Ads

بحرانوں سے نمٹنے کیلئے سیاسی حکمت عملی سے کام لینے کی ضرورت

 اسلام آباد:  پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے کپتان عمران خان اور انکی حکومت مسلسل بحرانوں اور تنازعات کا شکار ہے۔

ایک بحران اور تنازعہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سر اٹھا لیتا ہے ابھی آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات اور صوبوں کے درمیان پانی تقسیم کے معاملے پر فریقین و سیاسی جماعتیں آمنے سامنے ہیں اور سندھ حکومت نے پانی کے معاملے پر وفاق پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے ہیں کچھ ایسی ہی صورتحال مردم شماری کے نتائج کے معاملے پر ہے اور حکومت سندھ نے مردم شماری کے نتائج کے معاملے پر پارلیمنٹ کو ریفرنس بھیج دیا ہے۔

چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوائے گئے ریفرنس میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج کے معاملے پر سی سی آئی میں ووٹنگ کے لیے مروجہ قواعد پر عمل نہیں کیا گیا ہے اور تحفظات ظاہر کیے جانے کے باوجود، سی سی آئی نے مردم شماری کے نتائج کی منظوری دیدی۔ سندھ نے واضح کیا ہے کہ اگر صوبوں کے تحفظات دور نہ کئے گئے تو کابینہ کے2017 کی مردم شماری سے متعلق کیے گئے فیصلوں کو کالعدم یا باطل تسلیم کیا جائے گا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس معاملے کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے اور حکومت کو چاہئے کہ مردم شماری کے مسئلہ کو جلد سے جلدعوامی امنگوں کے مطابق حل کرے اور اگر تاخیر کی گئی تو الیکشن قریب آجائیں گے پھر مردم شماری، حلقہ بندیاں بھی حکومت کیلئے بڑا مسئلہ بن جائیں گی لیکن سب سے پہلے آزاد کشمیر کے انتخابات کے معاملے میں وفاق کو بڑے بھائی کا کردار اد ا کرتے ہوئے سب کو ساتھ بٹھا کر مشاورت سے حل ڈھونڈنا ہوگا اسی میں بہتری ہے اور اداروں کو متنازعہ ہونے سے بچایا جائے۔

اب یہ ناتجربہ کاری ہے یا حکمت عملی ہے کہ ہر اچھے کام کو بھی متنازعہ بنا دیا جاتا ہے اور ابھی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر این سی او سی کے خط کے بعد سے آزاد جموں و کشمیر میں انتخابات کے التواء سے متعلق تنازعہ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، اس معاملے میں حکومت ایک جانب ہے تو دوسری جانب آزاد جموں و کشمیر کی قیادت اور اپوزیشن کی جماعتیں کھڑی ہیں اور اس اقدام کو خلاف قانون قراردیا جا رہا ہے۔

آزاد کشمیر اور پاکستان کے سیاسی حلقوں سمیت قانونی ماہرین کے خیال میں آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں التواء ممکن نہیں ہے اور این سی او سی وفاق کا ایک ادارہ ہے اسے آزاد جموں و کشمیر کے معاملات میں اس طرح براہ راست سامنے آکر مداخلت نہیں کرنی چاہیئے بلکہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر مشاورت کرنا چاہیئے تھی ، وہ مانتے یا نہ مانتے ، مگر وزیراعظم کو کوشش ضرور کرنا چاہیئے تھی لیکن حکومت نے این سی او سی جیسے اچھے ادارے کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے۔

وزیراعظم کوبطور سربراہ ریاست معاملے پر نظر ثانی کرنی چاہئیے اور اگر انتخابات کا التواء ناگزیر ہے تو اسے خوش آئند طریقے سے تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ باہمی مشاورت سے حل کرنا چاہیئے کیونکہ جو ماحول بن رہا ہے اسکے سرحد پار بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور بھارت کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتا اور اس معاملے کو لے کر پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور جس طرح آزاد جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماوں کے لہجے سخت ہوتے جا رہے ہیں۔

وہ درست نہیں ہیں جبکہ آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر تو اس معاملے پر خوب سیخ پا ہیں اور وہ براہ راست وزیراعظم پاکستان عمران خان پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں اور رہی سہی کسر آزاد جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاسی فصلی بٹیروں کی بنی گالا یاترا میں وزیراعظم سے ملاقاتوں نے پوری کر دی ہے اور آزاد کشمیر کی قیادت وزیراعظم عمران خان پر آزاد جموں وکشمیر کے معاملات میں مداخلت اور قبل از الیکشن دھاندلی سے تعبیر کر رہے ہیں جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس چونکہ آزاد جموں و کشمیر میں امیدوار پورے نہیں ہیں اس لئے وہ الیکشن کا التواء چاہتی ہے تاکہ سیاستدانوں کی سیاسی وابستگیاں تبدیل کروانے کیلئے پاکستان میں اختیار کیا جانے والا فارمولا آزاد کشمیر میں بھی اپلائی کیا جا سکے اور آزاد کشمیر میں بھی سیاسی وفاداریاں تبدیل کروا کر لوگوں کو تحریک انصاف میں شامل کروایا جائے اس سے پہلے وفاق اور گلگت بلتستان کے انتخابات کے حوالے سے بھی اس قسم کے الزامات پی ٹی آئی اور کپتان پر لگ چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اقتصادی صورتحال پر بھی خوب سیاست ہو رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کیلئے پیش کردہ حالیہ اقتصادی اعدادوشمار بھی متنازعہ ہوگئے ہیں اور اپوزیشن ان اعدادوشمار کو درست ماننے کو تیار نہیں ہے اور ان اعدادوشمار کو گمراہ کن و جھوٹ پر مبنی قراردیا جا رہا ہے جبکہ حکومت کا دعوی ہے معیشت درست سمت اختیار کر رہی ہے، وہ شعبے جو بے سمتی، سرمایہ کاری کے فقدان اور ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔

ان کو ایک نیا اعتماد اور جستجو کی توانائی مل رہی ہے، اس میں اقتصادی تقویت کے بہت سے مثبت اشارے قوم کو مل رہے ہیں بس سیاسی درجہ حرارت کے ٹھہرنے کی دیر ہے، جمہوری رویے، سماجی تناؤ اور سیاسی کشمکش بہتر ہو جائے تو معاشی استحکام یقیی ہوگا جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پچھلی حکومتوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے انہوں نے تبدیلی کے نام پر عوام کے ساتھ جو کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے لوگ بے روزگاری اور فاقہ کشی کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ لوگ حکومتی رہنماوں کے بیانات کو بھی سنجدہ نہیں لے رہے ابھی حال ہی میں شہباز گِل نے بیان دیا کہ عمران خان کی محنت رنگ لا رہی ہے اور ہمیں شکر ادا کرنا چاہئے جس پر سوشل میڈیا پر بری طرح آڑے ہاتھوں لیا گیا اور لوگ یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں اور یہی صورتحال وزیراعظم عمران خان کے عوام سے براہ راست ٹیلی فونک رابطے کے جواب میں مہنگائی کی وجہ سے رات کو نیند نہ آنے کے بیان پر عوامی ردعمل کی ہے، ان کا خیال ہے کہ کپتان نے پچھلے تین سال سے مہنگائی کرنے میں جو محنت کی ہے۔

اس کا کوئی نعم البدل نہیں، ان کی مہنگائی کرنے کے علاوہ کوئی محنت رنگ نہیں لا رہی اور کپتان کے چوتھے وزیرِ خزانہ شوکت ترین اب اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے جا رہے ہیں مگر اس سے پہلے آٹا, چینی ,گیس, پٹرول کا بحران تھا اور مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پچھلے تین سالوں سے معیشت بدحالی کا شکارہے ، بیوروکریسی کام نہیں کر رہی اور حکومت نے پہلے تبدیلی کا جو نعرہ لگایا تھا یہ تبدیلی صرف نعرے تک محدود ہے۔

یہ تبدیلی ملک میں تو نہیں لیکن اپنے وزراء میں تبدیلیاں لا رہے ہیں ہر مہینے پندرہ دن کے بعد کوئی نیا وزیر آتا ہے، گھبراتا ہے اور چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا، ایسے ہی پانچ سال گزر جائیں گے اور ان کے عوام سے کیے گے وعدے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ تین سال تو گزر چْکے ہیں بقیہ دو سال بھی ایسے ہی گزر جائیں گے، یہ اپوزیشن کے اعتراضات اپنی جگہ البتہ یہ حقیقت ماننا پڑے گی پچھلے کچھ عرصے سے اقتصادی صورتحال میں بہتری آئی ہے ترسیلات زر بڑھے ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، ٹیکس ریونیو بڑھ رہا ہے۔

جی ڈی پی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ملکی سٹاک مارکیٹ بھی پچھلے کچھ دنوں سے اوپر جا رہی ہے مگر یہ کافی نہیں ہے اور غربت، فاقہ کشی، مہنگائی اور بیروزگاری کا مستقل سدباب کرنا ہوگا  جس کیلئے ملکی معیشت کوآئی ایم ایف کے شکنجہ سے نکال کر اپنے پاوں پر کھڑا کرنا ہوگا اور کسی شارٹ کٹ کی بجائے خود کفالتی پر مبنی پائیدار اقتصادی و سماجی نظام قائم کرنا ہوگا۔

معاشی ماہرین کاخیال ہے کہ اگرچہ ابھی صورتحال اور حکومت کی سمت درست معلوم ہو رہی ہے لیکن اس تسلسل کو برقرار رکھنا حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ کوویڈ کے خطرات ابھی بھی منڈلا رہے ہیں اور وزیر خزانہ شوکت ترین ابھی بھی کوویڈ کے باعث معیشت کے متاثر ہونے کے خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام بھی بے حد ضروری ہے ورنہ تمام ثمرات بے سود ہوجائیں گے اور غیر یقینی سیاسی صورتحال معاشی استحکام کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے جس کیلئے میثاق معیشت ناگزیر ہے اور موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین بھی میثاق معیشت کے خواہاں ہیں جس کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بات کرنے کا بھی عندیہ دے چکے ہیں جو یقینی طور پر انقلابی اقدام ہوگا۔

The post بحرانوں سے نمٹنے کیلئے سیاسی حکمت عملی سے کام لینے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3vLwmSN
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment