Ads

معاشی بحالی میں مثبت اشارے

وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، حماد اظہر نئے وزیر خزانہ ہوں گے۔ وزیر اعظم نے نئی معاشی ٹیم لانے کا فیصلہ کیا ہے، نئی معاشی ٹیم کو حماد اظہر لیڈکریں گے۔

ملک کو بلاشبہ صبرآزما اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے، بہت کوششیں ہوئیں، حکومت نے ہر تدبیر آزمائی، پہلے اسد عمرکی خدمات حاصل کیں ، بہت سے کام ہوئے ، پالیسیوں کا اعلان ہوا ، معیشت کی کایا پلٹنے کے اعلانات ہوئے لیکن اقتصادی نظام کی تشکیل ایک کوہ گراں ثابت ہوا، معیشت کے کھلنے اور بند ہونے کے دلچسپ تجربات حکومت کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے ، عوام کی معاشی حالت پتلی ہوگئی ہے، اسے ایک طرف کورونا نے جکڑ رکھا ہے، ملک کے اسپتال بھرگئے ہیں ، عام مریضوں کو واپس کیا جا رہا ہے، ملک کے سب سے بڑے اسپتال سول اور جناح میں صورتحال سوالیہ نشان ہے۔

اب حفیظ شیخ بھی چلے گئے، مگر معاشی اور اقتصادی صورت حال کی بہتری کی کوششیں رک نہیں سکتیں ، اقتصادی ماہرین پیدا شدہ بحران کا کوئی صائب حل تلاش کرنے پر بار بار زور دیتے رہے، لیکن اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ملکی اقتصادی اور معاشی تشکیل نو اور مالیاتی اور معاشی صورتحال کو ممکنہ خطرات سے بچانے کے لیے جس شفاف، پر اعتماد اور مستقل بنیادوں پر پالیسی سازی کی ضرورت تھی اس پر سنجیدگی نہیں دکھائی گئی، کوئی ایشین ٹائیگر نہیں ڈھونڈا جاسکا۔

حکمراں تجربات سے استفادہ کرنے کے بس قصے سناتے رہے، کبھی چین کے اقتصادی تجربات کی باتیں کی گئیں،کبھی ملائیشیا کے مرد آہن مہاتیر محمد کا والہانہ ذکرکیا گیا، ان کے معاشی اقدامات اور معاشی پالیسیوں کو ملکی سسٹم سے مربوط کرنے اور ان تجربات کو یہاں آزمانے کے وعدے کیے گئے۔ دوست ملکوں سے مالی امداد حاصل کی گئی، تعمیرات کی بحالی کا شور بلند ہوا ، لنگر خانے بنائے گئے ، مرغیوں ، کٹے اور انڈوں سے معیشت سنبھالنے کے نسخے تجویز ہوئے، مگر عوام کی حالت بدلنے کے کسی حکیمانہ اور مسلمہ معاشی حکمت عملی کا دریچہ کھل نہ سکا۔

ہمارے آزمودہ کار اقتصادی جادوگر wizards بھی قوم کو ایک مستحکم معاشی پالیسی نہیں دے سکے، یہ ایک المناک معاشی ناکامی ہے، حکومت کے لیے حالات خود بھی سوالیہ نشان ہیں، مگر مایوسی کی کوئی بات نہیں ، ابھی ملک کو اتنے وسائل ، دوستوں کی مالی رفاقت اور تجارت وکاروبارکی وسعتیں دستیاب ہیں کہ انشااللہ ملک اس چیلنج سے جلد نمٹنے کے قابل ہوسکے گا ، ضرورت صرف اقتصادی بحالی کے لیے منصوبہ بندی کی ہے، اس گورکھ دھندے سے نکلنے کی ہے جس میں حکمران اس وقت گرفتار ہیں ، یہ عالمی کساد بازاری کا مشہور زمانہ منظرنامہ نہیں ہے، کوئی افتاد نہیں آپڑی ہے، ابھی پاکستان کی معیشت کو لمبی جست لگانی ہے، ماہرین اقتصادیات کو مل بیٹھ کر اس گرداب سے نکلنے میں نئے وزیر خزانہ کی رہنمائی کرنی ہے، حماد اظہرکو ہر صاحب فکر ونظرکی مدد کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے لیے صورت حال غیر معمولی ہے، کورونا، بے روزگاری، مہنگائی اور غربت یہ بڑے چیلنجز ہیں، نعروں اور وعدوں سے ٹالے نہیں جاسکتے، سیاسی حالات گمبھیر ہیں، قوم کی ڈھارس بندھائی جائے، غریب طبقات کو اوپر لے جانے کی باتوں میں وزن ہے، غربت ختم ہونی چاہیے، ہرگھر میں موجود کسی نوجوان کو روزگار کی ضمانت کا ملنا لازمی قرار دیا جانا چاہیے، جو ہنر مند ہیں، تعلیم حاصل نہیں کرسکے انھیں کہیں نہ کہیں کھپانا حکومت کا فرض ہے، بائیس کروڑکی آبادی والا ملک اس طرح کی اقتصادی اور معاشی بے سمتی کا الزام نہیں سہہ سکتا۔

ایک کارکا ٹائر برسٹ ہوجائے تو ڈرائیور حقارت سے اسے دیکھتا ہے، یہ ملکی معیشت کے استحکام کا معاملہ ہے، حکومت غور و فکر سے کام لے کہ سسٹم میں کہاں کوئی بھول ہوگئی ہے، پالیسیوں میں کہاں کوئی خرابی گھس آئی کہ پورا سسٹم عوام کے لیے بریک تھرو کے امکانات ڈھونڈ رہا ہے ، یہی وقت ہے کہ حکومت سیاسی کشمکش سے خود بھی نکلے اور اپوزیشن سے مفاہمت ، خیر سگالی اور ملک کے مستقبل اور عوام کی مشکلات کا کوئی دروازہ کھولنے کا اہتمام کرے ، کتنی درد انگیز ی ہے کہ لنگر خانوں کا تصور دھندلا پڑ گیا ہے، بے روزگاری اور غربت نے عوام کی بیچارگی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے، ان اہل خرد اور درد مند اہل وطن سے دستگیری کی التجا کریں جو اہل اقتدارکو ممکنہ صورتحال سے خبردار کرتے رہے۔

سنجیدہ حکومتی مسیحا بھی عوامی مسائل کے حل کے لیے اقتصادی نظام کی بحالی کو اولین فوقیت دیتے رہے، مگر کسی نے ان کی آواز نہیں سنی۔ بہر کیف اب ارباب اختیار کو عوام کی معاشی التجا کو سننے کا وقت نکالنا ہوگا ، سورج نصف النہار پرآگیا ہے، ایڈہاک ازم کا وقت نہیں، حکومت کے ذمے داروں کو اپنی صفوں میں اسکریننگ بھی پوری توجہ اور صبر و تحمل سے کرنی چاہیے۔ معاشرتی حالات کی بہتری کے لیے تمام وسائل کی دستیابی کو عوام کے لیے یقینی بنانے کی یہی گھڑی ہے۔

اس میں کوئی غیر ملکی ہاتھ نہیں، معاملہ معاشی نظام کی بحالی کا ہے۔ معاشی ماہرین کا فرض ہے اسے درست کریں، عوام کو کافی دنوں سے انتظار تھا کہ انھیں ہر ممکن ریلیف دیا جائے گا، وہ جمہوری ثمرات کے لیے حکومت کی راہ تکتے رہے، انھیں ٹریکل ڈاؤن ریلیف ان کی دہلیز پر نہیں مل سکا البتہ مختلف ناموں سے انھیں ، بارہ ہزار روپے کی امداد ملی،کبھی کسی اور نام سے کہیں راشن کا بندوبست کیا گیا ، لیکن ادارہ جاتی سطح پر عوام کو مضبوط اقتصادی اور معاشی نظام کے تحت پابندی سے ثمرات کی فراہمی کی نوید نہ ملی۔ افلاطون کا مقولہ ہے کہ سیاست میں حصہ لینے سے معذرت کی ایک سزا یہ بھی ہے کہ آپ کو بعد میں کمتر لوگوں کی محکومیت میں آنا پڑتا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کے پاس ابھی دو سال باقی ہیں ، وہ معاشی بحالی کا بہت سارا کام کرسکتی ہے لیکن اس کے لیے اسے اپنی طرزحکمرانی کو دیگر بندھنوں سے آزاد اور اپوزیشن سے سینگ لڑانے کا شوق ملتوی کرنا ہوگا ، جنگ اور محبت میں سب جائز ہے کی تھیوری یا اصول سیاست میں نہیں چلتا۔ عوام دو وقت کی روٹی، گھر اور آسودگی کی دولت چاہتے ہیں۔ حکومت اور عوام کا رشتہ حقیقی رشتہ ہوتا ہے، سیاست میں اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیے کہ عوام کو ہر روز سورج نکلنے اور ڈوبنے کے درمیان اپنے گھرکی فکر ہوتی ہے، حب الوطنی کی باتیں سب پیٹ بھروں کے چونچلے ہیں، ہر خود دار آدمی کو اپنے ملک سے محبت ہوتی ہے، اسے اس حکومت سے بھی قلبی وابستگی کا احساس ہوتا ہے جو اس کے رزق ، تعلیم ، گھر اور بچوں کے مستقبل کی نگہبان ہوتی ہے۔ ریاست کو اسی لیے ماں کہتے ہیں۔

