Ads

عید شاپنگ اور کورونا تناؤ

ملک بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے ایک ہی دن میں مزید118 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ جن میں50 اموات وینٹیلیٹرز پر موجود مریضوں کی ہوئیں جب کہ 3 ہزار785 نئے کیس رپورٹ ہوئے۔

دوسری جانب ملک گیر عید شاپنگ کے امکانات پر بھی غیر یقینی کے سائے پھیلے ہوئے ہیں، درزیوں نے اپنے ریٹ بڑھا لیے، شہریوں نے سلے سلائے سوٹوں کا انتخاب کیا، عید کے لیے کرتے پاجامے، اچکن، شیروانی، مردانہ شلوار قمیض کے عام سوٹ بارہ سو سے دو ہزار تک فروخت کیے جا رہے ہیں۔

بچوں کے فینسی شوز، جوتے، نیکر، جینز، شرٹس کلر فل جرسیاں، ربن، چوڑیاں، مہندی کی اسٹک اور بچیوں کے چائنیز سوٹ، سینڈلز اور فراک کی دکانوں پر رش نہ ہونے کے باعث مہنگائی نے خریداری مزید مشکل بنا دی ہے، متعدد مارکیٹس ویران پڑی ہیں، اجرتی مزدور بیروزگاری کی تصویر بنے ہوئے ہیں، گھریلو اشیا کا حصول بھی آسان نہیں رہا، دکانیں بے ترتیبی کے ساتھ بند ہونے لگی ہیں، رات بارہ بجے سحری کے لیے دکانیں کھولنے کی کوششیں بھی کی گئیں، بچوں کے لیے ماؤں کو جو ہاتھ لگ رہا ہے ان ملبوسات کو انتہائی مہنگے داموں خریدنے پر وہ مجبور ہیں۔

کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، بچت یا سستے بازار کی سہولت موجود نہیں، جن مارکیٹس کو دن بھر بند رکھنے کی ہدایت کی گئی وہاں خریداری کے لیے تاجروں نے چور دروازے بنائے، عید شاپنگ کی کوئی پالیسی وضح نہیں کی گئی، حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت تاجر تنظیموں، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نمایندوں سے مذاکرات کر کے عوام اور تاجروں کے مابین کاروباری لائحہ عمل کو مناسب میکنزم کی شکل دے سکتی تھی کورونا کی خلاف ورزیوں کی روک تھام بھی ہو سکتی تھی، عوام کو ایس او پیز کی پابندی کرتے ہوئے خریداری کی تمام سہولیات مہیا کی جا سکتی تھیں۔

صرف احکامات، سختی اور خوف وہراس پھیلا کر کورونا سے نمٹنا نتیجہ خیز نہیں ہوگا، موبلائزیشن اور موٹیویشن بھی لازمی ہے، مگر سائنسی طریقوں کو بھی ایک ڈراؤنے تجربہ سے منسلک کر کے عید کی تیاری بہت ہی مشکل بنا دی گئی ہے، پورے ملک میں کورونا اور عید کی رونقوں کے درمیان ایک ہولناک رسہ کشی ہے، جو کورونا سے حالت جنگ میں ہیں وہ ریلیف مانگتے ہیں لیکن انھیں کوئی ماسک بھی نہیں دیتا، سب ماسک پہننے اور صابن سے بار بار ہاتھ دھونے کی تلقین کرتے ہیں، لیکن عوام کو ماسک اور صابن دینے کی ضرورت کوئی محسوس نہیں کرتا، کیا ریلیف دینے کی روایت ایس او پیز میں شامل نہیں ہے، ارباب اختیار کو ایک دوسرے محاذ پر بھی توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ شہر کے کم تعلیم یافتہ علاقوں میں یہ تاثر آج بھی موجود ہے کہ لوگ کورونا کو حقیقت سے بعید افسانہ سمجھتے ہیں، بلکہ بعض پڑھے لکھے افراد بھی کورونا کو فنڈ جمع کرنے کا ایک ذریعہ خیال کرتے ہیں اور یہ گروہ دوسروں کو بھی ماسک پہننے سے منع کرتے ہوئے یہی تاثر دیتا کہ کورونا صرف مخصوص علاقوں یا مواقعے پر آتا ہے۔ حکومت اور ہمارے مسیحاؤں کو ایئر کنڈیشنڈ کمروں سے باہر نکل کر بھی کورونا کی روک تھام کے لیے عوامی مہم جاری رکھنے پر سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے، وزیر خزانہ شوکت ترین نے صائب رائے دی ہے کہ ہم باتیں بہت کر چکے لیکن اب ایکشن لینے کا وقت آیا ہے۔ اہل سیاست بھی باور کر لیں کہ شہریوں کو یہ یقین نہیں کہ لاک ڈاؤن کب تک جزوی رہیگا اور کب لاک ڈاؤن ملک گیر ہو گا، اس کنفیوژن نے تاجر کمیونٹی کو مشتعل کر دیا ہے۔

