Ads

خیال گائیکی کو آسان بنانا فنکار کے اپنے بس میں ہوتا ہے، استاد مبارک علی خان

بیسیویں صدی میں خیال گائیکی کو نئی حیرتوں سے ہمکنار کرنے والے فنکار استاد امیر خان اندور والے نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ، صرف آروہی، امروہی سے راگ کی پوری شکل سامنے نہیں آتی جب تک گانے والا راگ میں اپنی Imegination شامل نہیں کرتا، اسی طرح انہوں نے ایک اور مقام پر کہا بہت سے لوگ گا بجا رہے ہیں لیکن ان میں Poetic Sense نہیں ہے جب تک گویے میں یہ شعور نہیں ہو گا، اس میں بھاؤ نہیں آئے گا، اس کی گائیکی Emotion Less ہو گی۔

استاد مبارک علی خان کی گائیکی استاد امیر خان کی کہی ہوئی ان باتوں کی ہوبہو تصویر ہے، 1937ء میں جالندھر کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے استاد مبارک علی خان کی موسیقی کی دنیا میں غیر معمولی کامیابی اپنے اندر کئی حیرتیں رکھتی ہے، مثلاً ان کا تعلق موسیقی کے کسی معروف گھرانے سے نہیں لیکن یہ اپنے خاندان میں جاری موسیقی کی روایت کو ایک گھرانے کی سطح پر لے آئے ہیں۔ موسیقی کی دنیا میں ان کا کیریئر ایک اور طرح کی حیرت سامنے لاتا ہے، یہ غزل، کافی گاتے گاتے خیال گائیکی کی طرف آئے اور ان میں یہ تبدیلی استاد امیر خان کی گائیکی سے عشق کے بعد پیدا ہوئی، اس کہانی میں ایک حیرت یہ بھی ہے کہ موسیقی کے حوالے سے ان کا علم وراثتی کم اکتسابی زیادہ ہے۔

انہوں نے خیال گائیکی کی پوری ایک صدی کی روایت سے اپنا علم اکتساب کیا ایک ریسرچ سکالر کی طرح پورے عہد کی گائیکی سے گزرے اور پھر علم کے ایک فقیر کی طرح استاد امیر خان اندور والے کے دروازے پر بیٹھ گئے۔ 1992ء میں آل پاکستان موسیقی کانفرنس سے کلاسیکل گائیکی کے کیریئر کا آغاز کرنے والے استاد مبارک علی خان راگ ودیا کے ساتھ ساتھ بول ودیا کے گہرے شعور سے بھی متصف ہیں، راگ کی اوریجنل شکل سامنے لانے اور سامعین کے سامنے آئینہ کر دینے میں بھی انہیں ملکہ حاصل ہے، محفل میں گاتے ہوئے یہ سامعین پر راگ کے راستے اس قدر واضح کر دیتے ہیں کہ جونہی اپنی سحرکاری سے گُر پر واپس آتے ہیں تو پوری محفل بھی گر پر آجاتی ہے اور بے ساختہ داد دیتی ہے۔

ان کی گائیکی کا ایک وصف روحانی اور داخلی کیفیات کا اظہار بھی ہے۔ استاد مبارک علی خان پاکستان میں کلاسیکل موسیقی کے سینئر ترین اساتذہ میں شامل ہیں، اس فیلڈ میں انہوں نے سفر نہیں کیا بلکہ جست بھری ہے۔ آج کلاسیکل موسیقی کے اہم ترین اجتماعات ان کی گائیکی کے بغیر ادھورے سمجھے جاتے ہیں۔ 2007ء میں انہوں نے پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کیا اور اسی سال کے آخر میں انہیں موسیقی کے صدیوں پرانے مرکز ہری بلبھ (جالندھر) میں نہ صرف گانے کا اعزاز حاصل ہوا بلکہ انہیں ہری بلبھ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ استاد مبارک علی خان کی زندگی میں ملتان شہر کی ایک خاص اہمیت ہے، اسی شہر میں ان کا بچپن گزرا اور یہیں رہتے ہوئے یہ استاد امیر خان کے عشق میں مبتلا ہوئے، پھر ان کا دل ایک روشنی سے بھر گیا۔ ہم نے ملتان سے لاہور جا کر استاد مبارک علی خان سے ان کی زندگی اور فن کے بارے میں خصوصی گفتگو کی جو نذر قارئین ہے:

