وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت سے اِس وقت تعلقات بہتر کرنا کشمیری شہداء کے خون سے غداری ہوگی، کشمیریوں کے خون پر بھارت سے تجارت اور تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔ اگر پی ڈی ایم عوام کے لیے کھڑی ہوتی تو اب تک ہماری حکومت گرا چکی ہوتی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ یہ صرف اپنے کیسز ختم کروانا چاہتے ہیں، عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں، عوام اب ان کی باتوں میں نہیں آئیں گے، اپوزیشن نے شروع دن سے ہمیں نااہل کہا، اب شرح نمو بڑھنے پر پھنس گئی ہے اس لیے اعداد و شمار کو ہی غلط کہہ رہی ہے۔
’’آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ‘‘ کے عنوان سے عوام کے ٹیلی فون پر سوالات کے جوابات دیتے ہوئے عمران خان نے مسائل، چیلنجز، مشکلات، حکومتی منصوبوں اور میگا پروجیکٹس کے حوالہ سے کثیر جہتی گفتگو کی، زبان خلق سے کچھ سننے کو بھی ملا، حقیقت میں عوام سے دو بدو بات چیت کا یہ سلسلہ صائب ہے جس میں عوام کا یہ شکوہ بھی دور ہوجاتا ہے کہ وزیر اعظم نہیں ملتے، فریاد کون سنے، عوام اپنے دکھ کس سے شیئر کریں۔
یوں تو آج کی دنیا کو اطلاعات اور ابلاغ کی صدی کہتے ہیں مگر رابطہ کے فقدان سے پیدا ہونے والے مسائل، افواہوں، غلط فہمیوں اور فرسٹریشن نے طرز حکمرانی میں شفافیت کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے تاہم میڈیا، انٹرنیٹ، موبائل فون، سٹیزن جرنلزم، پریشر گروپس، فیک نیوز اور سوشل میڈیا نے حکمرانوں کو چوکس اور الرٹ کر دیا ہے۔
اپوزیشن جوابی وار میں دیر نہیں لگاتی، اندیشہ ہائے دور دراز کی بات اور ہے، بہر حال آج حکمراں صنعتی، زرعی، برقی، آبی، اقتصادی پالیسیوں اور مسائل پر گفتگو کرتے جب کہ عوام اپنے دل کی بھڑاس بھی نکال لیتے ہیں، سازشی تھیوریاں بھی زیادہ دیر گردش میں نہیں رہ سکتیں، حقیقت جلد کسی کونے کھدرے سے نکل کر سامنے آ جاتی ہے۔ اب تو جمہوری مکالمہ کو راستہ مل گیا ہے۔ میڈیا میں معروضیت کی دھمک صاف سنائی دیتی ہے۔
وزیر اعظم نے بات چیت کرتے ہوئے کہا پی ڈی ایم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت کو بلیک میل کرکے کرپشن کیس ختم کیے جائیں، ملک درست سمت میں لگ چکا ہے۔ اپوزیشن سمجھ ہی نہیں رہی تھی کہ حکومت معاشی مشکلات سے نکلے گی۔
اب یہ بجٹ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کریں گے لیکن ان کی یہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہو گی۔ قوم اپوزیشن کی چوری بچانے میں ان کا ساتھ نہیں دیگی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران اپنے لوگوں اور معیشت کو بھی بچایا، ایف بی آر نے ریکارڈ وصولیاں کی ہیں۔
کبھی ہمارے ملک میں اتنا زیادہ ٹیکس اکٹھا نہیں ہوا، جسٹس (ر) عظمت سعید کی زیر سرپرستی ہاؤسنگ سوسائٹیز پر کمیٹی بنائی ہے جو باقاعدہ کیٹگرائز کر رہی ہے، اگر ہاؤسنگ سوسائٹیز شرائط پوری نہیں کریں گی تو منظوری نہیں دی جائے گی۔
غیر قانونی سوسائٹیز بند کر دیں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ملک میں بلاشبہ پانی کی کمی ہے، 10 ڈیم بن رہے ہیں جو اگلے دس سال تک مکمل ہوں گے، انھوں نے یقین دلایا کہ جب ڈیم بن جائیں تو ہر صوبے میں منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے۔ صوبوں کے اندر بھی پانی کی تقسیم پر اختلافات ہیں کیونکہ کمزور کسان کا پانی چوری ہوتا ہے، طاقت ور اپنی زمینوں کا پانی لے جاتا ہے، ہم ان صوبوں میں جہاں ہماری حکومت ہے وہاں اقدامات کریں گے، سندھ حکومت کو صورتحال خود بہتر کرنا ہے، اگر رینجرز کی ضرورت پڑی تو دیں گے۔
پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تھوڑا وقت لگے گا، رواں سال کے آخر تک پورے پنجاب میں ہیلتھ کارڈ دیے جائینگے۔ وزیر اعظم نے کہا مشکل وقت میں حکومت ملی، کبھی کسی حکومت کو اتنے مسائل نہیں ملے جتنے ہماری حکومت کو 2018 میں ملے۔
کسی کو امید نہیں تھی تقریباً 4 فیصد گروتھ ہوگی، ہم اپنی اور مخالفین کی سوچ سے زیادہ تیزی سے اوپر گئے، اپوزیشن نے پہلے دن سے کہا کہ یہ نااہل ہیں انھیں نکال دینا چاہیے۔ اپوزیشن نے کہا اگر ہمیں این آر او دے دو گے تو آپ نااہل نہیں ہوگے، این آر او نہیں دو گے تو حکومت نہیں چلنے دیں گے، یہ پاکستانی فوج کو کہتے ہیں منتخب حکومت کو گرا دو۔
کہتے ہیں الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے اور کوئی ثبوت بھی نہیں دیا۔ تاہم وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اب اپوزیشن پھنس گئی ہے کہ اگر اتنی نااہل حکومت تھی تو 4 فیصد شرح نمو کیسے آ گئی؟ اب کہتے ہیں حکومت کے اعداد و شمار غلط ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ اللہ نے ہمیں بڑے مشکل وقت اور امتحان سے گزارا ہے، اگلا وقت آسان ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بھارت سے ہمارے تعلقات اچھے ہوں اور تجارت شروع ہو جائے تو سب کو فائدہ ہوگا لیکن ہم اس وقت اگر بھارت سے تعلقات معمول پر لاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم کشمیر کے لوگوں سے بہت بڑی غداری کریں گے، ہماری تجارت بہتر ہوگی لیکن کشمیریوں کا خون ضایع ہو جائے گا لہٰذا یہ ہر گز نہیں ہو سکتا۔ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، اگر ان کے خون پر ہی پاکستان کی تجارت بہتر ہوگی تو یہ نہیں ہو سکتا۔
وزیر اعظم نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اگر بھارت 5 اگست کے اقدامات سے واپس جائے تو پھر بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ بھی کشمیر کی طرح ہے، اس وقت بین الاقوامی میڈیا اور دنیا میں جو شعور اور جس طرح کی تحریک چل پڑی ہے، یہ تحریک فلسطینیوں کو ایک حل دینے کی طرف جائے گی۔
وزیر اعظم کے مطابق اینٹی کرپشن کی ٹیم راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے پر انکوائری کر رہی ہے، دو ہفتے کے اندر انکوائری کا رزلٹ آ جائے گا پھر ہم ایکشن لیں گے۔ رنگ روڈ کو جیسا ہونا چاہیے تھا ویسا ہی ہوگا۔ ہماری حکومت نے زراعت میں بڑے اقدامات کیے اور کسانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں فنڈز دیے۔
اب تک 4 ہزار 143 ارب روپے کا ٹیکس وصول ہوا ہے، جولائی، اگست تک آٹومیشن پر چلے جائیں گے اور ٹیکس نہ دینے والوں کے بارے میں سب کچھ پتہ چل جائے گا، ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ایک خراب ادارے کو ٹھیک کرنا سب سے مشکل کام ہے۔
پنجاب کے سابق آئی جی عباس خان نے 1993 میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ پیش کی تھی، جس میں انھوں نے کہا کہ پولیس میں25 ہزار لوگوں کو میرٹ کے بغیر بھرتی کیا گیا، زیادہ تر لوگوں کو پیسے لے کر بھرتی کیا گیا اور ان میں سے کئی بڑے کریمنلز تھے۔
جب پولیس کو مخالفین کے خلاف استعمال کیا جائے تو اس نے خراب تو ہونا ہی ہے، پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تھوڑا وقت لگے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب ملک کی لیڈر شپ اخلاقیات کو تباہ کرتی ہے تو وہ سارے معاشرے کو نیچے لے جاتی ہے، جنگیں ہارنے سے قومیں تباہ نہیں ہوتیں، معاشی بحران سے بھی قومیں تباہ نہیں ہوتیں بلکہ اخلاقیات ختم ہو تو معاشرہ بگڑتا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ساتویں سے نویں کلاس تک نصاب میں سیرت نبویؐ کے بارے میں تعلیم دی جائے گی کیونکہ انھی کو رول ماڈل بنا کر ہم اپنی نسلوں کی کردار سازی کر سکتے ہیں۔
وزیر اعظم کا استدلال تھا کہ جب فوج حکومت کرتی ہے تو بدقسمتی سے ان کو ادارے کمزور کرکے حکومت میں آنا پڑتا ہے، عدلیہ اور دیگر اداروں پر کنٹرول کرکے ان کو اپنے نیچے لانا پڑتا ہے۔ فوجیں جس طرح حکومت کرتی ہیں، اس کو جواز دینے کے لیے خود کو جمہوری بھی کہتے ہیں تو پھر مصنوعی جمہوریت ہی آتی ہے اور ملک کو نقصان پہنچاتی ہے۔
1988 کے بعد جو سیاسی قیادت آئی اس نے بھی اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کیا۔ اپوزیشن کو معیشت کی پرواہ ہوتی تو آج ان کو مبارک باد دینی چاہیے تھی، ہماری حکومت نے بیرونی قرضے واپس کیے ہیں اور ہمیں اب قرضے لینے کی کم سے کم ضرورت پڑ رہی ہے، اس لیے یہ گھبرائے ہوئے ہیں اور پھر سے اکٹھے ہو رہے ہیں تاکہ حکومت گرا دیں۔ مگر ایسا نہیں کرسکیں گے۔
عوام سے تبادلہ خیال کا یہ راؤنڈ بھی خوش آیند تھا، ایک طرف عوام مہنگائی، بیروزگاری اور گڈ گورننس کے فقدان پر فریاد کناں ہیں، دوسری جانب عوامی حلقوں کے مطابق وزیر اعظم نے ملکی حالات، اپوزیشن کی اسٹرٹیجی اور مشکلات پر سیر حاصل گفتگو کی، انھیں اندازہ بھی ہوا کہ حقیقت ویسی نہیں جیسی بیورو کریسی یا ان کے وزرا اور مشیر انھیں بتاتے ہیں۔
اس عوامی ٹاک میں بہت سی باتیں تشنہ رہ گئیں، کچھ دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے، مہنگائی اور بیروزگاری کا صرف ذکر ہوا، ریلیف کی باتیں نہیں کی گئیں، حکومت کو درپیش خطے میں ہمہ جہتی چیلنجز پر جامع اظہار خیال نہیں کیا، غربت اور بیروزگاری کے خاتمہ پر کسی بریک تھرو کی نوید نہیں سنائی گئی، لیکن وزیر اعظم نے اتنا ضرور کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے رات کو نیند نہیں آتی۔ کوشش ہے کہ مہنگائی پر قابو پایا جائے۔
بہر کیف وزیر اعظم کا انداز بیاں دلنشین تھا ملکی صورتحال اور معیشت کی نبض پر ہاتھ بھی رکھا، میڈیا کے مطابق ایک دہائی طویل معطلی کے بعد کویت نے پاکستانی خاندانوں اور تاجروں کو دوبارہ ویزا دینے کا فیصلہ کرلیا۔ رپورٹ کے مطابق کویت کی حکومت نے یہ فیصلہ کویتی وزیر اعظم شیخ صباح الخالد الصباح اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے درمیان کویت سٹی میں ہونے والی ملاقات کے دوران کیا۔
ایسے خیر سگالی و ہنگامی دورے تمام خلیجی اور مشرق وسطیٰ کے دوست ملکوں کے ہونے چاہئیں جہاں بیروزگار ہم وطنوں کے لیے روزگار کے دروازے کھولے جائیں، عوام کا کہنا تھا کہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے خلاف فوری معاشی ریلیف مڈل ایسٹ سے ملنے کا زیادہ امکان ہے، ستر کی دہائی میں جاب کی تلاش میں افرادی طاقت نے تعاون کا یہی منظر دیکھا تھا، خدا کرے بات اس دعا کے ساتھ ختم ہو کہ
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
The post معاشی ریلیف کا در کھلنے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3wNzIES
0 comments:
Post a Comment