کوئٹہ: سینیٹ الیکشن کے’’ آفٹر شاکس‘‘ ابھی تک بلوچستان کی سیاست پر محسوس کئے جا رہے ہیں، جس کی زد میں حکمران جماعت اور بلوچستان میں باپ کی اتحادی تحریک انصاف زیادہ تر نظر آرہی ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف سات ارکان اسمبلی ہونے کے باوجود سینیٹ الیکشن میں اپنا ایک سینیٹر لانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی جبکہ ان الیکشن میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے عبدالقادر نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرکے پارٹی قیادت کو سیاسی شطرنج کی اس گیم میں ’’پیادے‘‘ کے ذریعے شہہ دیتے ہوئے مات دے دی ہے کیونکہ سینیٹ کے الیکشن میں بلوچستان کے اندر تحریک انصاف کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے، جس کی واضح مثال حال ہی میں تحریک انصاف بلوچستان کے ریجنل صدور اور عہدیداران کے ایک غیر معمولی اجلاس میں پارٹی کی مرکزی قیادت پر شدید تنقید کے علاوہ بغاوت کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔
اس اجلاس کی صدارت بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے کی، اجلاس کے حوالے سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ سینیٹ الیکشن کے دوران پارٹی قیادت کو غلط گائیڈ کرکے ناپسندیدہ فیصلے کرانے کے عمل پر پارٹی عہدیداران سخت نالاں دکھائی دیئے، پارٹی کے بعض عہدیداران نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر اس اجلاس کی اندرونی کہانی کے حوالے سے راقم کو بتایا کہ پارٹی کے عہدیداران نے یہ بات واضح کی ہے کہ بلوچستان میں اڑھائی سال سے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی ہونے کے ناطے اس کے ساتھ جو رویہ روا رکھا جارہا ہے اور سینیٹ الیکشن کے دوران جو کچھ انہوں نے عہدیداران و کارکنوں کے ساتھ کیا۔
اس حوالے سے تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کیا جائے گا۔ اگر پھر بھی شنوائی نہ ہوئی اور رویہ یوں ہی روا رکھا گیا تو پھر بلوچستان میں ورکرز کنونشن بلا کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائیگا جس میں انتہائی اقدام پارٹی سے راہیں جدا کئے جانے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ پارٹی کے ان عہدیداران کے مطابق اجلاس میں اس بات پر بھی سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا کہ بلوچستان میں تحریک انصاف کو حکمران جماعت بی اے پی نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔
پارٹی کے عہدیداران و کارکنوں سمیت وزراء اور ارکان اسمبلی کو یکسر نظر اندا کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب مرکز میں بلوچستان عوامی پارٹی اپنی تمام چیزیں وزیراعظم عمران خان سے منوا رہی ہے، جس میں ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے اقدامات بھی شامل ہیں، تاہم بلوچستان میں ان کے وزیراعلیٰ جام کمال تحریک انصاف کے وزراء و ارکان اسمبلی اور عہدیداران و کارکنوں کو کسی بھی معاملے میں خواہ وہ ترقیاتی عمل ہو، ملازمتیں ہوں یا پھر پوسٹنگ ٹرانسفر ہو کوئی اہمیت نہیں دیتے، جس کی واضح مثال تحریک انصاف کے وزراء اور ارکان اسمبلی کا نجی محفلوں میں برملا بے اختیار ہونے کا اظہار ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق تحریک انصاف بلوچستان میں یہ لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا جبکہ پارلیمانی گروپ بھی دوسے تین گروپوں میں بٹا ہوا ہے، پارٹی کے عہدیداران و کارکنوں نے مایوسی کے اندھیروں سے نکلنے کے لئے آواز بلند کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے وہ بلوچستان میں اپنے پارلیمانی گروپ کو متحد کریں اور مل کر یک آواز ہوں تب جاکر انہیں بلوچستان اور مرکز میں پارٹی قیادت اہمیت دے گی، ورنہ صورتحال جوں کی توں ہی رہے گی ۔
بعض سیاسی حلقوں کے مطابق اس تمام صورتحال سے پارٹی کے پارلیمانی لیڈر و صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند اور بعض ارکان اسمبلی بھی سخت مایوس ہیں اور وہ اکثر اوقات اپنی نجی محفلوں میں اس بات کا اظہار بھی کرتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ جام کابینہ میں بے اختیار وزیر کی حیثیت اور وزیراعلیٰ کی جانب سے ان کے محکموں میں بے جا مداخلت پر کسی بھی وقت معذرت کرکے وزارت کا عہدہ چھوڑ سکتے ہیں، جس کے لئے وہ کسی مناسب وقت کے منتظر ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جس مناسب وقت کے وہ منتظر ہیں۔
شاید وہ وقت اب قریب آگیا ہے کیونکہ ان کی جماعت کے صوبائی عہدیداران وکارکنوں نے بھی انہیں یہ تجویز دے دی ہے کہ وہ بے اختیار عہدوں سے جان چھڑا لیں، جس کے لئے انہوں نے اپنے قریبی دوستوں اور ہمدردوں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اسی لئے بعض سیاسی حلقے تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند کے حوالے سے بریکنگ نیوز کی آئندہ چند روز میں توقع کررہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کی سیاست میں ماہ رمضان و عید کے بعد بڑی سیاسی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس کے علاوہ سیاسی حلقوں میں موجودہ گورنر بلوچستان جسٹس (ر) امان اللہ یاسین زئی کی تبدیلی کے حوالے سے بھی بعض خبریں گشت کر رہی ہیں، اس سے قبل بھی گورنر جسٹس(ر) امان اللہ یاسین زئی کی تبدیلی کے حوالے سے خبریں آئی تھیں اور بعض شخصیات کے نام بھی سامنے آئے تھے لیکن مرکز نے آخری وقت پر اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے انہیں گورنر کے عہدے پر برقرار رکھا۔ سیاسی حلقوں میں صوبے کی ایک قبائلی شخصیت احمد خان غبیزئی کی اچانک بیرون ملک سے کوئٹہ آمد اور زبردست استقبال کے بعد گورنر بلوچستان کی تبدیلی کی خبروں نے زور پکڑا ہے، لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ گورنر بلوچستان جسٹس(ر) امان اللہ یاسین زئی کو فوری طور پر تبدیل کیا جا رہا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق سینیٹ الیکشن میں متحدہ اپوزیشن کی دو جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے ارکان اسمبلی کے حوالے سے یہ بات وثوق سے کہی جارہی تھی کہ انہوں نے اپنا ووٹ حکومتی اتحاد کو دیا ہے۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنی جماعت کے حوالے سے سخت نوٹس لیتے ہوئے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی رپورٹ بھی پارٹی کو موصول ہوگئی ہے اور کارروائی بھی عمل میں لائی جارہی ہے۔
پارٹی کے اندر احتساب کا یہ عمل یقینا قابل تعریف ہے، جس کے آئندہ دو رس نتائج برآمد ہوں گے، سیاسی مبصرین کے مطابق دوسری اپوزیشن جماعت جے یو آئی کو چاہئے کہ وہ بی این پی کی تقلید کرتے ہوئے پارٹی کے اندر احتساب کا عمل کرے اور ایسے ارکان کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔
The post تحریک انصاف بلوچستان نے بے اختیاری کا شکوہ شروع کر دیا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cGOJkZ
0 comments:
Post a Comment