ایکسپریس:۔ سب سے پہلے اپنے خاندانی پس منظر‘ ابتدائی تعلیم اور جالندھر سے پاکستان ہجرت کے حوالے سے بتائیں؟

استاد مبارک علی:۔ ہمارے خاندان کا بنیادی تعلق ضلع جالندھر کے گاؤں ’’نالاں‘‘ سے ہے، میں اسی گاؤں میں 1937ء میں پیدا ہوا‘ ہمارے بزرگ قوالی کرتے تھے‘ میرے والد کے تین بھائیوں نے مل کر اپنی پارٹی بنائی تھی‘ ان میں سب سے بڑے میرے والد غلام بھیک خان تھے، ان کے بعد فضل محمد پھر استاد غضنفر علی گجو خان‘ ہمارے بزرگوں کی یہ پارٹی فضل محمد‘ غضنفر علی قوال کے نام سے مشہور تھی۔ میرے والد غلام بھیک خان اپنی پارٹی میں طبلہ بجاتے اور گاتے بھی تھے، گانا ان کی اضافی خوبی تھی کیونکہ طبلہ بجانے والے آواز نہیں لگاتے۔

جالندھر میں رہتے ہوئے ہمارے بزرگوں نے قوالی میں بڑا نام پیدا کیا، یہ دوآبہ میں ’’نالاں والے‘‘ کے نام سے مشہور تھے اور زیادہ تر دوآبہ کے صوفیاء کا پنجابی کلام کافی کی صورت میں گاتے تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے ان کے لانگ پلے ریکارڈ بھی تیار ہوئے جو کولمبیا ریکارڈنگ کمپنی نے ریلیز کئے تھے۔ نالاں سے ایک میل کے فاصلے پر پڈوری گاؤں تھا جہاں زیادہ تر سکھ رہتے تھے‘ اسی گاؤں میں ایک گردوارہ سکول تھا جہاں سکھ عبادت بھی کرتے تھے جبکہ تین کمرے سکول کیلئے وقف تھے۔ میری عمر آٹھ سال تھی جب مجھے اس سکول میں داخل کرایا گیا‘ دوسری جماعت میں پڑھتے ہوئے ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ تقسیم کا ہنگامہ برپا ہو گیا ۔ پھر ہمیں مجبوراً پاکستان ہجرت کرنا پڑی۔ پہلے پہل ہم نے 17 دن لاہور میں قیام کیا‘ اس کے بعد ہمارا خاندان ملتان آ گیا‘ جہاں ہم اندرون پاک گیٹ رہنے لگے‘ پھر شجاع آباد چک آر ایس کے قریب خان پور قاضیاں میں چلے گئے جہاں میں نے اپنا تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا‘ بعد میں ہم زیادہ تر ملتان ہی رہے کیونکہ ہماری پارٹی کی زیادہ تر مصروفیات ملتان میں ہی تھیں۔

ایکسپریس:۔ آپ کے ملتان میں قیام کے دنوں میں موسیقی کے حوالے سے وہاں کیا ماحول تھا‘ اس شہر کی آپ کی زندگی میں کیا اہمیت ہے؟

استاد مبارک علی:۔ میرے بچپن اور جوانی کے ایام ملتان اور خان پور قاضیاں میں گزرے‘ ملتان میں ہمارا اور سلامت علی خان کا قریباً ایک ہی گھر تھا جبکہ حرم گیٹ کے قریب ہمارے بزرگوں کا ڈیرہ تھا، تھوڑی دور ہی تکیہ بھیڈی پوترہ تھا جہاں ہم نے بابا معشوقے خان اور بابا غلامن کو دیکھا اور سنا، بھیڈی پوترہ تکیہ کے ساتھ ہی اقبال بانو کی کوٹھی تھی اس کے قریب ایک خالی جگہ پر ہم کبڈی کھیلا کرتے تھے۔ ملتان میں نقارچی خاندان کے بزرگوں سے بھی ملاقاتیں رہیں، کوڑے خان‘ میاں رحیم بخش نقارچی جن سے میرے بڑے بھائی عاشق علی طبلہ بھی سیکھتے رہے۔ ملتان میں میری زندگی کا جو وقت گزرا وہ کمال کا وقت تھا۔

ملتان میں ان دنوں مثالی رونقیں تھیں، حرم گیٹ سے پیدل چلتے ہوئے النگ کے راستے ہم دہلی گیٹ استاد فدا حسین جالندھری کے ہاں آجاتے‘ وہاں ان دنوں بہت سی قوال پارٹیاں تھیں جن میں استاد فدا حسین جالندھری‘ رفیق قوال‘ نذیر قوال‘ بخشی سلامت قوال اور ہماری پارٹی تھی۔ وہاں یہ رواج تھا کہ ہر شادی پر قوالی ضرور ہوتی تھی‘ لوکل آرٹسٹ سولو گاتے‘ زیادہ تر خواجہ فرید کی کافیاں گائی جاتی تھیں، اس دور میں ملتان موسیقی کا گڑھ تھا‘ نزاکت‘ سلامت اور طفیل نیازی بھی ان دنوں وہیں تھے، اس وقت لاہور سے بھی زیادہ ملتان کی اہمیت تھی، وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب لوگ اِدھر اُدھر بکھر گئے، پھر اسی ملتان میں اتنی اداسی ہو گئی کہ دل نہیں لگتا تھا‘ یوں ہم ملتان سے کسووال شفٹ ہو گئے کیونکہ وہاں ہمارا پورا قبیلہ آباد تھا۔

ایکسپریس:۔ ملتان میں رہتے ہوئے آپ نے چند قوال پارٹیوں کے ساتھ پرفارم کیا جن میں استاد فدا حسین جالندھری کے ساتھ آپ کا بہت سا وقت گزرا‘ قوالی میں ان کی انفرادیت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

استاد مبارک علی:۔ قوالی کی ابتداء میں نے اپنی ہی پارٹی سے کی لیکن میں نے دیگر قوال پارٹیاں بھی جوائن کیں۔ استاد فدا حسین جالندھری جنہیں میں داء جی کہتا تھا کے ساتھ میں نے بہت سے یادگار پروگرام کئے، وہ مجھے اپنی سنگت میں لے جا کر بہت خوش ہوتے اور میں بذات خود بھی ان کی معیت میں بڑی خوشی محسوس کرتا تھا ۔ ان کی پارٹی میں اور بھی بڑے نامور لوگ تھے لیکن میں ان کی پارٹی میں دوسرے ہارمونیم پر بیٹھتا تھا۔ ان کی قوالی بڑی رنگین سلجھی ہوئی اور علمی انداز کی قوالی تھی۔ قوالی کے شروع میں خیال گاتے اور بڑے سلیقے، قرینے سے کلاسیکل پیش کرتے تھے‘ سرگم میں بھی ان کی بڑی روانی تھی اور ہارمونیم پر بھی بڑی گرفت تھی۔ اس دور میں ملتان میں بہت سی قوال پارٹیاں تھیں لیکن جو سلجھاؤ ان میں تھا وہ کسی اور میں نہیں تھا، ان جیسا تعلیم یافتہ آدمی بھی کوئی اس فیلڈ میں نہیں تھا اور نہ ہی ان کی طرح کوئی ریسرچ کر سکتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں ان جیسا بااصول آدمی بھی کوئی اور نہیں دیکھا۔

ایکسپریس:۔ ملتان میں قیام کے دوران آپ قوالی سے سولوگائیکی کی طرف بھی آئے‘ کافی گائیکی کی طرف آپ کا خصوصی رحجان رہا‘ اپنے کیریئر کے اس دور کے حوالے سے کچھ بتائیں؟

استاد مبارک علی:۔ میری مادری زبان پنجابی ہے لیکن میں سرائیکی زبان سے بہت محبت کرتا ہوں، میں بچپن سے ہی سرائیکی بولتا تھا‘ دراصل اس زبان کی محبت ہی مجھے کافی گائیکی کی طرف لے کر آئی۔ میں کافی شروع سے ہی گا رہا ہوں‘ یوں سمجھ لیں میرے کیریئر کا آغاز ہی کافی سے ہوا ہے۔ میں نے کافی کی ابتدائی ریکارڈنگز لاہور ریڈیو پر کرائیں، یہ غالباً 1961ء کی بات ہے، اس وقت یہاں ایوب رومانی میوزک پروڈیوسر تھے۔ یہ ملتان گئے اور فن کاروں سے رابطہ کیا کہ ہم انہیں لاہور ریڈیو کیلئے ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے بھی اطلاع ملی تو میں اور میرے بڑے بھائی عاشق علی خان‘ ثریا ملتانیکر سب مینا لودھی کے گھر جمع ہوئے، وہیں ہمارے ایک طرح کے آڈیشن ہوئے سبھی کو سنا گیا‘ میرے بڑے بھائی نے کلاسیکل ‘ میں نے کافی اور غزل گائی۔

