Ads

راستے کا پتھر

پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اتحاد روز اول ہی سے تنقید کی زد میں رہا، بالخصوص ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی شمولیت کے حوالے سے مبصرین و تجزیہ نگار یہ متفقہ رائے رکھتے ہیں کہ دونوں جماعتیں ماضی میں ایک دوسرے کی سخت ترین مخالف اور انتخابی معرکے میں حریف رہی ہیں لہٰذا ایک پلیٹ فارم پر ان کا جمع ہو کر حکومت کے خلاف ٹھوس، جامع اور متفقہ لائحہ عمل اپنانا مشکل امر ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے سیاسی فائدے ہیں ، اپنے اپنے مفادات ہیں اور جداگانہ سیاسی نظریات ہیں ، پیپلز پارٹی کی قیادت پاکستان میں ہے اور حالات کے جبرکا سامنا کر رہی ہے جب کہ (ن) لیگ کی قیادت ملک سے باہر ہے۔

پی ڈی ایم کی حکومت مخالف حکمت عملی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں اختلافات موجود ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین طاقتور حلقوں کے خلاف علانیہ موقف کی تکرارکرتے چلے آ رہے ہیں اور اپنے بیانیے میں نرمی لانے پر آمادہ نہیں۔ وہ حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے لانگ مارچ سے قبل اسمبلیوں سے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے مستعفی ہونے پر بضد ہیں۔ اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن روز اول سے استعفوں کا آوازہ بلند کر رہے ہیں۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں، پھر لانگ مارچ کا آغاز کیا جائے۔

پی ڈی ایم کے آخری سربراہی اجلاس میں اسی نکتے پر مباحثہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کا علانیہ موقف ہے کہ مستعفی ہونے کی بجائے پارلیمان میں وزیر اعظم یا پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا آپشن استعمال کیا جائے۔ آصف علی زرداری ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں انتہائی قدم اٹھانے کی بجائے سیاسی حکمت عملی کے ذریعے حکومت کے خلاف اقدامات پر زور دے رہے ہیں۔ ٹکراؤ سے بچنا چاہتے ہیں تاکہ غیر جمہوری قوتوں کو جمہوری عمل کی بساط الٹنے کا موقع نہ ملے۔

پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اس حد تک تو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا کہ سینیٹ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حفیظ شیخ کے مقابلے میں پی پی پی کے یوسف رضا گیلانی کو مشترکہ امیدوار نامزد کرکے انھیں سینیٹر بنا دیا۔

بعدازاں چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر بھی (ن) لیگ کے سینیٹرز نے یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں ووٹ ڈالا تاہم سات ووٹ مسترد ہونے کے باعث گیلانی صاحب چیئرمین سینیٹ منتخب نہ ہوسکے اور پی ٹی آئی کے صادق سنجرانی عددی کمتری کے باوجود سینیٹ کے چیئرمین بن گئے۔ شومئی قسمت دیکھیے کہ عددی برتری کے باوجود جے یو آئی (ف) کے مولانا عبدالغفور بھی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہار گئے۔ اب اگلا مرحلہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا تھا، مسلم لیگ کا موقف ہے کہ پی ڈی ایم اجلاس میں طے ہوا تھا کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا منصب (ن) لیگ کو ملے گا۔

اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) نے اعظم نذیر تارڑکو نامزد کیا تھا۔ جب کہ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں پی پی پی سب سے بڑی جماعت ہے لہٰذا قائد حزب اختلاف کا عہدہ اس کا حق ہے لہٰذا پی پی پی نے یوسف رضا گیلانی کو اس عہدے کے لیے نامزد کرکے لابنگ کی اور گیلانی صاحب 30 ووٹوں کی اکثریت کے ساتھ قائد حزب اختلاف سینیٹ منتخب ہوگئے اور چیئرمین سینیٹ نے ان کا نوٹیفکیشن جاری کردیا، جب کہ (ن) لیگ کے اعظم تارڑ نے 20 سینیٹرز کے دستخط سے چیئرمین سینیٹ کو درخواست جمع کرائی، یوں وہ دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔

یوسف رضا گیلانی کا چیئرمین سینیٹ بننا پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں پی پی پی اور (ن) لیگ میں اختلافات کا نکتہ آغاز ثابت ہوا۔ لیگی رہنماؤں نے پیپلز پارٹی کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صف بندی ہو چکی، لکیرکھینچ دی گئی ہے، ایک طرف وہ لوگ کھڑے ہیں جو قربانیاں دے کر عوام اور آئین کی خاطر جدوجہد کررہے ہیں جب کہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنھوں نے چھوٹے سے فائدے کے لیے جمہوری روایات کو روند ڈالا اور جمہوریت کو بڑا نقصان پہنچایا۔ مریم بی بی نے یوسف رضا گیلانی کو ’’سلیکٹڈ‘‘ کا طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’باپ‘‘ (بلوچستان عوامی پارٹی) کے ووٹ لے کر گویا حکومت نے اپوزیشن لیڈر سلیکٹ کیا کیونکہ ’’باپ‘‘ والوں نے صادق سنجرانی کو بھی ووٹ دیا ۔

بلاول بھٹو نے مریم بی بی کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز اور دیگر لیگی رہنما پی پی کے خلاف بیان بازی نہ کریں، حوصلہ رکھیں، میں لیگی رہنماؤں کا احترام کرتا ہوں اور مریم بی بی کے الزامات کا جواب نہیں دوں گا، سلیکٹڈ کا لفظ میں نے دیا ہے میں جانتا ہوں اسے کہاں استعمال کرنا ہے اور کس کے لیے کرنا ہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ میں نے پی ڈی ایم کی بنیاد رکھی اسے نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ بلاول بھٹو نے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے نرم لب و لہجے میں جواب دے کر سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا۔

دنیا جانتی ہے کہ ماضی میں بھٹو خاندان نے پاکستان اور جمہوریت کی بقا کے لیے اپنی جانوں تک کی قربانیاں دیں ۔ دونوں جماعتوں کے بڑوں کی نفرتیں اور سیاسی مخاصمتیں اب ان کی آج کی نسلوں میں منتقل ہو چکی ہیں، یہ لاڑکانہ اور لاہورکی سیاسی جنگ ہے جو ایک دوسرے کے خلاف تو کامیابی سے لڑی جاسکتی ہے لیکن مشترکہ طور پر کسی تیسرے فریق کے خلاف لڑنا ممکن نہیں کیونکہ ان کے سیاسی مفادات ان کے راستے کا پتھر بن جاتے ہیں۔

The post راستے کا پتھر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PvWHnU
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment