وفاقی کابینہ نے بھارت سے چینی اورکپاس درآمد کرنے کی ای سی سی کی تجویز موخر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں5 اگست 2019 سے پہلے کی آئینی صورتحال بحال کرے، آرٹیکل370 کی بحالی تک بھارت سے کسی قسم کی تجارت نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں بھارت سے چینی ، کپاس منگوانے کا معاملہ زیر بحث آیا۔ کابینہ نے اس امر کا اعادہ کیا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات اس وقت تک نارمل سطح پر بحال نہیں ہوسکتے جب تک بھارت کی جانب سے5 اگست کا یکطرفہ اقدام واپس نہیں لیا جاتا۔ کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کا فیصلہ موخر کردیا۔
اقتصادی ماہرین اور سیاسی حلقوں میں بھارت سے چینی اور کپاس دھاگا درآمد کرنے کے فیصلہ کو موخر کیے جانے پر ایک بحث جاری ہے، اقتصادی ماہرین اور سفارتی و تجارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ دو دن میں پاک بھارت تجارتی پیش رفت پر یو ٹرن لینا غیر معمولی واقعہ ہے، اور وہ بھی بھارت سے تجارت کے حساس موضوع پر، سیاسی ذرایع کا کہنا ہے کہ بھارت سے تجارتی فیصلہ کرنے میں عجلت اور اسے فوری طور پر موخر کرنے کے درمیان رابطہ کے فقدان اور فیصلہ سازی میں خلفشار دکھائی دیتا ہے یا معیشت کے تقاضوں اور قومی ضروریات کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔
ذرایع کے مطابق شاہ محمود قریشی ، شیخ رشید ، اسد عمر اور شیریں مزاری نے بھارت سے تجارت کی مخالفت کی۔ اس معاملے پرکابینہ کی ذیلی کمیٹی قائم کر دی گئی جو بھارت کے ساتھ تجارت کی تجاویز پر سفارشات دے گی۔
بعد ازاں وفاقی وزیر سائنس ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی اصل حیثیت بحال ہونے تک بھارت سے کسی قسم کی تجارت نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے، مسلمانوں کا قتل عام کیا جائے، کشمیر کے لوگوں کو ان کے حقوق نہ دیں اور ہم یہ سمجھیں کہ اس سب کے باوجود ہم اور بھارت ہنسی خوشی رہ سکتے ہیں، یہ ممکن نہیں ہے۔ آج کابینہ میں حکومت کی یہی پوزیشن ہے اور وزیراعظم عمران خان نے بالخصوص اس پوزیشن کا اعادہ کیا اور زور دیا ہے، اسی پوزیشن کو لے کر ہم آگے بڑھیں گے۔ ہم اب بھی بھارت کے ساتھ تعاون، دوستی اور معیشت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن پہلی شرط یہی ہوگی کہ بھارت کشمیر پر5 اگست کی پوزیشن پر واپس جائے۔
تاہم سیاسی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب چینی اور کپاس دھاگا کی درآمد کے لیے حکومت بھارت سے رابطہ کرنے کی کوششوں میں تھی تو ارباب اختیارکوکیا اندازہ نہیں تھا کہ اس تجارت کے ممکنہ اثرات و مضمرات اور اس کا سیاسی فال آؤٹ کیا ہوگا ؟ پاکستان کس طرح لہو نثارکرتے کشمیریوں کی جدوجہد کی قیمت پر اس تجارت کی اجازت دے گا، معاشی ماہرین کے مطابق اس فیصلے کی حساسیت اس قدر ہولناک اور تحیر خیز ثابت ہوئی کہ طاقتورکو فیصلہ موخرکرنے میں دیر نہیں لگی۔
اس ڈرامائی واقعے کی انتباہی گونج سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی سنی گئی جس میں انھوں نے پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے خزانہ کی وزارتی پیشکش پر کہا ہے کہ معیشت کس سمت جارہی ہے کچھ پتا نہیں چل رہا ، جہاز کے کپتان کو مضبوط ہونا پڑے گا ورنہ کشتی آگے نہیں بڑھے گی، کہا جارہا ہے کہ اکنامک ایڈوائزری کونسل بن رہی ہے وزیراعظم اس کے چیئرمین اور میں چیف کنوینر ہوں گا، شوکت ترین نے صائب نصیحت کی کہ حکومت کو چاہیے اپنا گھر ٹھیک کرے جس نے ڈھائی سال میں اپنا گھر ٹھیک نہیں کیا، شروع میں آئی ایم ایف سے مذاکرات میں غلطی کی گئی۔
