حکومت مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے لیے عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کا جواز پیش کرتی ہے جس کی تصدیق کا عام لوگوں کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہوتا خواہ وہاں قیمتوں میں اضافے کے بجائے الٹا کمی ہی کیوں نہ ہوئی ہو مگر اس کمی کا بالعموم اپنے یہاں اطلاق شاذ و نادر ہی ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا عوامی فورم ہے جو حکومت کو قیمتوں میں کمی کی طرف مائل کر سکے۔
پٹرول کی قیمت بڑھانے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھنے سے تمام اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور لطف کی بات یہ کہ اس اضافے کا پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے کوئی نسبت نہیں ہوتی۔ اب حکومت نے پٹرول کی قیمت میں ایک روپے 48 پیسے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں ایک روپے 36 پیسے فی لٹر اضافہ کر دیا ہے۔ مٹی کا تیل 4 روپے 39 پیسے فی لیٹر مہنگا کردیا گیا ہے۔ نئی قیمتوں کا اطلاق یکم دسمبر سے ہوگیا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 77 روپے 47 پیسے فی لٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 85 روپے 95 پیسے فی لٹر ہوگئی۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں اضافہ اس لحاظ سے بھی بلا جواز ہے کہ اس کا استعمال انتہائی غریب طبقہ کرتا ہے جس کے لیے کوئی اضافہ کیا ہی نہیں جانا چاہیے تھا۔ انھیں سبسڈی دے دی جاتی تو بہتر ہوتا۔ جہاں تک پٹرول کی قیمت میں اضافے کا تعلق ہے تو جو پٹرول پاکستان میں پیدا ہوتا ہے تو اس کی قیمت میں اضافے کا کیا جواز ہے؟
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خام تیل کی پیداوار نوے ہزار بیرل یومیہ کے لگ بھگ ہے اس اعتبار سے تیل کی قیمت میں اضافے کے حوالے سے ملکی پیداوار کو اضافے سے استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے۔ کیا حکومت نے یہ استثنیٰ دیا ہے۔ اسی اصول کے تحت ملکی گیس کی قیمتوں میں بھی عالمی منڈی کے مطابق اضافے کا کوئی جواز نہیں۔
The post پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2jaIjOy
0 comments:
Post a Comment