Ads

معاشی خوشحالی کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے ملکی معاشی صورتحال کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی مثبت پالیسیوں کی بدولت معیشت ترقی کر رہی ہے۔ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے واضح کیا کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی بڑھی تاہم انھوں نے یہ مژدہ جانفزا بھی سنایا کہ جولائی ،اگست اور ستمبر سے مہنگائی میں کمی شروع ہو جائے گی۔

اس وقت اشیائے خورونوش کی قیمتوں کی افزونی سے جنم لینے والے عوامی اضطراب اور مختلف مسائل میں گھری ملکی معاشی صورتحال سے فہمیدہ حلقے بخوبی آگاہ ہیں مگر اس حقیقت سے بھی صرف نظر ممکن نہیں کہ معاشی خوشحالی اور سیاسی استحکام دونوں لازم وملزوم ہیں۔ملکی سیاسی صورتحال کا منظر نامہ کچھ خوش کن دکھائی نہیں دیتا، جمہوریت کو ایک بڑے بحران کا سامنا ہے۔

ہر سیاستدان اور سیاسی رہنما یہ سوچتا ہے کہ حکمرانی ایک سوچ، پارٹی منشورکے گرد گھومتی ہے۔ منتخب نمایندے سیاسی تنظیم کی حکمت عملی، آدرش اور قومی و بین الاقوامی چیلنجزکی روشنی میں نظام ریاست وحکومت یا کاروبار مملکت کو چلاتی ہے لیکن لوگ جو مسائل کا شکار ہیں اور فہمیدہ افراد جو ملکی معاملات کے گمبھیر مسائل پر مغلوب گماں ہیں وہ مضطرب ہو کر سوال کرتے ہیں کہ جب حکومت ایک مرکزی خیال اور وژن کے مطابق پیش رفت کرتی ہے اور ملک کے اقتصادی، سیاسی، سماجی، تجارتی اور دیگر معاملات کے بارے میں مکمل تجربات کا علم اور لائحہ عمل رکھتی ہے تو پھر ملک فکری بحران ، سیاسی کشیدگی، محاذ آرائی اور بلیم گیم کا شکارکیوں ہے؟

اور ایک ایسی حکومت جو پچھلی دو حکومتوں کو سیاسی کرپشن اور دیوالیہ پن کا شکارکہتی ہے اور اس کے  پونے تین سالہ دورانیے کا سوال ایک ہی نکتے پرکیوں مرکوز ہے جن حکمرانوں نے باری باری اس ملک کو لوٹا ہے اور سارا پیسہ لوٹ کر با ہر لے گئے ہیں تو وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی فکر اور تبدیلی کا نعرہ ایک نیا منظرنامہ ترتیب دینے میں کوئی بریک تھرو کیوں نہیں کرسکا؟ کوئی تبدیلی ان تین سالوں میں تو آ جانی چاہیے تھی۔

عوام کی زندگی میں تبدیلی کی جدلیاتی لہر سب کو نظر آنی چاہیے تھی، لوگ سابق حکمرانوں کی حکمرانی پر خط تنسیخ پھیر لیتے، اطمینان کا سانس لیتے کہ چلیے ایک مصری شاہ فاروق تھا وہ چلا گیا، ایک رضا شاہ پہلوی تھا، کوئی مارکوس تھا اس کو عوام نے رخصت کیا ، یحییٰ خان، ایوب خان، ضیا الحق چلے گئے، سب نے حکمرانی کی، اپنی ڈگڈگی بجا کر ملک کو ایک بے منزل موڑ پر چھوڑ گئے، باگ ڈور ایک نئی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔

اب تو عوام کے دلدر دور ہونے چاہئیں، ملک سیاسی، اقتصادی، سماجی اور نفسیاتی طور پر فکری انتشار اور بے سمتی کی دلدل سے نجات پا کر دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر اپنے سیاسی اور معاشی اہداف کی سمت سفرکا آغاز کردیتا، مگر وائے ناکامی! کہ ملک ایک ایسی نا ختم ہونے والی سیاسی تاریخ کا الم ناک عنوان بن گیا ہے کہ 72 سال کی سیاسی تاریخ ہمارے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہے۔ وہی ساز ہیں اور وہی سازندے، وہی گیت ہیں اور وہی گلوکارساری سیاست نغمہ ساز میں شکست کی آواز بن گئی ہے۔ اب بھی سوال یہ ہے کہ سیاسی مسافت نتیجہ خیزی کی نوید کیوں نہیں دیتی۔ وقت تبدیلی کی طرف گامزن ہونے کے لیے تیاری کب پکڑے گا ، عوام طلوع صبح کب دیکھیں گے، بلکہ ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ ہم دیکھیں گے۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ آج ملکی سیاست کے سامنے عالمی گمبھیرتا اعصاب شکنی کی انتہا پر ہے۔ قومی مسائل کا درحقیقت ایک لاوا ہے جو پک رہا ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ عالمی سیاست انسانیت اور جنگ و دہشت گردی کی آگ میں جلتی دنیا کا انجام کیا دیکھے گی، تاہم رجائیت پسند اور ’’نئے پاکستان‘‘ کی امید رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک ملک میں ان دعوؤں پر غورو فکر کرنے والے زندہ ہیں پاکستان کا مستقبل محفوظ بھی ہے اور روشن بھی۔ یہ 22 کروڑ انسانوں کا ملک ہے۔

اس میں زبردست امکانات ہیں لیکن حکمران ادراک توکریں کہ قدرت شاہکار مملکت خدا داد آخر کب تک غیروں کی شفاف جمہوریتوں، بے داغ انتظامی ڈھانچے اور خرابیوں سے نمٹنے کے مثالی مظاہرکے مشاہدے کرتی رہے گی، کیا اہل وطن ایک ایسی جمہوریت اور ایسا وفاق اور اس کی صوبائی حکومتوں میں ہم آہنگی کا عہد بھی ملاحظہ کرسکیں گے؟

ہماری سیاست میں روا داری کو دوام حاصل ہوگا، احتساب اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا ، پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر بھی ہوگا، تعلیم عام ہوگی، وجود زن سے تصویر کائنات میں بھی رنگ بکھرے گا، ہمارا اپنا ادب، ہمارے فنون لطیفہ اور ہماری جامعات سے بھی ایسی روشن قندیلیں علم کے راستوں کو روشن کریں گی، ہماری جامعات اور ہمارے جمہوری ایوان بھی ملک کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں گی۔

کیا وہ دن قریب آچکے ہیں، جب اہل خرد اور روشن ضمیر سیاسی شخصیات سے ذہن تازہ افکار سے دمک اٹھیں گے۔ یہ سوالات سلگتے دماغوں کے لیے ایندھن مہیا کرتے ہیں یہ اس بات کا اشارہ ہیں کہ فرسودہ روایات ،سیاسی رویوں، گمراہ مفروضوں اور بے مایہ سیاسی بیان بازیوں سے ملکی سیاست کا کوئی نیا اسلوب قوم کے سامنے نہیں آئے گا، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست دان اور حکمران سب اس قومی فکر کو پروان چڑھائیں کہ ملک ایک غیر معمولی سیاسی خلفشارسے نبرد آزما ہے، کہیں کوئی روشنی نظر نہیں آ رہی، جس سے اشارہ ملے کہ سیاسی رہنما قومی معاملات میں تصادم سے اجتناب کرتے ہوئے ایک مفاہمانہ سیاسی رویے پر اتفاق رائے پر رضامند ہو رہے ہیں۔

یہ اتفاق رائے وقت کا تقاضا اور سیاسی ڈیزاسٹر سے بچنے کا واحد راستہ ہے، ٹکراؤ سے بچاؤ کا یہی واحد راستہ ہے، عوام میں مایوسی روز افزوں ہے، مہنگائی کے سب بند ٹوٹ گئے ہیں، کوئی شگاف بھرنے والی حکمت عملی نظر نہیں آتی، مارکیٹ فورسز کی معاملات پر کنٹرول کرنے کے لیے جن پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے سے صورتحال بہتر ہوسکتی ہے وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اتفاق رائے کی ناگزیریت ہے، سیاسی فاصلے بڑھانے سے مسائل مزید الجھتے جائیں گے، سیاسی اتفاق رائے کی بات اس لیے کی جا رہی ہے کہ جمہوریت کے بارے میں عوام میں بے زاری جنم لے رہی ہے، ان میں یہ احساس اب وسائل سے محرومی کا باعث بن رہا ہے، میڈیا مین اپنا کتھارسس کرتے ہیں، ان کے اضطراب اور گھٹن کی شدت و فرسٹریشن کے بلند آہنگ مزاحمت کا سبب بھی بن گئی ہے تو عوام میں انارکی کو روکنا آسان نہ ہوگا۔

عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا سامنا ہے۔ یہ سہ جہتی اقتصادی صورتحال ہیجانی کیفیت میں نہیں ڈھلنی چاہیے۔حکمران تاریخ کے اس انتباہ پر غور کریں کہ ’’ہر عہد اپنے اندر ایک تضاد رکھتا ہے‘‘ اور یہ بھی بہت بڑی سیاسی اور اقتصادی حیثیت ہے کہ تضاد اپنے ’’رد تضاد‘‘ سے کسی تیسرے تضاد کو جنم نہیں دیتا بلکہ نئی صورت بنتی ہے، اسی طرح ایک اقتصادی نظام کے اسلوب کی بنیادی درستگی پر سیاست دان کام کریں تو مکالمہ کو ہماری سیاست میں اہمیت مل سکتی ہے.

ہمارا انداز نظر فکری وسعت اختیار کرسکے گا، مکالمہ کا سحر ہماری سیاسی لغت سے خارج ہے اس لیے گفتگو، سیاسی خطاب، تقاریر اور اسمبلیوں کی کارروائی اور اس میں مروج پارلیمانی بحث مچھلی بازار اور گالم گلوچ کا منظر پیش کرتی ہے۔

ایوب خان کے دور حکومت میں پارلیمانی گفتگو میں نازیبا حوالوں پر شدید اعتراضات اٹھے، یہ دور آمریت کا تھا مگر اس میں بھی اراکین پارلیمنٹ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ پارلیمان میں انداز بیان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جمہوریت کے استحکام کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ ارباب اختیار اپنی فکری مجالس کو مروج سیاسی تھنک ٹینکس کے برابر مقام دیں، نئی نسل کی سیاسی تربیت، مطالعہ اور ملکی سیاسی تاریخ سے آگاہی کے بغیر ممکن نہیں، کبھی ایسا بھی ہوکہ سیاست کے صنم کدوں میں فکر اور روشن خیالی کی دولت بھی تقسیم ہو۔ ایک تو وہ دولت تھی جس کا ذکر حکمران کرتے ہیں اور وہ جو بیرون ملک چھپائی گئی مگر ایک فکری اور سیاسی وژن کا اثاثہ ہے اس کا ورثہ عوام تک جانا چاہیے، سیاست دانوں کے بیانات اور ان کی پریس کانفرنسز میں فکر انگیز خیالات کی تشہیر ہونی چاہیے۔

ہماری سیاست بازاری لہجے سے اپنا رشتہ منقطع کرے اور شفافیت آمیز مباحث کو ہمارے سیاسی مکالمے میں مستقل حیثیت ملے، یہ اشد ضروری ہے۔سیاسی رہنماؤں کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے لہجے کی تہذیبی نفاست کو سیاسی سوچ سے مربوط کریں۔ اس کے بعد ہی سیاست میں کرپشن کے خاتمے کی کوشش نتیجہ خیز بھی ہو سکے گی اور بیورو کریسی، مقننہ اور عدلیہ کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار سے متعلق مسائل اور چیلنجز کا کوئی صائب حل نکلے گا۔

یہ لاحاصل بحث نہیں ہوگی، اگر ہماری سیاست موجودہ گند سے خود کو پاک کردے اور حکومت اور اپوزیشن ایک جمہوری پیرامیٹر میں یہ طے کر لیں کہ کون سے قومی ایشوز ہیں جن کے لیے مشترکہ قانون سازی ممکن ہے اور جمہوری عمل میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار سیاسی قدروں کی آبیاری کے لیے باہم مل کر ایک نئے سیاسی میتھڈ کی بنیاد رکھیں۔

بہرحال حکمرانوں کو اپنی باقی ماندہ دو سالہ مدت میں ایک معاہدہ عمرانی کے لیے بنیادی کام کرنا ہے، اس ملک کے سیاسی نظام کی بہتری کے لیے مناسب کوشش ہوگی، قوم ذہنی دباؤ کا شکار ہے، کورونا ایک اندوہ ناک تجربہ ہے۔

ملکی سیاست پر اس کے اثرات ہمہ جہتی ہیں، عوام کو جمہوریت کا بہترین اثاثہ جو حکمرانی کی شفافیت کے حوالے سے مل سکتا ہے وہ ایک طمانیت اور آسودگی کی دولت ہے جو حکومت اپنی معاشی حکمت عملی کے انتشار کے باعث اب تک مہیا نہ کرسکی، اس کے لیے لازم ہے کہ معیشت کو فری ہینڈ دیا جائے، اقتصادی آزادی ہی کے بطن سے مستحکم جمہوری نظام کو بالیدگی اور روئیدگی ملے گی۔

دوسری حقیقت زراعت کی ہے، ملک کی زرعی معیشت کو اولیت دینے کی ضرورت ہے، صنعتی ترقی، زرعی ترقی اور ٹیکنالوجی کی مقبولیت میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے، پیداواری قوتوں اور ملک کے عوام کی غذائی ضروریات، تعلیم، صحت، روزگار اور جمہوری فکر کا فروغ ملک کو ہر بحران سے نکالے گا، سیاسی نظام میں جمہوریت، رواداری اور فکری آزادی کی اساس مضبوط ہوگی، رویے جمہوری ہوں گے تو تبدیلی دو قدم دور ہے۔

The post معاشی خوشحالی کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3i24O7S
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment