کورونا وائرس سے مزید چوہتر افراد جان کی بازی ہار گئے، مجموعی اموات سولہ ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔ ایک ہزار 274 نئے کیسز کے بعد مصدقہ متاثرین کی تعداد تقریباً چھ لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ وفاقی کابینہ نے بھی نجی کمپنیوں کی جانب سے ویکسین برآمد کرنے اور فکس ریٹ پر لگوانے کے لیے اجازت دی ہے، اب تک 1 لاکھ81 ہزار فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کو ویکسین لگا دی گئی ہے۔
کورونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث اب تک پاکستان میں سیکڑوں افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،یعنی کورونا وبا کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں،لیکن حکومت اور ہم بحیثیت قوم ابھی تک غفلت میں مبتلا ہیں ، جس طرز زندگی کو ہم اختیار کرچکے ہیں ، اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ رواں سال بھی پاکستان کے عوام کورونا کے خوف اور مرض سے نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔
ہمارے ملک میں سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے۔ اپوزیشن تو اپوزیشن،حکومت بھی جلسے کر کے اس وبا کو پھیلنے کی بھرپور دعوت دیتی رہی ہے۔عالمی وباء کی دوسری لہر نے سر اٹھا لیا ہے اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی وجہ سے روزانہ سیکڑوں افراد اس کا شکار ہورہے ہیں، جب کہ بڑی تعداد میں لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے ہمیں احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوگا، کیونکہ اس وبا سے نجات کا واحد حل صرف احتیاط ہے۔ عالمی وباء نے پوری دُنیا کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی زندگی پر بھی بھرپور اثر انداز ہو رہی ہے،لوگوں کی زندگیاں محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ کورونا وبا نے اس وقت پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس سے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔
ادھر مہنگائی پاکستان کی 73سالہ تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ ہر شے کی قیمتوں میں 200فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ غریب کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اوپر سے کورونا وبا نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ کورونا کے باعث کاروبار نہ ہونے کے برابر ہیں، معاشی حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں، مزدوروں کو مزدوری نہیں مل رہی، ایسی صورتِ حال میں اگر کوئی غریب کورونا وباء میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کو علاج معالجے کی سہولیات میسر نہیں،سرکاری اسپتالوں کا بُرا حال ہے ۔ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت نے عوام کی قوت خرید کم کر دی ہے۔
جس شخص کے پاس دس لاکھ روپے تھے ان کی قیمت ایک سال میں پانچ لاکھ کے برابر رہ گئی ہے۔ جتنے پیسوں میں پہلے 16 سو سی سی گاڑی آتی تھی اس میں اب 800 سی سی گاڑی بھی نہیں آ رہی۔ کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں جس شخص نے دس مرلہ گھر بنانے کے لیے سوا کروڑ روپے جوڑ رکھے تھے اب اس میں پانچ مرلے کا گھر بھی نہیں آتا۔پٹرول اور ایل پی جی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے مہنگائی بڑھ گئی ہے اور ہر پندرہ دن بعد پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے تسلسل نے مہنگائی کو مہمیز دی ہے ، ایل پی جی کے گھریلو سلنڈر میں دو سو روپے سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔
سردیوں کے ان ایام میں ویسے بھی گیس زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے ایل پی جی اور پٹرول کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں۔ عوام جائیں تو جائیں کہاں؟
دوسری جانب دکاندار اور تاجر اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ گلیوںمحلوں میں تو چلیں کوئی سرکاری اہلکار یا افسر انسپکشن کے لیے آنے کی تکلیف گوارہ نہیں کرتا۔ مگر یہ جو بڑی بڑی مارکیٹیں ہیں، منڈیاں ہیں وہاں بھی ان صاحبان کے لیے جانا مشکل ہے۔ سرکاری نرخوں کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ سب اپنی اپنی مرضی کے ریٹ لگاتے ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹورزپر بھی اشیائے خورونوش سستی نہیں رہی ہیں بلکہ مزید مہنگی کردی گئی ہیں ، سچ پوچھیے تو ملک میں یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد انتہائی محدود ہے ، لہٰذا اس کا خاطرخواہ فائدہ عوام تک نہیں پہنچ پاتا۔
کسی بھی معیشت کی ترقی کا دارومدار ٹیکس آمدن پر ہوتا ہے۔ عوام کی خوشحالی بھی اسی میں مضمر ہے۔ آمدن ہو گی تو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جا سکے گا۔ مالی سال 2020-2019 میں حکومت ٹیکس ہدف حاصل نہیں کرسکی ۔ سال 2021-2020 کا ٹیکس ہدف 4.963 ٹریلین روپے طے کیا گیا ہے۔ حکومت یہ ہدف حاصل کر پاتی ہے یا نہیں اس کا علم جون 2021 میں ہو سکے گا لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ٹیکس ہدف حاصل کرنا مشکل ہے۔
کورونا، بے پناہ مہنگائی اور قرضے پاکستان کو نئے سال بھی اٹھنے نہیں دیں گے۔ مراعات کے باوجود بھی ٹیکسٹائل سیکٹر کی کارکردگی متاثر کن نہیں ہے۔ جو سہولتیں دی گئی ہیں ان کے مقابلے میں برآمدات نہیں بڑھی ہیں، جب کہ دوسری طرف کپاس کی پیداوار بھی اس سال کم ہوئی ہے کیونکہ کسان نے اس سال کپاس کی کاشت کم کی ہے۔وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ پاکستانی کسان کو فی ایکڑ پیداوار دنیا کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد کم مل رہی ہے۔ یعنی کہ کپاس کی کاشت کی صورت میں پیسے جیب سے ادا کرنا پڑتے ہیں اور کمائی نہیں ہوتی۔
اس لیے رجحان دوسری فصلوں کی طرف ہو گیا ہے۔ مجبوراً صنعتکاروں کو کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ سب سے بڑی برآمدات کی انڈسٹری کو برآمدات بڑھانے کے لیے خام مال درآمد کرنا پڑ رہا ہے، جب کہ تین سال پہلے پاکستان اس میں خود مختار تھا۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ پاکستان میں کپاس کے بیج پر ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کام نہ ہونا ہے۔اسی طرح بیتے برس میںچاول کی برآمدات بھی مشکلات کا شکار رہی ہیں۔ پاکستانی کسان کی فی ایکڑ پیداوار تقریباً 70 من ہے جب کہ بھارت میں یہی پیداوار تقریباً 120 من ہے۔ اس کی وجہ چاولوں کی ریسرچ پر حکومتی عدم توجہی ہے۔
جب تک حکومت بیرون ملک سے ماہرین بلا کر چاولوں پر ریسرچ نہیں کرائے گی، یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔ بلکہ آنے والے سال میں چاول کی برآمدات مزید گرنے کے خدشات ہیں۔حکومت نے سال 2020 میں یہ کہہ کر اپنی کامیابی کا اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس میں تبدیل ہو گیا ہے۔
سچائی یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس برآمدات بڑھنے سے نہیں بلکہ درآمدات کم کرنے سے ہوئی ہے۔ برآمدات بڑھ نہیں رہیں تو ضرورت کی چیزیں کہاں سے حاصل کی جائیں گی۔ برآمدات نہ بڑھنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ایسی فیکٹریاں نہیں لگ رہیں جو پاکستان میں ایکسپورٹ کی صنعت کو بڑھاوا دینے میں مدد گار ثابت ہو سکیں۔
پاکستانی معیشت کی بات کی جائے تو جون 2021 تک کے اہداف بھی پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے حاصل کردہ قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے ،جوبراہ راست مہنگائی کی صورت میں عوام پر منتقل ہورہا ہے ۔
گوحکومت احساس پروگرام کے ذریعے غریب گھرانوں کو مالی امداد فراہم کررہی ہے جو کہ ایک مستحسن عمل ہے لیکن اس کے باوجود ایک بڑی تعداددھوکے اور فریب کے ذریعے یہ رقم حاصل کررہی ہے ، یقین نہ آئے تو ذرا رقم تقسیم کرنے والے مراکز کے باہر کھڑے رکشوں، چنگ چی اور موٹر سائیکلوں کی قطاریں دیکھ لیں۔ مگر اطمینان یہ بھی ہے کہ چلو اس طریقے سے کچھ مستحقین بھی فیض پا رہے ہیں۔رمضان المبارک کی آمد میں ڈیڑھ ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے ۔ مخیر حضرات رمضان سے قبل ہی چھان پھٹک کر خود یااپنی زیر نگرانی مستحقین اور سفیدپوش لوگوں کی مددکریں انھیںنقد امداد یا راشن پہنچا دیں اس سے رب بھی راضی ہو گا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام خوش اور خوشحال نہیں ہیں۔ بد حالی، بیروزگاری اور سیاسی ابتری نے پوری قوم کا بھرکس نکال دیا ہے۔ اپوزیشن نے ’’پی ڈی ایم’’کے پلیٹ فارم سے حکومت کو للکارا ہے۔ پی ڈی ایم رواں ماہ کے آخری ہفتے میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ،گو وزیر اعظم سے لانگ مارچ کے ذریعے استعفیٰ لینا آسان اور سہل نہیں ہے لیکن اپوزیشن دعوے تو کررہی ہے۔ یہ حالات کی سنگینی کا پتہ بتا رہے ہیں۔
ایسے میں رواں سال ہم سب کے لیے نئی آزمائشوں سے بھرا محسوس ہو رہا ہے۔ ملک کی قیادت کو مل بیٹھ کر ان حالات سے نمٹنے اور ملک کی خوشحالی کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ کاآغاز کرنا چاہیے تاکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے۔
The post کورونا ، مہنگائی ، ملکی معیشت اور عوام appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NRTQVT
0 comments:
Post a Comment