جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے جنون کی حد تک ویڈیو گیم کھیلنے کو 11 بڑی دماغی بیماریوں میں سے ایک قرار دے دیا اور کہا ہے کہ زیادہ ویڈیو گیم کھیلنا ’’ گیمنگ ڈس آرڈر‘‘ کی نشانی ہے۔
سی این این کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے 11 بڑے مینٹل ڈس آرڈر ( دماغی خلل) میں اب حد سے زیادہ ویڈیو گیم کھیلنے کا رویہ بھی شامل کرلیا ہے جسے ’’ گیمنگ ڈس آرڈر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ڈس آرڈر سے مراد وہ ذہنی بیماری یا وہ مختلف انسانی رویہ ہے جن کا اثر انسان کی ذاتی، سماجی، تعلیمی، پیشہ ورانہ زندگی کو متاثر کرتا ہے ۔ اگلے برس کے لیے ’’گیمنگ ڈس آرڈر‘‘ کو بھی دماغی خلل کی فہرست میں شامل کیا جارہا ہے۔
یہ پڑھیں: کام کے دوران ویڈیو گیم کھیلنا دماغی صحت کےلیے مفید ہے، تحقیق
رپورٹ کے مطابق گیمنگ ڈس آرڈر وہ دماغی بیماری یا خلل ہے جس میں انسان بے اختیار ہوجاتا ہے اور منفی نتائج کو جانتے بوجھتے ہوئے متاثرہ انسان گیم کھیلنے کو حد سے زیادہ ترجیح دیتا ہے۔
یہ پڑھیں: ویڈیو گیم کے عادی بچوں کی ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں، رپورٹ
ویڈیو گیم چاہے آن لائن کھیلے جائیں یا آف لائن اس مرض کی تشخیص کے لیے ضروری ہے کہ ایسے انسان کو گیمنگ ڈس آرڈر میں مبتلا کہا جائے جس نے کم از کم ایک سال کا عرصہ جنون کی حد تک گیم کھیلتے ہوئے گزارا ہو اس کے بعد ہی اسے گیمنگ ڈس آرڈر کا مریض کہا جائے۔
لیکن رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ افراد جو ایک برس کے دوران کم وقت کے لیے ویڈیو گیم کھیلتے ہیں لیکن ان میں گیمنگ ڈس آرڈر کی تمام علامات موجود ہوں اور وہ شدت بھی رکھتی ہوں تو طبی ماہرین ایسے افراد کو بھی ڈس آرڈر کے مریضوں میں شمار کرتے ہیں۔
یہ پڑھیں: بچوں کے کمروں میں ٹی وی اور ویڈیو گیم نہ رکھیں
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ترجمان گریگوری ہارٹل نے گیمنگ ڈس آرڈر کو 11 بڑی دماغی بیماریوں میں شامل کیے جانے کی تصدیق کی ہے تاہم عالمی ادارہ صحت کی مرتب کردہ رپورٹ ابھی باقاعدہ طور پر جاری نہیں ہوئی، مئی 2018ء میں یہ رپورٹ جاری کیے جانے کا امکان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ویڈیوگیم کھیلنے سے روکنے پرشوہرنے بیوی کوطلاق دے دی
یاد رہے کہ چند روز قبل ہی خبر سامنے آئی ہے کہ ملائیشیا کے ایک شخص نے اپنی بیوی کو صرف اس بات پر طلاق دے دی کہ وہ اسے ویڈیو گیم کھیلنے سے روکتی تھی۔
The post زیادہ ویڈیو گیم کھیلنے والے دماغی خلل میں مبتلا ہوتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2DDd72o
0 comments:
Post a Comment