Ads

معاشیات کے پروفیسر کی ایک ادبی نصیحت

اس کے معاشیات کے پروفیسر نے اسے بتایا کہ اصول معاشیات بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن ٹالسٹائی، شیخوف، ڈکنز، شیکسپیئر اور ورڈز ورتھ کو پڑھنے کی بات ہی کچھ اور ہے۔ یہ ایک انوکھا اور نہایت اہم تجربہ ہے۔ ہر موسم بہار میں کالج کی گریجویشن تقریب کے موقع پر وہ اپنے ایک پروفیسر کو یاد کرتا جس کے دو حیران کن جملوں نے اس کی زندگی کا رخ بدل دیا تھا۔

وہ ایک بگڑا ہوا طالب علم تھا جو ایک کمیونٹی کالج میں پڑھ رہا تھا۔ اس کے نہ تو اتنے اچھے نمبر تھے نہ اس کے پاس اتنی خطیر رقم تھی، اور نہ ہی پڑھائی کیلئے اتنا جذبہ اور تحریک کہ وہ چار سالہ یونیورسٹی کورس میں اپنے آپ کو داخلے کا اہل پاتا۔ بزنس سے، جو اس کا اختیاری مضمون تھا، اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ یہ اسے اپنی ماں کے اصرار پر رکھنا پڑا، جو ایک روایتی تارک وطن تھی، کیونکہ اس کے خیال میں یہ ایک بہت عملی مضمون تھا۔

اس کے والدین کالج سے متعلق کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے کیونکہ اس کی ماں کو کالج جانے کا موقع ہی نہ مل سکا تھا اور اس کے والد، جو کالج جانا اور پڑھنا چاہتے تھے، دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے نہ جاسکے۔ ان جیسے مطالعے پر حاوی شخص کو کالج میں خوب پھلنا پھولنا تھا لیکن فرانس، لکسمبرگ اور جرمنی کے محاذ جنگ پر نو ماہ سے زیادہ عرصہ گزارنے کے بعد یہ جذبہ منتشر ہوگیا۔

وہ بھی شاید کالج کی تعلیم مکمل نہ کر پاتا اگر اسے اپنی دلچسپی کی کلاس نہ مل گئی ہوتی۔ دوسرے سال خزاں کی ایک صبح وہ ایک بڑے لیکچر ہال کی سب سے پچھلی قطار میں بائیں جانب معاشیات کا لیکچر سننے بیٹھا تھا۔ پروفیسر نے میکرو اکنامکس تھیوری پر لیکچر دینا شروع کیا، اس نے کتاب کھولی، چپکے سے جیک لندن کا ناول ’’جان بارلے کورن‘‘ اس کے اندر رکھا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ وہ مطالعے میں ایسا غرق ہوا کہ اسے اپنے ارد گرد کی کوئی خبر نہ رہی۔

تقریباً بیس منٹ کے بعد پروفیسر نے اپنے نوٹس ایک طرف رکھے اور تیزی سے اس کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ اسے بعد میں بتایا گیا کہ ہر طالب علم نے، سوائے اس کے، پروفیسر کو نشستوں کی قطار کے درمیان سے ہوتے ہوئے ہال کی پچھلی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ ناول پڑھنے میں ایسا منہمک تھا کہ اسے کچھ خبر نہ ہوئی کہ پروفیسر کب اس کے ڈیسک کے پاس پہنچا اور کب سرک کر عین اس کے پیچھے آ گیا، اس کے اوپر جھکا اور جھپٹ کر ناول اس کے ہاتھوں سے چھین لیا۔ دفعتاً اسے احساس ہوا کہ کلاس کا ہر طالب علم اسے گھور رہا ہے۔ وہ انتہائی شرمسار ہوا۔ اس کا گلا خشک ہو گیا اور وہ اپنے دل کو سینے میں باقاعدہ پھڑپھڑاتا ہوا سن سکتا تھا۔

پروفیسر نے ناول کے چند صفحات کی ورق گردانی کی، اس دوران کمرہ جماعت کی ویرانی المناک تھی۔ آخرکار اس نے کتاب سر سے اوپر اٹھائی، اسے ہوا میں لہرایا اور بلند آواز سے گویا ہوا، ’’یہ طالب علم اپنی باقی ماندہ زندگی معاشی نفع و نقصان کے کالم پڑھتے ہوئے نہیں گزارے گا۔ اسے ادب سے دلچسپی ہے،‘‘ اس کے آخری الفاظ حقیقی تعظیم و تکریم کا جذبہ لیے ہوئے تھے۔

اس نے کتاب واپس اس کے حوالے کی، قطاروں کے درمیان سے چہل قدمی کرتے ہوئے واپس اپنی جگہ پہنچا اور لیکچر دوبارہ شروع کردیا۔

وہ حواس باختہ ہو گیا تھا اور کلاس میں باقی ماندہ وقت مخبوط الحواسی میں گزارا۔ اگلے چند ہفتوں کے دوران اس نے پروفیسر کے اس ردعمل پر تامل کیا۔ اگر ایک معاشیات کا پروفیسر ادب کو معاشیات جتنی یا اس سے بھی زیادہ اہمیت دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شاید اس مطالعے کی ایک حقیقی اہمیت ہے جو وہ کلاس روم سے باہر کر رہا تھا۔ ممکن ہے ناول پڑھنا محض ایک فرار و انحراف نہ ہو۔ ہو سکتا ہے مطالعہ ادب ایک کارآمد جدوجہد ہو۔ اور وہ اگر ادب کے طالب علم کے طور پر کامیاب ہوجائے تو ہوسکتا ہے یہ اسے ایک ایسی سمت میں لے جائے جو اس کی پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کے امکانات کو بڑھا دے۔ اسے کچھ پتا نہیں تھا کہ یہ اسے کس پیشے کی طرف لے جائے گا۔ لیکن اس نے ایک امید لگا لی کہ ہو سکتا ہے پڑھائی ختم کرنے کے بعد وہ کچھ پا سکے۔

اس نے اپنا اختیاری مضمون بدل کر انگریزی ادب رکھ لیا۔ اپنے گریڈز بہتر بنائے اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سانتا باربرا منتقل ہوگیا۔ وہ اسکول کے ماحول سے زندگی میں پہلی بار لطف اندوز ہوا اور اس پر یہ انکشاف ہوا کہ مطالعے سے وابستگی، لکھنے کی رغبت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اس نے گریجویٹ اسکول سے صحافت کی تعلیم حاصل کی اور ایک اخباری رپورٹر کے طور پر اپنے پیشے کا آغاز کیا بشمول دو دہائیوں کے جو اس نے لاس اینجلس ٹائمز کے ساتھ گزارے۔ بالآخر وہ روزمرہ کی صحافت چھوڑ کر تصنیف و تالیف کی طرف آگیا۔

یہ قصہ مائلز کوروِن کا ہے جو آج کل یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اِروِن (یو سی اِروِن) میں ادبی صحافت (لٹریری جرنلزم) کا استاد ہے۔

پچھلے مہینے طلبا کے ایک گروپ کو اپنی کہانی سنانے کے بعد اس نے اپنے اس پروفیسر کو ٹیلی فون کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس کے نام کا صرف آخری حصہ اپنے ذہن میں لا سکا، اور پھر اس نے فیکلٹی ایسوسی ایشن کے ایک رکن سے رابطہ کیا۔ اس نے ڈیوڈ کپلان سے اس کا رابطہ کرا دیا جو آج 83 برس کا ہے اور 14 سال پہلے ریٹائر ہوچکا ہے۔

پہلی بات جو اس نے کپلان سے پوچھی وہ یہ تھی کہ کیا انہیں ہماری لیکچر ہال میں ہونے والی نزاع یاد ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ میں نے انہیں یاد کرایا تو وہ مسکرائے اور فرمایا، ’’لیکن مجھے اس پر کوئی تعجب یا حیرانی نہیں کہ میں نے اس پر اتنا اچھا اور غیر متوقع ردعمل کیونکر دیا۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ میں خود اس وقت کیا سوچ رہا تھا، میں ذاتی طور پر کن مراحل سے گزر رہا تھا اور میری اندرونی حالت کیا تھی۔‘‘ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس سے معاشیات میں بیچلر اور ماسٹرز کی اسناد لینے کے بعد اور سانتا مونیکا کالج میں ایک دہائی تک یہ مضمون پڑھانے کے بعد کپلان اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی تعلیم محدود اور ادھوری ہے۔ اس نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس میں ادب کی کلاسیں لینا شروع کردیں اور اپنے طور پر بے تحاشہ مطالعہ شروع کردیا۔

کپلان نے معاشیات پڑھانا جاری رکھا اور بزنس کو ایک بڑے اور مفید اختیاری مضمون کے طور پر پڑھنے کی ضرورت و اہمیت پر اپنا پختہ ایمان قائم رکھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی سوچنا شروع کردیا کہ یونیورسٹی کے وہ عہدیداران جو علوم انسانی یعنی ادب، فلسفہ و تاریخ اور لسانیات وغیرہ کو کم تر سمجھتے ہیں اور وہ طلبا جو اس کی اہمیت سے انکاری ہیں، غلط سمت میں سفر کر رہے ہیں۔

انہوں نے فرمایا کہ اصول معاشیات کا پڑھنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن ٹالسٹائی، شیخوف، ڈکنز، شیکسپیئر اور ورڈز ورتھ جیسے تخلیق کاروں کو پڑھنے کا مزا ہی جداگانہ ہے۔ یہ طلبا کی اقدار و اوصاف کی صورت گری کرنے کے علاوہ ان کی فہم حیات کو گہرا کرتے ہیں۔

کپلان نے کہا کہ تصنیف و تالیف، استعداد تنقیدی تفکر اور تخلیقی صلاحیت کی تحسین و قدر شناسی، جو طلبا فنون لطیفہ کے بڑے مضامین کے طور پر سیکھتے ہیں، وہ ان کی زندگیوں کو آراستہ کریں گے اور انواع و اقسام کے پیشوں بشمول تجارت میں ان کی بہترین مدد بھی کریں گے۔

گلہائے رنگارنگ سے ہے زینتِ چمن!

انہوں نے فرمایا کہ میں نے تمہیں جو ردعمل دیا اس کی وجہ غالباً یہی تھی کیونکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک ناول پڑھنا اتنا ہی قابل قدر ہے جتنا کہ معاشیات کا بے کیف لیکچر سننا اور شاید ادبی موضوعات کی گونج کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے اور تمہاری زندگی پر ان کا اثر عظیم تر ہوتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post معاشیات کے پروفیسر کی ایک ادبی نصیحت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2zeCg4S
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment