Ads

علامہ اقبال اور تصوف

یہ ذکر نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور
تیری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

علامہ اقبال شاعر ہونے کے ساتھ اپنے وقت کے بہت بڑے مفکر، فلاسفر اور محقق بھی تھے۔ آپ کسی خاص مذہبی مسلک سے تعلق نہ رکھتے تھے اور نہ کبھی فرقہ واریت کی مرض میں مبتلا ہوئے۔ آپ تابع شریعت تھے اور سنجیدہ معنوں میں اسلامی نظام کے نفاذ کے علمبردار تھے۔ آپ کی زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ذات ذہنی ارتقاء کے عمل سے گزری ہے اور آپ کے خیالات آپ کی تحقیق اورغور و فکر کے ساتھ بدلتے رہے ہیں۔

آپ کا موروثی مسلک وحدت الوجود تھا۔ آپ کے آباء اسی سلسلے کے ماننے والے تھے اور شروع میں آپ بھی تصوف کے اسی مسلک کو مانتے تھے۔ آپ نے شروع میں مولانا روم کو بھی، جو آپ کے روحانی استاد اور مرشد ہیں، وجودی تصوف کا قائل سمجھا مگر بعد میں آپ کی رائے ان کے بارے میں بدل گئی۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

’’مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصے تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیاء کے ساتھ خاص ہیں اور بعد میں قرآن شریف پر تدبر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے۔ مثلاً شیخ محی الدین ابن عربی کا مسلک وحدت الوجود وغیرہ۔‘‘

آپ مسلک وحدت الوجود کو اسلام کے خلاف سمجھتے تھے اور اس مسلک کو اسلام کی ضد جانتے تھے۔ آپ ان صوفیاء کے سخت خلاف تھے جو لوگوں میں تارک دنیا ہونے کو خدا کی ذات میں فنا کی راہ بتلاتے تھے۔ آپ کو بے عملی سے شدید اختلاف تھا اور اسے اسلام کی ضد قرار دیتے تھے۔ آپ حالت سکر کو بھی (جو صوفیاء میں ایک مشہور مسلک تھا) خلاف اسلام اور اسلام کی ضد قرار دیتے تھے۔ آپ انسان کی انفرادی حیثیت کے بھرپور قائل تھے۔ آپ کے نزدیک اسلام نے انسان کو پوری قوت اور محنت کی تعلیم دی تھی۔ آپ کے نزدیک رہبانیت خلاف اسلام ایک چیز تھی بلکہ آپ کی رائے یہ تھی کہ اسلام رہبانیت کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔

جودی مسلک کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ ہر چیز میں جاری و ساری ہے لیکن اقبال کا مؤقف اس کے برعکس تھا۔ آپ کا خیال تھا کہ اللہ اس کائنات کا خالق اور مالک ہے اور جب تک چاہے گا اسے آباد رکھے گا؛ اور پھر اسے فنا کردے گا۔ آپ کے نزدیک مسلمان کےلیے خدا کی رضا حاصل کرنے کا طریقہ خانہ نشینی، رہبانیت، تارک دنیا یا حالت سکر نہیں تھا۔

آپ نے انسان کی ذات کو اہمیت دی۔ آپ حرکت کے قائل تھے اور اسے ہی اسلام سمجھتے تھے۔ آپ جمود کو کسی صورت برداشت نہ کرتے تھے۔ اقبال کا مردِ مومن دراصل ایک طاقت ور شخصیت ہے اور اقبال نے اسی طاقت ور شخصیت اور مرد مومن کو اپنی شاعری میں شاہین کہا ہے۔ آپ نے محی الدین العربی کو پورے غور و فکر کے ساتھ پڑھا تھا اور ان کی بعض باتوں کو خلاف اسلام قرار دیا۔

آپ نے وجودی تصوف کے رد اور احتجاج میں پہلی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ تحریر کی۔ آپ نے خودی کا تصور دیا اور انسانوں کو باعمل بنانے کی تحریک شروع کی۔ آپ کے نزدیک خودی تعین ذات یا احساس نفس ہے۔

آپ نے جب مثنوی لکھی تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ وجودی تصوف کے قائل حضرات نے آپ کے خلاف محاذ قائم کرلیا اور اخبارات میں آپ کے خلاف مضامین لکھے گئے۔ آپ کو دشمن اسلام اور دشمن تصوف جیسے القابات سے نوازا گیا۔ آپ کے دیرینہ ساتھی مولوی میر حسن اور اکبر الہ آبادی بھی آپ کے خلاف میدان میں اتر آئے مگر آپ نے لوگوں کی پرواہ نہ کی اور اپنے نظریات کو کھل کر بیان کیا۔

آپ نے مثنوی میں حافظ شیرازی پر (جن کی شاعری میں حالت سکر اور وحدت الوجود کی تعلیم تھی اورلاکھوں لوگ ان سے عقیدت رکھتے تھے) اعتراض کیا۔ آپ کے نزدیک وجودیت نے انسان کی خودی کو مار ڈالا تھا اور انسان کو بے عمل بنادیا تھا۔ آپ نے ایسے حالات میں ایک متحرک انسان کے خیالات کا پرچار کیا۔ آپ کے نزدیک انسان کی خودی کا وجود تھا اور اسے کسی صورت مٹایا نہیں جاسکتا تھا۔ آپ مسلمانوں کی زبوں حالی اور ترکِ عمل کی بڑی وجہ وحدت الوجود کو سمجھتے تھے۔

تصوف کے بارے میں اقبال کی رائے کچھ یوں تھی: تصوف کا لٹریچر بہت وسیع ہے اور اس گروہ میں عجیب و غرب حالات رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ یہ تحریک غیر اسلامی عناصر سے خالی نہیں اور میں اگر مخالف ہوں تو صرف ایک گروہ کا جس نے محمد عربیﷺ کے نام پر بیعت لے کر دانستہ یا نادانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی جو اسلام سے تعلق نہیں رکھتے۔ حضرات صوفیاء میں جو گروہ رسول اللہﷺ کی راہ پر قائم ہے اور صدیقی سیرت کو اپنے سامنے رکھتا ہے، میں اس گروہ کی خاکِ پا ہوں اور ان کی محبت کو سعادتِ دارین کا باعث تصور کرتا ہوں۔

آپ کے بیٹے جاوید اقبال آپ کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’آپ نے وحدت الشہود سے اثر قبول کیا تھا اور اقبال کے تصوف کے نظریئے کے مطابق استغراق کے باوجود ’من و تو‘ کا فرق باقی رہتا تھا۔‘‘

اقبال کسی طور تصوف کے خلاف نہ تھے بلکہ ایک مقام پر تصوف پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’تصوف کے مقاصد سے مجھے کیونکر اختلاف ہوسکتا ہے۔ کوئی مسلمان ہے جو ان لوگوں کو برا سمجھے جن کا نصب العین محبت رسول اللہ (ﷺ) ہے اور جو اس ذریعے سے ذات باری سے تعلق پیدا کرکے اپنے اور دوسروں کے ایمان کی پختگی کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر میں تمام صوفیاء کا مخالف ہوتا تو مثنوی (اسرارِ خودی) میں ان کی حکایات اور منقولات سے استدلال نہ کرتا۔‘‘

اقبال تحریک تصوف کی مفصل تاریخ لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے چنانچہ لکھتے ہیں:

’’اگر وقت نے مساعدت کی تو میں تحریک تصوف کی مفصل تاریخ لکھوں گا۔ ان شااللہ ایسا کرنا تصوف پر حملہ نہیں بلکہ تصوف کی خیر خواہی ہے کیونکہ میرا مقصد یہ دکھانا ہوگا کہ اس تحریک میں غیر اسلامی عناصر کون کون سے ہیں۔‘‘

لیکن اقبال کی دوسری بہت سی دیرینہ خواہشات کی طرح یہ خواہش بھی پوری نہ ہوسکی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post علامہ اقبال اور تصوف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2AdU2mD
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment