کورونا وبا نے سرمایہ داری کے بحران کو شدید تر کر دیا ہے اور اس کی بے حسی اور شقی القلبی کو ایک بار پھر عیاں کیا ہے۔
وبائی عفریت نے پیداواری عمل کو بڑی طرح متاثر کیا ہے جس سے روزگار کے ذرائع سکڑ کر رہ گئے ہیں۔ سماج کے دولت مند حصوں خصوصاً پیداوار کے منبع پر قابض گروہوں، ان کے زیرانتظام اداروں اور ریاستوں نے اس ناگہانی صورت حال میں جمع شدہ دولت کو نوع انسانی کی بقا کے لیے منصفانہ بنیادوں پر استعمال کرنے سے یکسر انکار کر رہے ہیں۔
آج اکیسویں صدی میں بھی صحت اور علاج جیسی بنیادی انسانی حق کا حصول دولت اور سرحدوں میں قید ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر غریب ممالک کی ریاستیں وبا سے نبردآزما ہونے کے لیے صحت کا موثر نظام فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں معصوم انسان موت کے منہ میں جاچکے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ صحت سے متعلق موجودہ بین الاقوامی اور قومی طرز عمل نے یہ حقیقی خوف پیدا کر دیا ہے کہ مستقبل قریب میں اسی نوعیت کے وبائی خطرات میں کہیں نوع انسانی ہی اپنا وجود نہ کھو بیٹھے۔
سرمایہ دار ممالک وبا سے بچاؤ کی ویکسین کو انٹیلکچوئیل پراپرٹی حقوق کی آڑ میں منافع کمانے کے لیے استعمال کر تے ہوئے انسانی زندگی پر منافع کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ اخلاقیات کا ایک اور قبیح اظہار ہے جس کے خلاف آج سے 135 برس پہلے شکاگو کی “ھے مارکیٹ” میں مزدوروں نے علم مزاحمت بلند کیا تھا۔ وقت اور حالات ثابت کر رہے ہیں کہ نہ تو سرمایہ کا چلن اور اس پر استوار انسان دشمن سوچ بدلی ہے اور نہ ہی اس کو چیلینج کرنے کی مزدور طبقہ کی خو اور ریت بدلی ہے ۔ ہر دور میں ہر بار شکاگو کا نیا معرکہ جنم لیتا رہا ہے اور لیتا رہے گا۔
آج دنیا بھر میں معاشی بحران کے نتیجہ میں سیاسی و سماجی بحران ہر لحظہ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان کی بھی اس سے مستثنا نہیں۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی صورت حال نہایت ہی دگرگوں ہے کہ یہاں یہ بحران دوآتشہ ہے۔ ایک آئی ایم ایف کے معاہدہ کا زہریلا وار اور دوسرا کرونا وبا کا تسلسل سے حملہ۔ پہلی کرونا لہر سے پہلے ہی موجودہ حکومت کے آئی ایم ایف سے ملکی تاریخ کے بدترین معاہدے نے عام محنت کش کی زندگی کو اجیرن کر دیا تھا کہ رہی سہی کسر کرونا نے پوری کر دی۔ جہاں معاہدہ نے معاشی ابتری کے خوف میں مبتلا کر دیا تو وہاں وبا نے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے کا خوف مسلط کر دیا۔
حکومت کے ایسٹ انڈیا نما مالیاتی ادارے سے معاہدے نے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جب کہ کورونا وبا نے سارے پیداواری عمل کو ہی وینٹی لیٹر پر لے جا لٹایا۔ معاہدوں کے نتیجہ میں نہ صرف بنیادی ضروریات زندگی پر ریاستی سبسڈی واپس لے لی گئی ہے بل کہ براہ راست ٹیکسوں کا بھی بوجھ عوام پر لاد دیا گیا ہے۔ اسی معاہدے کے تحت ملکی کرنسی کی قدر میں پینتیس فی صد کمی کی وجہ سے عوام کی حقیقی اجرتیں اور آمد نصف ہو کر رہ گئیں۔
اشیائے خورونوش، ادویات، بجلی، گیس ، ٹرانس پورٹ، صحت اور تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات میں چالیس سے تین سو فی صد اضافہ نے ان ضروریات زندگی کا حصول محنت کشوں کے لیے مشکل ترین بنا دیا ہے۔ اس پر افتاد یہ کہ کورونا نے روزگار کے رہے سہے مواقع بھی ختم کر دیے ہیں۔ کورونا سے بچاؤ کے لیے اقدامات اور حکومت کے احتیاطی احکامات کی آڑ میں مزدور کو دھڑا دھڑ ملازمتوں سے برخاست کیا گیا اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ ایک کروڑ اسی لاکھ سے زائد محنت کش مکمل طور یا پھر جزوی طور پر روزگار سے محروم کیے گئے۔ اب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وبا کی نئی لہر اور مالیاتی ادارے سے کئے جانے والے معاہدے کے نتیجے میں یہ بیروزگاری مزید بڑھے گی۔
اس بحرانی کیفیت میں ریاست شہریوں کو ہنگامی معاشی امداد فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے مجرمانہ بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کروڑوں انسانوں کو معاشی بحران اور وبا کے عفریت کے سامنے بے یارومدگار چھوڑ دیا۔ ریاست نے طاقت ور طبقات کے لیے زبردست مراعات کا اعلان کیا جس سے اس کی ترجیحات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ملکی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین اور بین الاقوامی ادارے اس امر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ گزرے اور آنے والے برسوں میں خاطر خواہ نمو کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہے اس نسبت سے کم از کم 5 فی صد کی شرح سے معیشت میں بڑھوتری ضروری ہے جو موجودہ صورت حال اور حکومتی پالیسی کی بنا پر ناممکن لگتی ہے۔
ایک ایسی معیشت جو سال بھر میں چالیس ارب ڈالرز (جس میں ایکس پورٹ سے بیس ارب ڈالرز اور تارکین وطن کے بھیجے بیس ارب ڈالرز شامل ہیں) کا زرمبادلہ کمائے اور اس کا سالانہ امپورٹ بل ساٹھ ارب ڈالرز سے زائد کا ہوں اور اسے ہر سال دس سے پندرہ ارب ڈالرز غیرملکی قرضوں کی قسط کی ادائیگی کے لیے بھی درکار ہوں تو وہ کیوں کر ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔
ایسے میں اگر ایک بیمار اور لاغر معیشت کا شکار معاشرہ اپنی پہلی ترجیح اسلحہ، سیکورٹی اور حکم رانوں کی مراعات ہی کو قرار دے تو پھر تباہی اور بربادی اس کا مقدر ٹھہرتا ہے اور ایسا ہی ہوتا نظر رہا ہے۔ ایسا ملک جس کی نصف سے زائد آبادی مفلسی کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو، جس کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہوں، نوے فی صد سے زائد شہریوں کے لیے صاف پانی کا حصول ناممکن ہو، جس کا شمار انسانی حقوق اور ترقی کے انڈیکس کی فہرست میں پست ترین ہو لیکن وہ اسلحے کی خریداری میں ایشیا پیسفک کے ممالک میں سر فہرست ہو اور اس کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے کرنے والے دس ممالک میں ہو تو پھر حکم رانوں کی سوچ پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔
یہ وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے پاکستان خطہ میں پھیلی بدامنی و انتشار کا منبع گردانا جاتا ہے اور خود ہم بھی اس کی بھاری قیمت چکاتے آرہے ہیں۔ یہ اسی بیمار ذہنیت کا شاخسانہ ہے کہ تعلیم، صحت اور انسانی بہبود پر اٹھنے والے اخراجات نہ ہونے کے برابر ہیں اور آج ہم اپنے شہریوں کو لگائی جانے والی ویکسین کے لیے غیرملکی مدد کے منتظر ہیں۔
ایک جمہوری معاشرہ کے خدوخال ابھرنے سے پہلے ہی مٹا دیے جاتے ہیں، ہر اس عمل کو خطرہ تصور کیا جاتا ہے جو سماج کو ترقی و انصاف کی جانب لے جاتا ہے۔ جمہوری روایات کو کمزور کیا گیا ، انقلابی تنظیموں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ طلبہ، مزدور، کسان، صحافی اور دیگر محاذوں کو طاقت کے زور پر دبایا گیا۔ منصوبہ بند طریقہ سے لسانی، مذہبی اور عوام دشمن گروہوں کی پشت پناہی کی گئی اور اسلحہ بردار لشکروں کو شہریوں پر مسلط کر دیا گیا۔
آج صورت حال یہ ہے کہ سات کروڑ سے زاید محنت کشوں کی اکثریت (ننانوے فی صد ) تنظیم سازی کے حق سے جبراً محروم کر دی گئی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر خصوصاً ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبہ میں یونین سازی کی موت واقع ہو چکی ہے۔ پانچ فی صد سے بھی کم محنت کش ملازمت کے تحریری تقررنامہ حاصل کر پاتے ہیں، یہ صورت حال سوشل سیکیوریٹی اور پینشن سے متعلق ہے۔
آٹھ گھنٹے روزانہ کام خواب ہے، فیکٹریوں، کارخانوں اور کار گاہوں میں بارہ سے چودہ گھنٹے روزانہ کام عام چلن ہے، سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود غیر قانونی ٹھیکے داری نظام رائج ہے، محنت کشوں کی اکثریت سرکاری طور پر اعلان کردہ کم اب کم اجرت سے محروم ہے، لیبر ڈپارٹمنٹ، نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن اور لیبر کورٹس مزدور حقوق ضمن میں مذبح خانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ملکی آئین، لیبر قوانین، پارلیمینٹ سے توثیق شدہ آئی ایل او کنونشنز، یورپی یونین سے کئے گئے جی ایس پی پلس معاہدہ تمام نقش بر آب ہیں۔
بین الاقوامی کمپنیاں ہوں یا یا کہ مقامی صنعت کار انہوں نے کارگاہوں کو جدید بندی خانے میں تبدیل کردیا ہے اور اس میں مزدور اس میں جدید غلام بن کر رہ گیا ہے۔ اسے نسل در نسل غیر انسانی ماحول میں کام کرنے اور رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ حکم رانوں نے منظم ہونے ، حقوق کے لئے قانون اور آئین کے دائرہ میں جدوجہد کے راستہ مسدود کردیے ہیں۔ نام نہاد میں اسٹریم پارٹیاں چاہیے وہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں وہ اپنے عمل سے ثابت کر رہی ہیں کہ وہ نظری طور پر بانجھ اور ظلم پر عبارت نظام ہی کا حصہ ہیں۔ ان کی ترجیحات کی فہرست میں محنت کش طبقہ کہیں بھی موجود نہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ محنت کشوں کی بے چینی اور غصہ کو لسان اور فرقہ واریت میں بدل دیا جائے اور سماج میں فاشسٹ سوچ کو ایک بار پھر فروغ دیا جائے۔
اس سارے منظرنامہ میں محنت کش طبقہ اپنے حقوق کے لیے خود ہی منظم ہوگا اور وہ اپنی درخشاں روایات کا خود ہی امین بنے گا اور اپنے خلاف ہونے والی منصوبہ بندی کو ناکام بنائے گا۔ محنت کش طبقہ جہد مسلسل کی عظیم تاریخ کا وارث ہے۔
محنت کش طبقہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ محنت کشوں نے 1968 اور 1969 میں جنرل ایوب کی آمریت کو للکارا اور ملک میں جمہوری اداروں کے قیام کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کی، سندھ کے ہاریوں نے جاگیرداری کے خلاف لازوال قربانیوں کی تاریخ رقم کی، 1970 میں ہشت نگر (خیبرپختون خوا) کے کسانوں نے خوانین کو شکست سے دوچار کیا، 1971 اور 1972 میں سائیٹ، لانڈھی کراچی (سندھ) کے محنت کشوں نے اپنے خون سے مزاحمت کے پرچم کو بلند کیا، یہ کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے محنت کش ہی تھے جنہوں نے 1978 میں ضیاء الحق کی پیرا ملٹری فورسز کی فائرنگ کا سامنا کیا اور مزدور حقوق کے لیے 200 سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
اوکاڑہ کے مزارعین کی 2000 سے جاری جدوجہد ہو یا کہ 2012 میں بلدیہ فیکٹری سانحہ میں شہید ہونے والے 260 مزدور کے لواحقین کی انصاف کے لیے تحریک اور حالیہ دنوں میں محنت کشوں کی مختلف پرتوں کے منظم دھرنے جدوجہد کے وہ استعارے ہیں جو اس امر کی جانب اشارہ کر رہے کہ محنت کش طبقہ ایک فیصلہ کن معرکہ کی تیاری کی جانب بڑھ رہا ہے اور نئی صبح کے امکان روشن ہو رہے ہیں۔
The post محنت کش فیصلہ کن معرکے کی جانب گام زن appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3t6cpUM
0 comments:
Post a Comment