اپوزیشن ان اشیاء کی قلت اور مہنگائی کو جواز بنا کر حکومت پر شدید تنقید کرتی ہے۔
ایک جانب تو عمران خان سبسڈی دینے کے سخت مخالف ہیں لیکن دوسری جانب وہ آٹا قیمت کو مصنوعی طور پر کم رکھنے کی خاطر بھاری بھرکم سبسڈی کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ حکومت نے گزشتہ برس کسانوں سے 1400 روپے فی من قیمت پر گندم خریدی جس پر انسیڈنٹل چارجز کی مد میں مزید 544 روپے خرچ ہوئے لیکن حکومت نے یہ گندم فلورملز کو 1475 روپے میں فروخت کی جبکہ حکومت پنجاب کو 2600 روپے فی من قیمت پر امپورٹڈ گندم کی لاگت پڑی لیکن یہ گندم بھی 1475 روپے میں ہی ملز کو فراہم کی گئی تا کہ آٹا تھیلا 860 روپے میں فروخت ہو،محکمہ خوراک گندم کی وافر دستیابی نہ ہونے کے سبب رواں برس ملوں کو آبادی کی بنیاد پر کوٹہ دے رہا ہے جو کہ ناکافی نہ ہونے کے سبب فلورملز اوپن مارکیٹ سے مہنگی گندم خرید کر طلب پوری کر رہی ہیں۔
گزشتہ خریداری سیزن میں فلورملز کو گندم خریدنے سے روکا گیاتھا لیکن ذخیرہ اندوزوں نے بعد ازاں فلورملز کو 2300 روپے فی من قیمت تک گندم فروخت کی تھی ،یہ تو اچھا ہوا کہ حکومت نے سرکاری محکموں کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کو بھی گندم امپورٹ کرنے کی اجازت دے دی تھی جس کے نتیجہ میں اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت اور دستیابی معمول پر آگئی ورنہ حکومت کیلئے 860 روپے قیمت پر وافر مقدار میں آٹا فراہم کرنا ناممکن ہوجاتا۔
اس مرتبہ وفاقی سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی غفران میمن نے یہ دانشمندی کی ہے کہ وزیر اعظم کو تمام حقائق ،سابقہ و موجودہ حالات سے باخبر کر کے 30 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے کی اصولی اجازت حاصل کر لی ہے چناں چہ اگر خدانخواستہ صوبائی محکمے کسی وجہ سے کم گندم خریدتے ہیں تو بھی امپورٹڈ گندم ملک میں کسی بحران کو جنم نہیں لینے دے گی۔
تاہم وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر، وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان ڈاکٹر رضا باقر کو ان اطلاعات پر خصوصی توجہ دینی اور کسی ممکنہ خرابی کو روکنا ہوگا جن کے مطابق ایک مخصوص لابی صرف سرکاری سطح پر گندم امپورٹ کرنا چاہتی ہے یا پھر اس کی کوشش ہے کہ صرف 10 کے لگ بھگ پرائیویٹ امپورٹرز کو امپورٹ کا فائدہ ہو جبکہ ایسے فیصلے کروائے جا رہے ہیں جو فلورملنگ انڈسٹری کو گندم خریدنے سے روکنے کا سبب بن سکتے ہیں ۔
19 مارچ کو سٹیٹ بنک آف پاکستان نے ایک سرکلر جاری کیا ہے جس میں فلورملز کیلئے گندم خریداری کی خاطر قرضوں کے حصول کیلئے نئی شرائط عائد کی گئی ہیں۔ سرکلر کی پہلی شق کے مطابق بنک صرف دیسی گندم(یعنی مقامی پیداوار) کیلئے ہی قرضے دیں گے، اس شرط کے نفاذ سے وہ فلورملز جن کا آٹا میدہ کا مارکیٹ میں بڑا حصہ ہے اور وہ سرکاری گندم کوٹہ سے ڈیمانڈ پوری نہیں کرتیں اور اپنی نجی گندم استعمال کرتی ہیں۔
یہ تمام ملز گندم امپورٹ کے عمل سے باہر ہو گئی ہیں اور عملی طور اب گندم کی نجی امپورٹ صرف وہ نو یا دس لوگ کرسکیں گے جن کا تعلق کراچی سے ہے اور ان کے پاس بے بہا سرمایہ ہے اور اب پاکستان کی اوپن مارکیٹ پر ان کی مکمل اجارہ داری ہوجائے گی ۔وزیر اعظم عمران خان کا دعوی ہے کہ وہ مافیاز کے خلاف جہاد کر رہے ہیں لیکن ان کی اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض افراد اپنے ذاتی مالی مفادات کی خاطر سرکاری فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
قیاس آرائی ہو رہی ہے کہ مبینہ طور پر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک نجی امپورٹر نے ایک وفاقی وزیر کے توسط سے سابق وفاقی وزیر خزانہ کو گمراہ کر کے گندم امپورٹ کیلئے فلورملز کیلئے قرضوں پر پابندی کا فیصلہ کروایا ہے،سرکلر کے مطابق فلورملز کو بنک سے حاصل شدہ قرضوں کے ذریعے مقامی دیسی گندم خریدنے کیلئے 30 جون تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے اس کے بعد یہ قرضے ناقابل استعمال ہوں گے۔ اس وقت سرکاری محکمے جس جارحانہ انداز میں گندم خریداری کرتے ہیں اور صوبہ کو فلورملز کیلئے نو گو ایریا بنادیا جاتا ہے اس میں 30 جون کی ڈیڈ لائن غیر حقیقی ہے اور اس میں کم ازکم ایک ماہ کی توسیع لازمی ہونا چاہئے۔
پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عاصم رضا احمد نے گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر رضا باقر کو ایک مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے سٹیٹ بنک کے جاری کردہ سرکلر پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ سرکاری گندم ہو یا نجی گندم اسے استعمال فلورملز نے ہی کرنا ہوتا ہے اس لئے بنک قرضوں کی اجازت نجی گندم امپورٹ کیلئے بھی دے جبکہ گندم خریداری کیلئے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کی مدت 31 مارچ تک مقرر کی جائے۔ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک اس حوالے سے بہت متحرک ہیں اور کم وبیش بلا ناغہ سیکرٹری فوڈ شہریار سلطان اور ڈائریکٹر فوڈ دانش افضال کے ساتھ میٹنگز میں مختلف ا قدامات اور تجاویزپر تبادلہ خیال ہوتا ہے ،وزیر اعلی سردار عثمان بزدار اور سینئر وزیر و وزیر خوراک عبدالعلیم خان بھی ان کی مکمل سپورٹ کر رہے ہیں۔
حالیہ گندم ریلیز سیزن میں شہریار سلطان اور دانش افضال نے بہت محنت اور دلیری کے ساتھ چیلنجز کا مقابلہ کیا ہے ،عبدالعلیم خان کی یہ بات اب حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ پنجاب کی ایک ہزار فلورملز میں سے عملی اور حقیقی طور پرکاروبار کرنے والی ملوں کی تعداد 700 کے لگ بھگ ہے باقی سب موسمی پرندوں کی طرح صرف سرکاری گندم کوٹہ سیزن میں ہی دکھائی دیتی ہیں اور ان میں سے بعض سرکاری گندم کی فروخت میں بدنام ہیں اور جب ان کے سیاہ کاریوں پر سرکاری گرفت مضبوط ہونے لگتی ہے تو یہ لوگ فوڈ حکام پر دباو ڈالنا شروع کردیتے ہیں۔
اگر پھر بھی بس نہ چلے تو عدالتوں سے حکم امتناعی لا کر حکومت کو بے بس کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قابل احترام چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ،وزیر اعلی، سینئر وزیر اور چیف سیکرٹری کو سرکاری گندم چوری میں ملوث فلورملز کو نشان عبرت بنانے اور ایسی فلورملز کے خلاف جدوجہد کرنے والے سرکاری ملازمین کو حوصلہ دینے کیلئے اپنا اپناکردار ادا کرنا ہوگا۔گندم کی امدادی قیمت خرید1800 روپے من مقرر کی گئی ہے اور اس تناظر میں آئندہ ایشو سیزن پہلے سے زیادہ مشکل اور بحرانی ہوگا اس لئے حکومت کو اپنے فیصلے مشاورت اور زمینی حقائق کے مطابق کرنا ہوں گے۔
The post وزیر اعظم کیلئے فوڈ سیکیورٹی کے نئے چیلنجز سر اٹھا رہے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cCkXgV
0 comments:
Post a Comment