اس کے لیے آزادی ، رزق ، تہذیب اور تحفظ اہم انسانی قدریں ہیں، غریب کو بھی عزت کی روٹی ملتی ہے تو اس کے لیے وہی حکومت سب سے بہترین حکمرانی کا آئینہ دار ہوتی ہے۔سیاست اگر واقعی امکانات کا کھیل ہے تو ارباب اختیارکو امکانات، سانپ اور سیڑھی والے کھیل کو ملکی اقتصادیات کو مشکلات سے نکالنے کا یہ عمل جاری رکھنا چاہیے، معیشت بلاشبہ آندھیوں کی زد میں ہے لیکن اسے پھونکوں سے بجھانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ حکمراں حاصل ہونے والے تجربوں سے ہی کچھ سکھ لیں۔ تبدیلی تجربوں سے حاصل ہونے والے حقائق کے جلو میں آتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کورونا ایک خاموش تباہی اور معاشی بربادی ہے ، اس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، کروڑوں انسان بے روزگار ہیں ، لاکھوں صنعتیں ، ہوٹلز ، تجارتی مراکز بند ہیں، بچوں کی آن لائن تعلیم سے متعلق حقائق نے والدین کی نیند اڑا دی ہے ، ماہرین کا کہنا ہے کہ آن لائن تعلیم کیے باعث بچوں کی ذہنی صحت شدید متاثر ہوئی ہے ، لیکن ارباب اختیار کے لیے معاشی بحالی میں مستقبل کے لیے بہت سے مثبت اشارے بھی ہیں۔

معاشی منیجر کی تبدیلی اسی وقت درست سمجھی جائے گی جب ملکی معیشت کے تمام شعبے یکساں رفتار سے کام کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ عالمی مالیاتی اداروں پر تنقید تو کی جاتی ہے لیکن جو حکومتیں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین کرتی ہیں، انھوں نے اپنی خوداحتسابی پر کبھی توجہ نہیں دی۔

دنیا میں تقریباً تمام ملک کسی نہ کسی شکل میں عالمی مالیاتی اداروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنوبی کوریا اور تائیوان نے بھی عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کیا لیکن انھوں نے ان مالیاتی اداروں سے ملنے والے فوائد کو درست انداز میں استعمال کیا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں ان ملکوں نے اپنے ذمے قرضے بھی اتارے اور ترقی بھی کی ہے۔ پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر اب تک عالمی مالیاتی اداروں سے متعدد بار قرضے لیے ہیں۔

ہمیں دنیا کے امیر ممالک کی طرف سے گرانٹس بھی ملتی رہی ہیں لیکن ہمارے پالیسی سازوں نے ان رقوم کو غیرترقیاتی اخراجات پر استعمال کیا۔ آج بھی پاکستان کے بجٹ کا بڑا حصہ غیرترقیاتی اخراجات پر مبنی ہے۔ اگر حکومت غیرترقیاتی اخراجات میں قابل لحاظ کمی کرے تو کورونا کے باوجود معیشت کو سنبھالا دیا جا سکتا ہے۔

The post معاشی بحالی میں مثبت اشارے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3sHYV20
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment