جب بھی قتل کا کوئی معاملہ اس طرح سامنے آتا ہے کہ مقتول کے ورثاء نے قانون دیت کے تحت قاتل کو معاف کر دیا تو ہمارے ہاں کچھ جذباتی لوگوں کی طرف سے قانون دیت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں حالانکہ یہ استدلال ہی لغو و باطل ہے کہ افراد کی انفرادی کمزوری، بزدلی اور اداروں کی نااہلی کی بنیاد پر کسی قانون کو مورد الزام ٹھہرادیا جائے۔
جب یہ بات طے ہو جائے کہ مقتول کے ورثاء دباؤ برادشت نہ کر سکے، عدم تحفظ اور مزید کسی بڑے نقصان سے بچنے کےلیے زرِتلافی کے عوض صلح کےلیے راضی ہو گئے تو اس بات کے طے ہونے کے بعد اگر غور کریں تو قانون دیت سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا، اور لوگوں کے اذہان اس قانون کے تصور سے بھی خالی ہوتے تو ورثاء نے بہرصورت قاتل کو معاف کرنا تھا؛ پھرچاہے وہ عام معافی کے اعلان کے تحت معاف کرتے یا عدالت میں کیس کی پیروی ہی نا کرتے یا عدالت میں اس کیس سے ہی دستبردار ہو جاتے۔ قانون دیت کی موجودگی میں اپنے طے شدہ فیصلے کے لیے فقط اس قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔
جہاں ان لوگوں نے اس بات پرکچھ غور نہ کیا ٹھیک وہاں یہ لوگ قانون دیت کی اصل غایت پر بھی غور نہ کرسکے۔
قتل کی اصل سزا قصاص ہے، دیت اور معافی دراصل رخصتیں ہیں جو خدا تعلیٰ کی طرف سے دی گئی ہیں۔ اسلام چونکہ ایک نظم اجتماعی قائم کرنا چاہتا ہے لہذا اس بات کی گنجائش رکھ دی گئی ہے کہ اگر ورثاء اور افراد باہم معاملات طے کرنا چاہتے ہیں تو طے کرسکتے ہیں، تاکہ دشمنی نسل در نسل چلنے کے بجائے افراد کے مابین ہی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ختم ہوجائے۔
یہ استدلال بھی لغو ہے کہ چونکہ اس قانون کا سہارا لیا گیا لہذا قانون قصوروار ہے۔ دنیا کا کوئی قانون خود بخود مجرموں کو نہیں پکڑتا اور نہ دنیا کا کوئی قانون خود بخود نافذ ہو کر مجرموں کے سروں پر کوڑے برسانا شروع کر دیتا ہے بلکہ عالم کے تمام قوانین اپنے نفاذ کے لیے متعلقہ افراد اور احکام کے مرہون منت ہیں۔ دنیا کا کوئی قانون اپنے آپ غلط استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے لازماَ کچھ ہاتھ اور اذہان ہوتے ہیں جو اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقتول کے ورثاء اگر بوجہ دباؤ اور خوف کے دیت پر راضی ہوگئے اور مجرمان کو بھری عدالت میں بذریعہ حلف نامہ معاف کردیا تو مقتول کے ورثاء اور گواہان کا تحفظ کس کی ذمے داری تھیَ؟ کیا ان ذمہ داروں نے اپنی یہ ذمے داری پوری کی؟ کیا اس قانون کا غلط استعمال بھی حکومت اور ریاستی اداروں کی غفلت کے باعث نہیں ہوتا؟
اگر ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہ کرسکے، اپنے شہریوں کو عزت، جان، مال کا تحفظ فراہم نہ کرسکے اور عدل کے مصدقہ تقاضوں کو پورا نہ کر سکے تو آخر قانون کو کیونکر مورد الزام ٹھہرانا درست ہے؟ اگر افراد کی کمزوری، بزدلی اور اداروں کی غفلت و نا اہلی کو قانون کا نقص شمار کیا جانے لگے تو خلق کا کوئی قانون اس نقص سے پاک نہیں ہے۔ یہ بنائے استدلال ہی لغو و باطل ہے کہ افراد کی انفرادی کمزوری، بزدلی اور اداروں کی نااہلی کی بنیاد پر کسی قانون کو مورد الزام ٹھہرادیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post قانون دیت اور ایک وضاحت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2C9mPNA
0 comments:
Post a Comment