ان کے لیے کاروبار کرنا اور عوام کے لیے خریداری کرنا اذیت ناک بن گیا ہے۔ میڈیا کے مطابق متعدد مواقعے پر خریداری کے لیے جانے والی خواتین کو بسوں سے اتارا گیا اور متعدد بسیں روڈ پر لانے والے ڈرائیوروں کو جرمانے کیے گئے، زبردست ہڑبونگ اور افرا تفری میں لوگ خریداری کرتے ہوئے پائے گئے۔

مارکیٹیں، بازار بند ہیں، ہر سو ہوکا عالم ہے، افطار اور سحری میں بھی چیزوں کی خریداری کے لیے سسٹم کے فقدان کی ہر شہری شکایت کر رہا ہے، یہ سارے معاملات کسی ٹھوس ضابطے میں لائے جا سکتے تھے لیکن کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ کاروباری مرکزیت نہیں رہی، کاروباری توازن اور تمدنی ترتیب کے حکومتی بندوبست پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ اب بھی سسٹم اور عوام کو نظم و ضبط کا پابند نہیں کیا گیا تو افراتفری بے قابو ہو سکتی ہے، مفاد پرست عناصر صورتحال کو خراب کر سکتے ہیں، کیونکہ لوگوں کو خریداری اور عید شاپنگ کا موقع ہی نہ ملا تو وہ اپنی فرسٹریشن کسی اور ذریعے سے نکال لیں گے۔ عوام کو ریلیف نہیں مل رہا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔

ایک بیان میں وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ گزشتہ روز 16 مریض انتقال کر گئے۔ 976 نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔ مجموعی اموات 4742 اور متاثرین کی تعداد 2 لاکھ 92643 ہو چکی ہے۔ ڈی ایچ او اسلام آباد ڈاکٹر ضعیم ضیاء کے مطابق رواں ہفتے شہر میں کورونا مثبت کیسز کی شرح کم ہو کر 7.78 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ جو گزشتہ ہفتے9.24 فیصد تھی۔ وفاقی وزیر اسد عمر اور لیفٹیننٹ جنرل حمود الزمان کی زیر صدارت این سی او سی کا خصوصی اجلاس ہوا۔ تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز نے بھی شرکت کی۔

اجلاس میں8 مئی سے16 مئی کے دوران نافذ ہونے والے ایس او پیز پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔ ان دنوں کے دوران تمام مارکیٹیں، کاروبار اور دکانیں بند رہیں گی۔ ضروری خدمات جن میں گروسری اسٹورز، میڈیکل اسٹورز، طبی سہولیات، ویکسینیشن مراکز، سبزی، پھل، چکن اور گوشت کی دکانیں، بیکری، پٹرول پمپ، فوڈ ٹیک اویز اور ای کامرس (ہوم ڈلیوری)، یوٹیلیٹی سروسز (بجلی، قدرتی گیس، انٹرنیٹ، سیلولر نیٹ ورکس/ ٹیلی کام، کال سینٹرز اور میڈیا ہاؤسز کو کھلا رکھنے جب کہ سیاحتی، تفریحی مقامات کے گردونواح میں تمام ہوٹل اور ریسٹورنٹس بند رہیں گے۔

تمام ہوٹلوں وغیرہ کی بکنگ منسوخ کر دی گئی ہے۔ این سی او سی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سیاحتی مقامات کی طرف آنے والے سیاحوں کو واپس بھیجا جائے گا۔ انھیں کسی صورت سیاحتی مقامات میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس دوران بین الصوبائی، بین الاضلاع اور شہروں کے اندر بھی پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی ہے۔

نجی گاڑیوں، ٹیکسیوں، رکشوں کو 50 فیصد گنجائش کے ساتھ چلنے کی اجازت دی گئی ہے۔ فورم نے مختلف شہروں میں رپورٹ ہونے والی ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور تمام صوبوں کو ہدایت کی کہ وہ بھرپور انتظامی کنٹرول کے ساتھ لاک ڈاؤن سے متعلق احکامات پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ پی آئی اے کا خصوصی طیارہ چین سے سینو ویک ویکسین کی مزید 10 لاکھ خوراکیں لے کر پاکستان پہنچ گیا ہے۔

ایوان وزیر اعلیٰ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ پنجاب میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 13فیصد ہے۔ پنجاب کے 26 اضلاع میں شرح 8 فیصد سے زیادہ ہے۔ گزشتہ24 گھنٹوں میں صوبہ بھر میں 1638مثبت کیسز سامنے آئے۔

پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ کووِڈ 19 بحران کے اثرات سے بحالی کے لیے بعداز عالمی وبا کا ایک فریم ورک تیار کیا جائے۔ رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کی ڈیولپمنٹ کوآپریشن فورم (ڈی سی ایف) کے اجلاس میں پاکستان نے تجویز دی کہ عالمی وبا کے خلاف لڑائی میں ہر خطے کو شامل کیا جائے اور کہا کہ ہر خطے، ریاست اور برادری کے پاس بتانے کے لیے معلومات اور تجربہ ہے۔

اپنے خطاب میں وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے عالمی وبا کے سماجی و معاشی اثرات اور ان سے نمٹنے کے لیے نئے طریقہ کار کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ بین الاقوامی نظام کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ ترقی کے لیے بعد از کووِڈ فریم ورک تشکیل دینے کو ترجیح دے، ایک ایسا فریم ورک جو اسٹیک ہولڈرز کو نزدیک لا سکتا ہے تاکہ خطرات کو بہتر طور پر کم کرنے اور جھٹکوں سے بازیافت کرنے کے لیے درکار ردعمل تشکیل دیا جا سکے۔

دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کورونا وبا سے نمٹنے والے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنے، خطرات کم کرنے اور لچک میں اضافہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ مشکلات سے نمٹنا اور بحران کو روکنا ڈیولپمنٹ کارپوریشنز کے نئے ڈی این اے کا حصہ ہونا چاہیے۔

ڈی سی ایف اجلاس نے کووڈ 19 اور مستقبل میں آنے والے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے آپشنز کا جائزہ لینے کے لیے حکومتوں، عالمی تنظیموں، ترقیاتی بینکوں اور فلاحی اداروں کو اکٹھا کر دیا۔ اسلام آباد سے ورچوئلی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے شرکا کو آگاہ کیا کہ کس طرح احساس پروگرام نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کے ساتھ وبا کی پہلی لہر پر قابو پانے میں مدد دی۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نے وبائی امراض کی وجہ سے ہونے والے معاشرتی، معاشی نقصان کو بڑھائے بغیر صحت کے خطرات سے کامیابی کے ساتھ نمٹا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ پاکستان کس طرح اس مشکل صورتحال سے نکلا، بتایا کہ ہمارے 2 کروڑ 40 لاکھ افراد جو اپنے خاندانوں کے لیے روزی کماتے ہیں وہ یا تو دیہاڑی دار ہیں یا اپنا کام خود کرتے ہیں جو کہ عملی طور پر آمدنی کے تباہ کن نقصان کے دہانے پر تھے۔

انھوں نے خبردار کیا کہ جب عالمی وبا ختم ہو جائے گی تو اس کے بعد بھی دنیا اس کے اثرات کا سامنا کرتی رہے گی، چنانچہ سکڑتے ہوئے عالمی مالیات کے وقت ہر طرح کے تعاون کو بڑھانا اور مرکزی دھارے میں لانا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہوجائے گا۔

The post عید شاپنگ اور کورونا تناؤ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3uEClbo
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment