Ads

یورپ کی آخری مسلم ریاست کا دارالخلافہ غرناطہ

سویڈن میں موسم گرما میں چھٹیاں لے کر دوسرے ممالک کی سیر کرنا یہاں کا معمول ہے۔ تمام ملازمین کو کم از کم چار ہفتے تنخواہ کے ساتھ گرمیوں میں چھٹیاں لینے کا حق حاصل ہے۔ گزشتہ سال سے کووڈ کی صورت حال کے باعث ہم سویڈن سے باہر نہ جاسکے۔ اس سال کووڈ کی صورت حال کچھ بہتر ہوئی اور یورپ میں سفری آسانی کےلیے ویکسین سرٹیفکیٹ جاری ہونے کے بعد گرمیوں کی چھٹیوں میں کہیں جانے کا سوچ رہے تھے کہ بیٹے حارث نے اسپین کے علاقے اندلس کی سیر کی تجویز دی۔

چار سال قبل ہم نے اندلس کی سیاحت کی تھی جس کے دوران قرطبہ، غرناطہ اور مالاگا جانے کا اتفاق ہوا تھا مگر پھر بھی تشنگی ابھی باقی تھی، کیونکہ اندلس کے بہت سے اہم مقامات ہم نہیں دیکھ سکے تھے۔ گزشتہ دورہ میں قبل از وقت ٹکٹ نہ لینے کی وجہ سے ہم الحمرا نہ دیکھ سکے اور سچ پوچھئے تو الحمرا ہی اندلس کا سب سے بڑا اور اہم مقام ہے، جسے دیکھنے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ علاوہ ازیں اشبیلیہ (سویا) اور طارق بن زیاد کے دیس جبل الطارق (جبرالٹر) بھی ہم نہیں جاسکے تھے۔ اس لیے یہی طے پایا کہ ہم ایک بار اندلس اور مسلم عہد کی تاریخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔

ہمارا سہ رکنی وفد جس میں میری اہلیہ اور بیٹا شامل تھا، سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کے ہوائی اڈہ سے اسپین کے خوبصورت ساحلی شہر مالاگا پہنچے۔ سیر و سیاحت کا مزا شریک حیات اور بچوں کے ساتھ ہی آتا ہے اور یہی ہمارا معمول ہے۔ جاپان، چین، جنوبی افریقہ، کینیڈا، یورپ، مشرق وسطیٰ اور عمرہ ادائیگی میں بھی اہل خانہ کے ساتھ ہی، اور تمام سفر بہت پرلطف رہے۔ اب ہمارا سفر اسپین کے شہر مالاگا سے شروع ہورہا تھا۔

غرناطہ شہر کا منظر جہاں سے الحمرا بھی نظر آرہا ہے

 

مالاگا کا کبھی عربی نام مالقہ ہوتا تھا۔ مالاگا کے بین الاقوامی ہوائی اڈہ پہنچنے پر کووڈ کی وجہ سے خوب جانچ پڑتال کی گئی اور ہمارے کورونا ویکسین کے سرٹیفکیٹ دیکھنے کے بعد داخلے کی اجازت ملی۔ سویڈن سے روانہ ہونے سے قبل ہم نے اپنے لیے کار بک کروا رکھی تھی۔ ہم جونہی ہوائی اڈے سے باہر نکلے تو کرایے پر کار دینے والی کمپنی کا ملازم ہمارے نام کی تختی لیے کھڑا تھا اور بہت خوش مزاجی سے ہمارا استقبال کیا۔ اس نے گاڑی کی چابی ہمارے حوالے کی اور کہا کہ اسپین کا دورہ مکمل کرکے گاڑی یہیں ہوائی اڈے پر کھڑی کرکے جاسکتے ہیں۔

رینٹ اے کار کی بہت سہولت ہے اور گاڑی پاس ہونے سے ہی ہر جگہ سہولت کے ساتھ جایا جاسکتا ہے۔ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کچھ ہی دیر بعد ہماری گاڑی مالاگا سے غرناطہ کی طرف فراٹے بھر رہی تھی۔ اسپین کی موٹر وے بہت شاندار ہے اور ہمیشہ وہاں گاڑی چلانے کا پرلطف احساس ہوا ہے۔ موٹر وے کے اطراف روشنی منعکس کرنے والے یوں لگے ہوئے ہیں کہ رات کو بھی گاڑی چلانا بہت سہل ہوتا ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ موٹر وے مجھے اسکینڈے نیویا اور دیگر کئی یورپی ممالک سے بہت بہتر لگی۔ مالاگا سے غرناطہ ایک سو تیس کلومیٹر ہے، جو ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوگیا اور ہم اپنے ہوٹل میں پہنچے۔

ہمارا ہوٹل غرناطہ شہر کے قدیمی اور تاریخی علاقے میں واقع تھا۔ ہوٹل ایک تاریخی عمارت میں واقع تھا اور اسے پرآسائش بنایا گیا تھا۔ ہوٹل تک پہنچنے کا راستہ یک طرفہ اور تنگ سڑک کی صورت میں تھا، جو گوگل نیوی گیشن کے بغیر سہل نہ تھا۔ ہوٹل استقبالیہ پر موجود خاتون نے خوش خلقی سے ہمارا استقبال کیا اور ضروری معلومات سے آگاہ کیا۔ اندلس کی سیاحت کے دوران ہم نے تمام دنوں اسی ہوٹل میں ہی قیام کرنا تھا۔ دن کو اندلس کے مختلف مقامات کی سیر کرکے واپس شب باشی اسی ہوٹل میں کرنا تھی۔ ہوٹل شہر کے وسط میں پالازا ازابیلہ کے قریب پرانے شہر میں تھا جس سے گھومنے پھرنے میں اور بھی آسانی تھی۔ کھانے پینے کی دکانیں اور بازار بھی بالکل قریب تھا، اس لیے بہت سہولت رہی۔

 

غرناطہ کا نیوادا شاپنگ مال

اندلس کے اس دورے میں غرناطہ میں مختلف تاریخی مقامات کے علاوہ اشبیلیہ میں القصر، مالاگا، جبل الطارق اور ماربیا جانے کا منصوبہ شامل تھا۔ ہم نے اپنی سیاحت کا آغاز غرناطہ شہر سے کیا۔ غرناطہ اسپین کے صوبہ گرینیڈا کا دارالحکومت ہے۔ یہ شہر چار دریاؤں اور اسپین کے سب اونچے پہاڑ ملحسن کے دامن میں واقع ہے، جو اسپین کے آخری سے پہلے مسلمان حکمران مولائے حسن کے نام پر ہے۔ اس کا موجودہ نام سیرا نیوادا ہے۔

یہاں 1996میں عالمی سکی چیمپئن شپ کے مقابلے ہوئے تھے۔ نیوادا کے نام سے غرناطہ میں بہت بڑا شاپنگ مال بھی ہے، جہاں سے ہمیں شاپنگ کا بھی موقع ملا۔ غرناطہ نیم پہاڑی اور سرسبز شہر ہے۔ انار، زیتون اور دوسرے پھل دار درخت یہاں بکثرت ہیں۔ 260 سالہ مسلم دور حکومت، جو 1232 سے 1492 تک رہا، اس شہر نے بہت ترقی کی۔ یہ علم و ادب، سائنس اور فنون لطیفہ کا مرکز تھا۔ یہاں ایک یونیوسٹی، کئی تعلیمی ادارے اور ستر کے قریب لائبریریاں تھیں۔ شہر کے قدیم علاقے کو دیکھ کر اس دور کے فن تعمیر اور ہنرمند ہاتھوں کو بے اختیار داد دینا پڑی۔

 

غرناطہ کے زیتون کے باغات

 

