عظیم پابلو نیرودا کہتا ہے ’’ آپ آہستگی سے مر رہے ہو، اگر تم سفر نہیں کرتے اگر آپ کتاب نہیں پڑھتے اگر آپ زندگی کی آوازوں کو نہیں سنتے ، اگر آپ اپنی قدر نہیں کرتے، آپ آہستگی سے مر رہے ہو، جب آپ اپنی عزت نفس کھو دیتے ہو، جب دوسرے آپ کی مدد کرنا چاہیں اور آپ ان کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ آپ آہستگی سے مر رہے ہو جب آپ اپنی عادتوں کے غلام بن جاتے ہو جب آپ روزانہ انھیں راستوں پر چلتے رہتے ہو ، جن پر آپ پہلے چل چکے ہو۔
اگر آپ اپنے معمولات کو تبدیل نہیں کرتے اگر آپ تبدیل شدہ رنگوں کو نہیں پہنتے یا اگر آپ ان لوگوں سے بات نہیں کرتے جنھیں آپ جانتے نہیں ہو۔ آپ آہستگی سے مر رہے ہو اگر آپ اپنے ولولے اور ان کے جذبات کو محسوس کرنے سے اجتناب کرتے ہو جو لوگ جو آپ کی آنکھوں کو چھلکتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں اور تمہارے دل کی دھڑکنوں کو تیز کرنا چاہتے ہیں آپ آہستگی سے مر رہے ہو ، اگر آپ اپنی زندگی کو تبدیل نہیں کرتے ، جب آپ اپنے کام سے یا اپنی محبت سے مطمئن نہیں ہوتے اگر آپ رسک نہیں لیتے جو غیر یقینی صورت حال میں سب سے محفوظ ہو۔ اگر آپ اپنے خواب کا پیچھا نہیں کرتے، اگر آپ اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک دفعہ پیچھے ہٹ سکو آپ آہستگی سے مر رہے ہو۔‘‘
میر ے ملک کے لوگوں ذرا غور سے اپنے آپ کو دیکھو ، تم سب آہستگی سے مر رہے ہو ،کیا تمہیں اپنے آپ میں زندگی کے اثرات نظر آرہے ہیں یا تم وہ مردے ہوچکے ہو جو سانس لے رہے ہیں ، ہمارا سماج وہ مشین بن گیا ہے جو زندوں کو مردوں میں تبدیل کر رہا ہے ، کیا تمہارے گھر قبروں میں تبدیل ہوکے نہیں رہ گئے ہیں۔
اگر تم یاد بھی کرو گے تب بھی یاد نہیں آئے گا کہ تم کب سے جینا ترک کرچکے ہو۔ تمہارے شب و روز صرف تمہاری سانسیں برقرار رکھنے کے لیے صرف ہورہے ہیں نہ کہ جینے کے لیے۔ اب تمہارا اولین مسئلہ صرف اپنی سانسیں برقرار رکھنے کا رہ گیا ہے۔ اسی لیے تو کہہ رہے ہیں کہ تم سب آہستگی سے مر رہے ہو ذرا بتاؤ تو سہی کہ تم نے کب پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے۔
تمہیں ہنسے ہوئے کتنا عرصہ بیت چکا ہے وہ دن یاد کرو ، اگر یاد آجائے کہ تم کب خوش ہوئے تھے۔ کب تم نے اپنے پیاروں کے ساتھ ہنسی مذاق کیا تھا صرف وہ دن یاد کر کے بتا دو ، جس دن تمہیں کوئی پریشانی ، مصیبت ، اذیت ، تکلیف اٹھانی نہ پڑی ہو۔ اچھا صرف یہ بتا دو ، وہ کونسا دن تھا جب تمہیں کسی ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ اچھا یہ بھی چھوڑو صرف یہ بتا دو ، وہ کونسا دن تھا جب تم نے امیروں ، با اختیاروں ، طاقتوروں کی گالیاں نہ کھائی ہو۔
یاد کرو کب تم نے نئے کپڑے پہنے تھے ذرا یہ بھی یاد کرو کب تم نے اپنی بیوی ، بیٹی ، بہن ، ماں کے لیے بازار سے نئے کپڑے خرید ے تھے۔ اچھا یہ بھی چھوڑو اپنا بٹوہ نکال کر دیکھو ، اس میں کتنے پیسے موجود ہیں۔ ذرا غور سے اپنے آپ کو دیکھو تم سب آہستگی سے مر رہے ہو۔
کیا تم نے کبھی اینیلیز این فرینک کی ڈائری پڑھی ہے ؟ اینیلیز این فرینک 12جون 1929کو جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ایک یہودی خاندان میں پید ا ہوئی۔ 1933میں نازیوں کے اقتدار پر قبضے کے بعد فرینک خاندان نیدر لینڈ چلا گیا این نے زیادہ تر وقت ایمسٹر ڈم میں گزارا ۔ فروری 1945 میں محض پندرہ سال کی عمر میں اس کی وفات کے بعد یہ ڈائری “The Diary of a Young Girl” کے عنوان سے شایع ہوئی جس نے اسے شہر ت دوام بخشی۔ اس ڈائری میں این نے جنگ عظیم دوم میں جرمنی کے نیدر لینڈ پر قبضے کے دوران 1942 تا 1944 اپنی زندگی کے احوال بیان کیے ہیں۔
اس ڈائری کا شمار دنیا کی معروف ترین کتابوں میں ہوتا ہے یہ ڈائری بنیا دی طور پر ڈچ زبان میں لکھی گئی ، اب تک اس کا 60 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس ڈائری کے واقعات پر مبنی کئی فلمیں اور ڈرامے بن چکے ہیں اسے یورپ اور امریکا کے ہزاروں مڈل اور ہائی اسکول کے نصاب میں شامل کیا گیا۔ اس ڈائری کے کچھ منتخب اقتباسات آپ بھی پڑھیے (1) یہ حیران کن بات ہے کہ دنیا کو بہتر بنانے کے آغاز کے لیے کسی کو ایک لمحہ بھی انتظار کی ضرورت نہیں ہے ۔
(2) یہ حقیقتاً تعجب انگیز ہے کہ میں اپنے تمام تصورات سے دستبردار نہیں ہوئی کیونکہ ان کا تکمیل پانا مشکل اور ناممکن امر لگتا ہے تاہم میر ے تصورات قائم ہیں۔ (3) اس خوبصورتی کے متعلق سوچیں جو ابھی بھی آپ کے ارد گرد موجود ہے اس بات کو سوچ کر خوش ہوجائیں۔ (4) جب میں لکھتی ہوں تو ہر بات کو ذہن سے جھٹک دیتی ہوں میر ے دکھ غائب ہوجاتے ہیں اور میر ی ہمت دوبارہ پید ا ہوجاتی ہے۔ (5) کوئی دے کر کبھی غریب نہیں ہوا۔ (6) مجھے علم ہوگیا ہے کہ خوبصورتی ہمیشہ باقی رہ جاتی ہے۔
فطرت ، دھوپ ، آزادی اور اپنے آپ میں یہ سب عناصر آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔ (7) میں ان تمام مصائب کے متعلق نہیں سو چتی لیکن اس خوبصورتی کے بارے میں سوچتی ہوں ، جو ابھی بھی باقی ہے۔ (8) والدین صرف اچھا مشورہ دے سکتے ہیں یا انھیں سیدھے راستے پر لگا سکتے ہیں لیکن کردار کی حتمی شکل کسی بھی شخص کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ (9) کاغذ میں لوگوں کی نسبت زیادہ صبر ہے۔ (10) دیکھو ایک ہی موم بتی کس طرح اندھیرے کی وضاحت اور اس کی مزاحمت کرتی ہے۔ (11) لوگ آپ کا منہ بند کروا سکتے ہیں مگر آپ کو اپنی رائے سے باز نہیں رکھ سکتے۔
(12) جو خوش ہے وہ ہی دوسروں کو خوشی دے گا۔ (13) جہاں امید ہے وہاں زندگی ہے یہ ہم میں ایک تازہ جذبہ پیدا کرتی ہے اور ہمیں پھر سے مضبوط بناتی ہے۔ (14) میں بہت سے دیگر لوگوں کی طرح بے کار زندگی نہیں گذارنا چاہتی ہوں حتی کہ ان لوگوں کے لیے بھی جن سے میں کبھی نہیں ملی میں چاہتی ہوں، جیتی چلی جاؤں (15) انسان کی عظمت ، دولت اور طاقت میں نہیں بلکہ کردار اور نیکی میں پوشیدہ ہے۔ (16) احساسات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میر ے لوگو خدا نے تمہیں خوش رہنے کے لیے پید ا کیا ہے اس نے تمہیں زندگی جینے کے لیے دی ہے نہ کہ جیتے جاگتے مردہ ہونے کے لیے۔ تمہاری اس حالت کے اکلوتے ذمے دار تم خود ہو۔ آؤ دوبارہ زندہ ہو جاتے ہیں اس سماج کو اور ان مشینوں کو جو تمہاری اس حالت کے ذمے دار ہیں، آگ لگا دیتے ہیں ۔
ہر اس چیز کو دفن کردیتے ہیں جو تمہیں دفن کرنے کے در پے ہیں ہر اس چیز کو مردہ کردیتے ہیں جو تمہیں جینے نہیں دے رہی ہیں جو تمہیں خوش ہونے نہیں دے رہی ہیں۔ بس ہمیں پابلو نیرو دا اوراینیلیزاین فرینک کی کہی گئی باتوں کودوبارہ غورسے پڑھنا اور سمجھنا ہوگا اس پر عمل پیرا ہوکر پھر دیکھو تم کس طرح دوبارہ جی اٹھتے ہو کس طرح دوبارہ زندگی تمہارے اندر دوڑتی پھرتی ہے۔
The post آپ آہستگی سے مر رہے ہو appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3bYrrWX
0 comments:
Post a Comment