صرف ٹیرف بڑھانے سے کرپشن میں اضافہ ہوگا، ایکسچینج ریٹ اور شرح سود بڑھانے سے معیشت کا بیڑہ غرق کردیا ، پرائیویٹ لوگوں کو یقین دہانی کرانا ہوگی کہ نیب انھیں ایسے ہی نہیں اٹھا لے گا، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب میں اچھی ترامیم کی گئی تھیں، نیب قانون کو متوازن کیا جائے تاکہ لوگوں میں اعتماد بڑھے۔
شوکت ترین نے بتایا کہ مجھ سے پوچھا گیا کسی عہدے پر آنا پسند کروں گا یا نہیں، میرا جواب تھا کہ میرے خلاف کیس میں فیصلہ میرے حق میں آ چکا ہے لیکن نیب نے ہائیکورٹ میں اس پر اپیل کی ہوئی ہے، نیب کی اپیل ختم ہونے کے بعد وزارت خزانہ کی پیشکش ہوئی تو قبول کر لوں گا۔ شوکت ترین نے کہا کہ شروع میں ہم نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے میں غلطی کی، آئی ایم ایف سے مذاکرات سے قبل قومی مفاد کو دیکھنا ہوگا ، شرح سود سوا تیرہ فیصد اور ایکسچینج ریٹ 165پر لے جاکر معیشت کا بیڑہ غرق کردیا گیا، بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخ بڑھانے سے ڈیمانڈ ختم ہوگئی۔
معیشت بیٹھنے سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا، کورونا کی وجہ سے عوام پس گئے ہیں ان پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے، کورونا کی موجودہ لہر سخت ہے، حکومت آئی ایم ایف سے نکلنا نہیں چاہتی لیکن آئی ایم ایف کو زمینی حقائق سے تو آگاہ کرنا چاہیے۔
حکومت اپنا گھر ٹھیک کریگی تو آئی ایم ایف والے بھی اس کی بات مانیں گے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کم از کم تیرہ چودہ فیصد ہونی چاہیے، ایس او ایزکو ٹھیک کرنے سے ہمیں کس نے روکا ہے، ڈھائی سال میں ان کی مینجمنٹ ہی تبدیل نہیں کرسکے، ریونیو نہ آنے پر ٹیرف پر ٹیرف بڑھانے سے کرپشن میں اضافہ ہوگا، بجلی کے لاسز پانچ فیصد کم اور ریکوریز پانچ فیصد بڑھ چکی ہوتیں تو گردشی قرضہ کم ہونا شروع ہوجاتا۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقتصادی واقعات کے تیزی سے گزرنے کے باعث حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی اور بھارت سے چینی اور کپاس کی درآمد کا اعلان کیا ہے۔
گندم کی امدادی قیمت 1800 روپے فی من مقرر کی گئی۔ معاشی مسیحاؤں کی چھٹی حس میں عوام کو وزارت خزانہ کی نئی تبدیلی کی خوشخبری دینے کی دھن سوار تھی، قوم کو بتایا گیا کہ اس سال بھارت میں چینی پاکستان کے مقابلے میں 15 سے 20 فیصد سستی ہے، نجی شعبہ انڈیا سے 5لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرسکے گا ، ہندوستان سے تجارت کے نتیجے میں عوام اور چھوٹی صنعتوں کو فائدہ ہوگا۔ مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے چیلنجوں پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
اسی رو میں عوام کو یاد دلایا گیا کہ سخت اور بڑے فیصلوں کے بغیر قومیں آگے نہیں بڑھتیں، ہم پوری محنت سے آگے جارہے ہیں۔ حکومتی خواہشیں ہزاروں ہیں لیکن اقتصادی ترقی ایک مستحکم معاشی پالیسی کی مرہون منت ہوتی ہے، کوئی ملک قصے کہانیوں سے ایشین ٹائیگر نہیں بنتا۔ اس کے لیے پہلے گھر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں وطن عزیز کے دوستوں کی تعداد میں اضافہ کی کوششوں کو تیز کرنے کی موثر سفارتی پالیسی اور پر جوش مہم سے کایا پلٹی جاسکتی ہے ورنہ صورتحال کچھ ایسی ہوتی جارہی ہے کہ امریکی ایلچی برائے موسمیاتی تبدیلی جان کیری جمعرات کو شروع ہونے والے ایشیائی دورے کے دوران بھارتی، اماراتی اور بنگلہ دیش کے رہنماؤں کے ساتھ ’گلوبل وارمنگ‘ کو کم کرنے سے متعلق امور پر بات چیت کریں گے لیکن اس دورے میں وہ پاکستان کی قیادت کے ساتھ بات چیت نہیں کریں گے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث متاثرہ ممالک کے فہرست میں شامل ہے۔
میڈیا کے مطابق تازہ پیشرفت رواں ماہ کے آخر 23-22اپریل کو امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے بلائے گئے موسمیاتی سربراہی اجلاس کے اعلان کے بعد سامنے آئی۔ اس لیے انھوں نے 40 عالمی رہنماؤں کو بھی مدعو کیا ہے جس میں بھارت، چین اور بنگلہ دیش کے ممالک بھی شامل ہیں لیکن پاکستان سے کسی کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے ووڈرو ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوجل مین نے کہا کہ کیری کے منصوبے سے پاکستان کو خارج کردیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’پہلے پاکستان کو وائٹ ہاؤس کے آیندہ عالمی آب و ہوا سربراہی اجلاس کے لیے دعوت نامہ نہیں دیا گیا۔
اب امریکی موسمیاتی تبدیلی کے ایلچی جان کیری مشاورت کے لیے بھارت اور بنگلہ دیش جا رہے ہیں‘‘ دفتر خارجہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ پاکستان کو وائٹ ہاؤس کے سربراہی اجلاس میں نہیں بلایا گیا کیونکہ پاکستان ’’گرین ہاؤس گیس سب سے کم اخراج کرنے والے ممالک میں شامل ہے جو عالمی اخراج کا ایک فیصد سے بھی کم ہے‘‘ جان کیری کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو امریکا اور برطانیہ کی جانب سے زور دیا جارہا ہے کہ وہ 2050 تک ماحولیات کو نقصان دہ گیس کے اخراج کے ہدف کو صفر کردے۔ خیال رہے کہ بھارت دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔
جہاں سے کاربن کا اخراج ہورہا ہے۔ محکمہ خارجہ نے بتایا کہ آب و ہوا کے خصوصی صدارتی ایلچی جان کیری یکم سے 9 اپریل کو ابوظہبی، نئی دہلی، اور ڈھاکا کا سفر کریں گے۔ جان کیری ممالک کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو صفر تک کم کرنے کے لیے زور دیں گے۔ انھوں نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ امارات، بھارت اور بنگلہ دیش میں دوستوں کے ساتھ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے طریقوں سے معنی خیز گفتگو کے منتظر ہیں۔
بھارت کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف پیرس معاہدے پر قائم رہے گا جس سے وہ 2030 تک اپنے کاربن فوٹ پرنٹ کو 2005 کی سطح سے 33-35 فیصد تک کم کرے گا بلکہ امکان ہے کہ وہ ان مقاصد سے بڑھ کر کام کرے گا کیونکہ اس نے قابل تجدید توانائی کے استعمال میں اضافہ کیا ہے۔
اگرچہ امریکی حکام نے یقین دلایا ہے کہ امریکا پاکستان کے ساتھ مل کرکام کرنے کا خواہشمند ہے لیکن ہوائیں کسی اور سمت چل رہی ہیں، ارباب اختیار کو طوفانی سیاسی موسم میں سفینہ جمہوریت، اقتصادیات و ماحولیات کے تحفظ کے لیے چپو تیز اور محتاط طریقے سے چلانا ہونگے۔
The post فیصلوں میں استحکام کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PuaxY5
0 comments:
Post a Comment