غرناطہ میں صرف الحمرا ہی دیکھنے کے لائق نہیں ہے بلکہ اور بھی کئی اہم تاریخی مقامات ہیں اور اگر کوئی غرناطہ جاکر وہ نہیں دیکھ سکا تو سمجھیے کہ دورہ نامکمل رہا۔ غرناطہ شہر میں مسلم دور کے چار مقامات ہیں جو فن تعمیرکا شاہکار ہیں۔ وہاں محرابیں اور خوبصورت نقش و نگار ہیں، جن میں آیات قرآنی بھی شامل ہیں۔ یہ چاروں مقامات غرناطہ شہر کے اندر ہیں۔ شہر میں ہی ایک یادگار ہے جس پر ملکہ ازابیلہ اور کولمبس کا بہت بڑا مجسمہ بنایا گیا ہے۔ سقوط غرناطہ کے بعد بادشاہ فرڈی نینڈ اور اس کی ملکہ ازابیلہ نے قبضہ کیا تھا اور کولمبس بھی ان کے ساتھ تھا۔ کولمبس کو امریکا دریافت کرنے کےلیے وسائل چاہیے تھے جو غرناطہ فتح کی خوشی میں ملکہ نے اسے عطا کیے۔ یہ یادگار اسی کی عکاسی کرتی ہے۔

 

غرناطہ شہر میں ملکہ ازابیلہ اور کولمبس کی یادگار

الحمرا کے بالکل قریب مقبرہ روضہ غرناطہ یعنی مسلم قبرستان ہے، جہاں ان شہیدوں کا لہو ہے جنہوں نے یورپ کی اس آخری ریاست کو بچانے کےلیے اپنا خون دیا۔ یہاں بہت سی گمنا م قبریں بھی ہیں جنہیں ہم آج نہیں جانتے لیکن ان کا غرناطہ سے گہرا تعلق تھا۔ اسی قبرستان میں عالم اسلام اور پاکستان کی ایک عظیم شخصیت علامہ محمد اسد بھی آسودہ خاک ہیں۔ ان کی قبر کے کتبہ پر تاریخ پیدائش 2 جولائی 1900 اور وفات 20 فروری 1992 کندہ ہے۔ سویڈن میں مقیم محقق اور مصنف دین چوہدری نے ہمیں علامہ اسد کی قبر کے بارے میں بتایا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قبر کا کتبہ گر چکا تھا جو انہوں نے درست کروایا تھا۔

غرناطہ کا تاریخی مسلم قبرستان جہاں اسلام کے عظیم مفکر علامہ محمد اسد مدفون ہیں

علامہ محمد اسد آسٹریا کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے اور ان کا نام Leopold Weiss تھا، لیکن اسلام قبول کرکے محمد اسد کہلائے۔ 1932 میں علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی اور ان کی فکر کے گرویدہ ہوگئے۔ ان کی علمی خدمات میں قرآن حکیم کا انگریزی ترجمہ The Message of the Qur’an بھی شامل ہے۔ وہ بلند پایہ اسلامی مفکر، مصنف، صحافی اور سفارت کار تھے۔ قائداعظم ان پر بہت اعتماد کرتے تھے اور وہ پہلے غیر ملکی تھے جنہیں پاکستان کی شہریت دی گئی۔ انہوں نے پاکستان کے آئین کو اسلامی اصولوں کے مطابق بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ وزارت خارجہ میں ڈپٹی سیکریٹری اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔ بعد ازاں حکومت پاکستان کے زعما سے ان کے اختلافات ہوگئے اور وہ پاکستان چھوڑ کر غرناطہ میں بس گئے۔ صدر ایوب خان اور ضیاء الحق نے انہیں واپس لانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے غرناطہ میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

اس قبرستان کے اندر آنے کےلیے مخصوص اوقات کار ہیں، اس لیے اپنے گزشتہ دورے میں وقت کی قلت کے باعث اندر جانے کا موقع نہ ملا، لیکن اس بار التزام کے ساتھ یہ طے کیا تھا کہ محمد اسد کی قبر پر جاکر عالم اسلام اور پاکستان کے اس عظیم رہنما کےلیے فاتحہ خوانی کریں گے۔ اس تاریخی قبرستان میں کچھ دیر کھڑے رہنے پر ذہن چھ صدیاں پیچھے چلا گیا اور سقوط غرناطہ کے واقعات میں کھو گیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post یورپ کی آخری مسلم ریاست کا دارالخلافہ غرناطہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3zYIlhn
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment