افغان امن کے تاریخی سیاق وسباق کو آج ایک عجیب وغریب سیاسی پراسراریت حاصل ہوئی ہے، یہ نائن الیون کے بعد کا قصہ نہیں ہے بلکہ سکندر اعظم کی جنگی یورش سے اس داستان کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور تاریخ آج تک افغانستان، اس کی جنگوں، قبائلی سماج، سیاسی انقلابات، غربت، غیرملکی تسلط اور سیاسی و تزویراتی مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے، اسے مغرب ایک چیستان، مشرق رزم گاہ ِ مسلسل، اور خطے کے ممالک انسانی تعمیر اور سیاسی و اقتصادی پراسس کا ناقابل یقین باب قرار دیتا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے رواں سیاسی دورانیے میں افغان امن کو دیگر سیاسی جنگوں اور تباہ کاریوں میں ایک خصوصیت حاصل ہے۔
بلاشبہ دور جدید کے کسی ملک نے اپنی سیاسی تعمیر، جمہوری اشتراک و تعاون اور انسانی امداد اور خیر سگالی کے حوالے سے کسی ملک کی داخلی تعمیر اور انتظامی ٹرانسفارمیشن، جنگ بندی، دہشتگردی، امن کے امکانات اور عملی اقدامات کے لیے مختلف ملکوں نے مشترکہ مالی اقدامات کے لیے اتنی مربوط کوششیں نہیں کیں جو پاکستان نے امن کے لیے انجام دیں، اس لیے یہ پاکستان کا استحقاق بنتا ہے کہ وہ افغان امن سے اپنا رشتہ ایک خاص تعلق سے جوڑتا ہے اور یہ رشتہ انسان دوستی، ہمسائیگی اور اسلامی اخوت ویکجہتی اور اشتراک انسانیت و جمہوریت کا بھی ہے۔
بہرحال یہ ایک الگ کہانی ہے کہ افغان امن کے جتنے باب پاکستان سے منسلک رہے اس میں بھی افغان صورتحال نے کبھی پاکستان کی خدمات، ایثار، محنت، ہمسائیگی اور اخوت کے تناظر میں کشادہ دلی سے کام نہیں لیا، بد قسمتی سے افغانستان میں جو بھی حکومت برسر اقتدار آئی وہ منہ میں پاکستان کی مخاصمت کی ’’گھٹی‘‘ ملی آمیزہ سے پاک نہیں تھی، یہ ایک درد انگیز سیاسی و سیاسی چیستان ہے، جسے پاکستان اپنی تاریخی ذمے داری سمجھتے ہوئے نبھاتا آرہا ہے، یہی وہ کمٹمنٹ ہے جو ’’ افغان امن عمل کا مطلب کیا پر امن پاکستان ‘‘ کے آفاقی مفہوم میں ڈھل گیا ہے۔
پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ کی کابل میں اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ سے ملاقاتیں ہوئیں، برطانوی جنرل بھی اس دورہ اور امن عمل پر گفتگو میں شریک رہے، دورے میں ڈی جی ISI لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی آرمی چیف کے ہمراہ تھے، افغان صدر اشرف غنی سے سیکیورٹی، دفاعی تعاون و موثر بارڈر مینجمنٹ پر تبادلہ خیال کیا گیا، افغان صدر نے بامعنی مذاکرات پر اظہار تشکرکیا اور پاکستان کے مخلصانہ، مثبت کردار کو سراہا، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان زیر قیادت افغان ملکیتی امن عمل کا حامی ہے، بعد ازاں برطانوی جنرل سر نکولس سے ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی کی صورتحال، دفاعی تعاون کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کیا گیا، جنرل باجوہ نے کہا کہ برطانیہ کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کی بہت قدر کرتے ہیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کا دورہ کیا، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی آرمی چیف کے ہمراہ تھے۔ دورے کے دوران سپہ سالار کی افغان صدر سے ملاقات ہوئی۔ برطانوی چیف آف ڈیفنس بھی ملاقات میں موجود تھے۔ ملاقات میں باہمی دلچسپی، افغان مفاہمتی عمل میں پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا گیا، سیکیورٹی، دفاعی تعاون، موثر بارڈر مینجمنٹ پر بھی گفتگو کی گئی۔
آرمی چیف نے عبد اللہ عبد اللہ سے ملاقات کی جس میں افغان امن عمل کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران جنرل باجوہ نے کہا کہ پر امن افغانستان کا مطلب پر امن خطہ بالخصوص پر امن پاکستان ہے، پاکستان افغان عوام کی دیرپا امن کی کوشش کی حمایت کرتا رہے گا، ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کے باہمی اتفاق رائے پر مبنی ’’افغان زیر قیادت افغان ملکیت‘‘ امن عمل کی ہمیشہ حمایت کریں گے۔ افغان صدر نے بامعنی مذاکرات پر آرمی چیف سے اظہار تشکر کیا اور افغان امن عمل میں پاکستان کے مخلص اور مثبت کردار کی تعریف کی۔ بعد ازاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل سر نکولس پیٹرک کارٹر نے علیحدہ سے ملاقات کی۔
اس دوران باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی کی صورتحال بالخصوص افغان امن عمل میں موجودہ پیشرفت اور دوطرفہ اور دفاعی تعاون کو مزید فروغ دینے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ آرمی چیف نے شہزادہ فلپ کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ دنیا نے ایک انتہائی قابل احترام دوست کو کھو دیا ہے، جنرل سر نکولس پیٹرک نے خطے میں امن اور استحکام کے لیے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں بالخصوص افغان امن عمل کی تعریف کی، آرمی چیف جنرل باجوہ نے پاکستان میں کورونا کے خلاف جنگ میں برطانیہ کی شراکت پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاک فوج برطانیہ کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کی بہت قدر کرتی ہے۔
ریاستی سطح پر پاک افغان تعلقات اور افغانستان کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں جن خیالات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، اب سیاسی جدلیات کا تقاضہ ہے کہ حکومت و ریاست پاکستان سے افغان حکومت ایک ایسے مستحکم تجدید عہد کی بنیاد رکھے جو دونوں ملکوں کے مابین قومی یکجہتی کی شہادت دے، دو طرفہ ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہو اور جس سیاسی محاورے کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی کہ افغان امن پاکستان امن کی حقیقت سے الگ کوئی چیز نہیں، اب دلوں میں کوئی خلش نہیں ہونی چاہیے۔
پاک افغان موقف، سیاست، سماجی بہبود، تعاون اور مشترکہ سماجی تعمیر اور اقتصادی و معاشی سرگرمیوں میں دونوں ملک ایک بند مٹھی کا حوالہ بن جائیں، کوئی طاقت ان میں غلط فہمی پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو، بھارت کے ایجنڈے کو کہیں سے بھی کوئی پذیرائی یا دہشتگردی کے کسی گٹھ جوڑ اور ایک دوسرے کی سرحدوں کے باہمی احترام میں بھارتی کو جارحیت، دخل در معقولات کے لیے کسی انگیخت کا امکنا نہیں رہنا چاہیے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خطے میں کشمیر کا ایک منصفانہ حل چاہتا ہے۔
اس کا اصولی موقف ہے کہ جنگ مسئلہ کا حل نہیں، تنازعات، مذاکرات اور معروضی سفارت کاری اور نیک نیتی سے بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں، پاکستان نے دہشتگردی اور ان کے ماسٹر مائنڈز سے بہت نقصان اٹھائے ہیں، نائم الیون کے زخم بہت گہرے ہیں، پورے خطے کی سیاست، معیشت، سفارت، معاشی وتجارتی ترقی و عوام کی خوشحالی کے بے پایاں امکانات، جنگ کے تسلسل اور دہشتگردی کی مذموم وارداتوں کی نذر ہوئے، ان گنت انسانی غربت بڑھی، افغان عمل کی راہ میں ہمسایہ ملکوں، مغربی طاقتوں کے گروپس نے اجتماعی اقدامات، قطر، دوحہ بات چیت، جنگ بندی معاہدات اور ہم آہنگی و خیر سگالی کے لیے جو اقدامات کیے اور امریکی صدر جوبائیڈن نے انخلا کا جو بلند آہنگ فیصلہ کیا ہے وہ بھی اسی وقت نتیجہ خیز ہوگا جب پاکستان کے کلیدی کردار کی صداقت کو سند جواز ملے گی۔
بھارت کو کٹ ٹو سائز کیا جائے گا، اسے سیاسی منافقت اور کشمیر یوں کے خلاف بربریت سے روکا جائے گا، انسانی حقوق کے احترام اور جنت نظیر وادی میں جبر وستم، کرفیو اور غیر انسانی ماحول ختم کرکے کشمیریوں کو مکمل حق خودارادیت دیا جائے گا۔
بھارت کو واضح کرنا ہوگا کہ وہ کشمیر پر مکالمہ، ثالثی اور امن کا خواہاں ہے، دہرے عمل سے گریز کرے، پاکستان کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت ثالثی نہیں چاہتا، پرویز مشرف کے دور حکومت میں بیک ڈور رابطے تھے مگر آج نہیں، انھوں نے امریکا کو فوجی اڈے دینے کی قیاس آرائیوں اور افواہوں کی تردید کی، گزشتہ کچھ چند ماہ سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے حوالے سے پاکستان کے فوجی اہلکاروں پر بلاجواز فائرنگ کی گئی جس میں ہمارے فوجی شہید ہوئے جب کہ دہشتگردی کی روک تھام کے لیے پاک فوج نے باڑ کی تنصیب کا کام ختم کرنا کا تہیہ کررکھا ہے، اس سے دہشتگردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
افغان حکومت کو پاک افغان امن کے لیے حقائق کی نئی بیلنس شیٹ کو سامنے رکھ کر تعمیر ملک کی اور خیرسگالی، غربت کے خاتمہ اور ترقی و خوشحالی کی ایک نئی سلیٹ لکھنے کی تیاری کرنی چاہیے، امریکی انخلا ایک سیاسی امکانات کی طرف مسافت کا کثیر جہتی فیصلہ ہے، خطے میں مختلف عوامل کا اثر و رسوخ بڑھنے کا امکان ہے۔
خطرات سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی، افغان تاریخ، اس کے مظلوم عوام کی غربت اور جنگوں سے خستہ حالی اور سماجی و اقتصادی دشواریوں کے خاتمہ پر عالمی برادری کو تعمیر و تبدیلیوں کے نئے ماسٹر پلانز پر عمل کرنے لیے مالیاتی اداروں کو آگے بڑھنا چاہیے، ایک وقت ایسا بھی افغان سماج پر آیا تھا جب ہارورڈ کی ایک سروے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ عراق و افغانستان میں امریکی زخمی فوجوں کے ہیلتھ کیئر کے لیے چھ کھرب ڈالر کے اخراجات آتے تھے، جب کہ یہی رقم امریکی عوام کے ہیلتھ کیئر کے لیے مختص نہ تھی۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہا تھا کہ افغانستان اور پاکستان بھائی بھائی ہیں، وہ کبھی ایک دوسرے کے دشمن نہیں بنیں گے، لیکن وقت کی ستم ظریفی نے ان کو مشکل ترین دشمن بنا ڈالا، امریکی سلامتی کے ایک عہدیدار پال وولفووٹز نے کہا تھا کہ امریکا عراق و افغانستان میں جمہوریت مسلط کرنے نہیں گئے تھے، وہ امریکا بچانے کے مشن پر تھے، کیونکہ امریکا کی جمہوریت اور وجود کو خطرات لاحق ہوچکے تھے۔
یہی بات سابق امریکی صدر بارک اوباما نے کہی تھی کہ افغانستان اور عراق میں امریکی فوجیں جنگوں میں ملوث ہونے کے باعث ٹرانسفارمیشن کے عمل میں سست پڑ گئی تھیں اور ’’اوور ایکسٹینڈڈ‘‘ ہوگئی تھیں، یہ وہی افغانستان ہے جو ماضی کے سیاسی رہنماؤں اور سلامتی کے مشیروں کے غلط فیصلوں کے باعث جنگی دلدل میں پھنس گیا۔
یاد رہے کچھ عرصہ قبل ٹرمپ کی پیدا کردہ غدر جیسی صورتحال سے پہلے ایک امریکی رپورٹ میں افغان صورتحال کو امریکی ناکامی کا مرکزی نکتہ قرار دیا گیا تھا۔ اسی افغانستان کو امن کا ایک تحفہ دینے کی پاکستان ایک ادارہ جاتی کوشش کررہا ہے۔
The post افغان امن عمل، ایک جائزہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33xLve6
0 comments:
Post a Comment