دو ماہ بعد سب کو ریکارڈنگ کے کنٹریکٹ بھیجے گئے میں نے یہاں کافیاں اور غزلیں ریکارڈ کرائیں جو لاہور ریڈیو سے نشر ہوتی رہیں جن سے مجھے شہرت بھی ملی اور موسیقی کے حلقوں میں بھی متعارف ہوا۔ میری مائیک پر وائس کوالٹی بہت اچھی تھی، معروف گلوکار سلیم رضا اور منیر حسین اسی دور میں میرے پرستار تھے۔ لاہور ریڈیو سے میں قریباً دس سال کافیاں اور غزلیں گاتا رہا۔ جب 1971ء میں ملتان ریڈیو سٹیشن کا افتتاح ہوا تو مجھے کہا گیا کہ اب آپ ملتان ریڈیو سے ہی گائیں۔ ابتداء میں ملتان ریڈیو پر بھی میں نے بہت سی ریکارڈنگز کرائیں لیکن بات یہ ہے حقیقی فن کاروں کیساتھ ہر دور میں ناانصافیاں ہوتی رہی ہیں۔ ملتان ریڈیو پر مقامی فنکاروں کو زیادہ ترجیح دی جانے لگی‘ تو میں نے یہ سلسلہ ہی ختم کر دیا اور ریڈیو سے بد دل ہو کر پارٹیوں کے ساتھ جانے لگا۔

ایکسپریس:۔ آپ نے موسیقی کی تربیت کس استاد سے حاصل کی‘ قوالی اور کافی گائیکی سے کلاسیکل موسیقی کی طرف آپ کے سفر کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟

استاد مبارک علی:۔ میں بچپن میں ہی اپنے چچا استاد غضنفر علی گجو خان کا شاگرد ہو گیا تھا، ان کی طبیعت بڑی جلالی تھی لیکن وہ بڑے صاحب علم آدمی تھے۔ میں نے بچپن میں ان سے کچھ چیزیں بھی یاد کیں، پھر سوچا چچا گھر میں ہی ہیں‘ ان سے سیکھتے رہیں گے لیکن وہ جلد ہی اللہ کو پیارے ہو گئے اور ہم محروم رہ گئے۔ میرا کلاسیکل موسیقی کی طرف آنے کا معاملہ بڑا عجیب ہے، ملتان میں قیام کے دوران مجھ پر ایسا وقت بھی تھا میں کلاسیکل موسیقی کے ہی خلاف تھا، میری نظر میں لائٹ میوزک ہی اہم تھا، میرے بڑے بھائی عاشق علی خان جو کلاسیکل گانے والے تھے سے میری اس معاملے پر جھڑپ بھی ہو جاتی اور میں اکثر بے ادبی کر بیٹھتا تھا لیکن جب مجھے سمجھ آئی تو میں نے اپنے بڑے بھائی سے باقاعدہ معذرت کی، پھر میرا کلاسیکل موسیقی کا شوق بہت زیادہ بڑھ گیا دراصل میرے اندر یہ شوق استاد امیر خان اندور والے کی گائیکی سننے کے بعد پیدا ہوا۔

ایکسپریس:۔ استاد امیر خان اندور والے سے آپ کے عشق اور ان کے روحانی شاگرد ہونے کی حیثیت کو زمانہ جانتا ہے، یہ بتائیں کہ ان کی گائیکی سے آپ کب اور کیسے متعارف ہوئے؟

استاد مبارک علی:۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ملتان میں ہوتا تھا، رادھو سینما حرم گیٹ میں ان دنوں فلم ’’بیجو باورا‘‘ لگی ہوئی تھی جو غالباً ڈیڑھ سال چلتی رہی، اس فلم میں استاد امیر خان کا ڈی وی پلوسکر کے ساتھ ایک معروف ترین آئٹم ’’آج گاوت من مورا‘‘ میرے دل میں کچھ ایسا اترا کہ میں ایک عجیب طرح کے اضطراب کا شکار ہو گیا اور ہر وقت ان کی آواز میرے دل میں گونجنے لگی، پھر یوں ہوا میں دوسرے تیسرے دن یہ فلم دیکھنے جانے لگا، فلم سے مجھے کوئی سروکار نہیں تھا، میں صرف ان کی گائیکی سننے جاتا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے مجھے اس وقت تک ان کے نام کا بھی پتہ نہیں تھا، وہ تو ایک دن یوں ہوا میں فلم دیکھنے جا رہا تھا حرم گیٹ چوک پر مجھے نذیر قوال مل گئے، میں نے دعا سلام کی تو کہنے لگے ، یار مبارک تم کدھر؟ میں نے کہا، جی میں تو فلم دیکھنے آیا ہوں۔

وہ کہنے لگے میں بھی ’’بیجوباورا‘‘ دیکھنے آیا ہوں، آؤ چلتے ہیں، خیر ہم نے ٹکٹ لیے اور سینما ہال میں چلے گئے فلم چل پڑی، دیکھتے رہے، جس وقت اکبر بادشاہ کے دربار کا وہ سین آیا تو میں نے نذیر قوال سے پوچھا، یہ جو بھاری سی آواز ہے، یہ کس کی ہے؟ وہ کہنے لگے یہ استاد امیر خان اندور والے ہیں جو ہندوستان کے معروف گائیک ہیں لو جی میں نے یہ نام سنا اور اپنے دل پر لکھ لیا، اس وقت میری عمر 18 سال تھی اور اب 80 ہے لیکن وہ نام آج بھی میرے دل پر اسی طرح لکھا ہوا ہے۔ میری ان سے عاشقی کا آغاز تو پہلے ہی ہوچکا تھا، تعارف کے بعد میرا عشق اور بھی پختہ ہوگیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب صرف میری سماعت اچھی تھی راگ داری کا کچھ بھی پتہ نہیں تھا لیکن اچھی آواز اور اچھی موسیقی کا شعور مجھے اس وقت بھی تھا۔ فلم دیکھ کر جب ہم واپس آرہے تھے تو بھائی نذیر نے کہا یار مبارک تم نے صرف استاد امیر خان کا ہی پوچھا ہے، اس کا راز کیا ہے؟ میں نے کہا بھائی نذیر مجھے ان کی آواز بہت ہی زیادہ پسند ہے اور مجھے ان سے عشق ہو گیا ہے، وہ کہنے لگے، یار تم ابھی بچے ہو تمہیں موسیقی کی کوئی سوجھ بوجھ تو ہے نہیں اور تم نے استاد امیر خان کو پسند کرلیا ہے، میں نے کہا، جی یہ سب خدا کی طرف سے ہوا ہے، کسی غیبی طاقت نے مجھے ان کی طرف مائل کر دیا ہے۔ وہ بڑے حیران ہوئے، یار بڑی بات ہے۔

ایکسپریس:۔ استاد امیر خان کی گائیکی میں آپ کو ایسی کیا انفرادیت نظر آئی کہ آپ ان کے عشق میں مبتلا ہوگئے، دوسرے گویوں میں آپ کو ایسی بات کیوں نہیں دکھائی دی؟

استاد مبارک علی:۔ کلاسیکل موسیقی میں میرے نزدیک کچھ فن کار بہت اہم ہیں جن میں سرفہرست استاد امیر خان ہیں پھر بڑے غلام علی خان ہیں، انہی میں سلامت علی خان کا نام بھی شامل ہے، وہ بھی اپنے انداز کے بڑے اچھے گائیک تھے، لیکن استاد امیر خان اور بڑے غلام علی خاں کلاسیکل موسیقی کے دو سکول آف تھاٹ ہیں، میں بنیادی طور پر استاد امیر خان کو اپنا روحانی استاد مانتا ہوں، مجھے ان کے ساتھ بے پناہ عشق اور لگن ہے میں کلاسیکل گاتے ہوئے انہی کو فالو کرتا ہوں، جتنا مجھ سے ہوسکتا ہے۔ دیکھا جائے تو کلاسیکل موسیقی کی دنیا میں بڑے بڑے اچھے فنکار ہوئے ہیں، ان لوگوں نے بڑا نام، عزت اور شہرت بھی حاصل کی ہے۔

، ہر پھول کی اپنی خوشبو ہوتی ہے، اس لیے سب فن کار میرے لیے قابل احترام ہیں لیکن میرا عشق اور میرا عقیدہ استاد امیر خان ہیں۔ کچھ لوگوں کو خدا تعالیٰ بہت سی صلاحیتیں دے کر اور ان پر خاص کرم نوازی کر کے دنیا میں بھیجتا ہے، استاد امیر خان انہی لوگوں میں سے تھے۔ ان کی ہستی دنیا کے لیے ایک عجوبہ بنا کر بھیجی گئی، یہ نہیں وہ میرے استاد ہیں اور میں حد سے زیادہ ان کی تعریف کرتا ہوں، یہ میرا مشاہدہ اور میری ریسرچ بھی ہے۔ ایسا گائیک دنیا میں کوئی اور نہیں ہے حالانکہ دنیا میں بڑے بڑے گائیک ہوئے ہیں لیکن خیال گائیکی میں جو اسلوب استاد امیر خان نے وضع کیا، وہ انہی کا حصہ ہے جو گائیکی ان کے پاس ہے، وہ آپ کسی اور سے نہیں سُن سکتے۔ مجھے یہ کہنا تو نہیں چاہیے خدا نے مجھے موسیقی کی بڑی اچھی سوجھ بوجھ دی ہے، میں نے سارے لوگوں کو سُن کر یہ فیصلہ کیا، استاد امیر خان یکتا ہیں۔

ان کی کوئی مثال نہیں۔ میں یہ بات بڑی سوچ بچار اور پرکھ کے بعد کہہ رہا ہوں، استاد امیر خان کی میرے نزدیک اس لیے بھی بہت اہمیت ہے کہ انہوں نے موسیقی کی بہت اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر پریکٹیکل ایسا کر کے دکھایا کوئی دوسرا ایسا نہیں کرسکا حالانکہ سنگیت کے یہی راگ ہیں جو دوسرے لوگوں نے بھی گائے ہیں لیکن استاد امیر خان خیال گائیکی میں اپنا منفرد انداز وضع کر کے سب سے الگ ہو گئے۔ ہندوستان میں استاد امیر خان کو فالو کرنے والے بہت سے لوگ ہیں، ان کی گائیکی نے اپنے بعد آنے والی نسل کو جس طرح متاثر کیا کسی اور فنکار کی گائیکی نے نہیں کیا، دراصل ان کی گائیکی رائج ہوئی، بچے سے لے کر جوان اور جوان سے لے کر بوڑھے تک سب نے ان کے انداز کو اپنانے کی کوشش اور ان کے انداز کو جس جس نے بھی اپنایا ان کو نام بھی ملا اور عزت بھی ملی۔ میں بڑے عجز سے یہ کہتا ہوں میرے گانے میں کمی کجی ہو گی لیکن جو میری سوجھ بوجھ ہے، اس میں کوئی کمی نہیں ہے، میری پسند کا مقام بہت بلند ہے۔ میں نے ساری دنیا میں پسند ہی استاد امیر خان کو کیا لوگ مجھے اس بات کی داد بھی دیتے ہیں کہ مبارک علی خان کی پسند بے مثال ہے۔

ایکسپریس:۔ موسیقی کی دنیا میں روحانی شاگردی کی روایت بہت کم دیکھنے میں آتی ہے، یہ بتایئے اس روحانی وابستگی اور فریفتگی نے آپ کو کس حد تک فیض پہنچایا ؟

استاد مبارک علی:۔ روحانی شاگردی کے بہت سارے واقعات ہوئے ہیں، دیکھیں گنڈا باندھنا اور شاگردی ایک رسم ہے جو گھڑی کی گھڑی ادا ہو جاتی ہے، باقی صرف یقین اور عقیدہ ہوتا ہے۔ ہم نے ایسا بھی دیکھا ہے لوگ باقاعدہ شاگرد ہو کر بعد میں مکر جاتے ہیں جو دل سے مانتے ہیں وہ پھر ساری زندگی کے لیے استاد کے تابع ہو جاتے ہیں لیکن میری مثال سب سے الگ ہے، میرے استاد امیر خان انڈیا میں تھے اور میں پاکستان میں لیکن میری مانتا ہی کچھ ایسی تھی کہ یہ دوری کوئی دوری نہیں تھی۔ بزرگوں کی کہاوت ہے مان لینے سے ہی مراد ملتی ہے، جب کسی کو صدق دل سے مان لیا جاتا ہے تو مراد مل جاتی ہے۔

میں نے مانا ہی استاد امیر خان کو کچھ ایسا تھا مجھے مراد مل گئی، دراصل بات اچھی نیت پر ختم ہو جاتی ہے۔ استاد امیر خان سے میری روحانی وابستگی اس مقام تک آگئی تھی، وہ میرے خوابوں میں آنے لگے، یہ ایک طرح کی میری رہنمائی ہی تھی، اگر میں اپنے ریاض اور گائیکی میں کچھ غلط کر رہا ہوتا تو وہ مجھے ضرور ٹوکتے اور میری درستی کرتے، میرا ان سے عشق ایسا تھا میرے گھر میں بھی ہر وقت استاد امیر خان کا تذکرہ ہوتا تھا، اتنا کہ ایک بار وہ میری بیوی کے خواب میں بھی آئے اور کہنے لگے بیٹی! وہ جو ہمارا پرستار ہے، عاشق ہے، اسے ہمارا ایک پیغام دینا کہ تم جو ہمیں مانتے ہو تمہیں بہت رنگ بھاگ لگیں گے۔ میری بیوی نے جب مجھے اپنا یہ خواب سنایا تو میرے کئی دن اس خواب کی سرشاری میں گزرے اور میں نے سوچا میں جو دن رات ان کو یاد کرتا ہوں، ان کا نام جپتا ہوں تو میں بھی کہیں ان کی یاد میں شامل ہوں، وہ بھی میرے اس عشق کو محسوس کرتے ہیں۔ خدا گواہ ہے مجھ میں کوئی قابلیت نہیں تھی‘ میں کچھ بھی نہیں تھا، میں آج جو کچھ بھی ہوں، یہ سب ان کا روحانی فیض ہے‘ سچی بات ہے مجھے میرا عشق اس مقام تک لایا ہے‘ میں اگر استاد امیر خان کے عشق میں مبتلا نہ ہوتا تو میری زندگی کی کہانی ہی کچھ اور ہوتی۔

ایکسپریس:۔ اپنے کیریئر کی ابتداء میں آپ قوالی‘ کافی اور غزل گائیکی سے وابستہ رہے‘ کس مقام پر آکر آپ نے فیصلہ کیا اب میں کلاسیکل ہی گاؤں گا اور اسی فن میں نام پیدا کروں گا‘ یہ بھی بتایئے کلاسیکل گائیکی کے لئے آپ نے کتنا ریاض کیا، خود کو کیسے بنایا اور تراشا؟

استاد مبارک علی:۔ استاد امیر خان کے عشق میں مبتلا ہونے کے بعد میں ایک طرح کے اضطراب کا شکار ہو گیا تھا، میں جو پہلے کلاسیکل موسیقی کے ہی خلاف تھا، اب کلاسیکل گانے کے خواب میں رہنے لگا‘ لیکن کچھ معاشی مجبوریاں تھیں جن کی وجہ سے میں پارٹیوں کے ساتھ جاتا رہا‘ جب ہم ملتان سے کسووال شفٹ ہوئے تو پھر میں نے فیصلہ کر لیا اب میں صرف کلاسیکل کا ہی ریاض کروں گا‘ میں بچپن میں اپنے چچا استاد گجوخان کا شاگرد ہوا تھا لیکن جب مجھے سیکھنے کی ضرورت پڑی تو وہ ہمارے درمیان نہیں تھے وہ تو استاد امیر خان سے روحانی وابستگی اور ان کی گائیکی نے مجھے اعتماد بخشا اور میں ان کی گائیکی سن سن کر یاد کرنے لگا۔

اس دور میں نیا نیا ٹرانسسٹر آیا تھا، سو میں باقاعدگی سے ریڈیو سننے لگا کسی سٹیشن سے لائیو پروگرام یا ریکارڈنگ چل رہی ہوتی تو میں بڑے دھیان سے سنتا، مجھے راگوں اور ان کے ٹھاٹھوں کی ریڈیو سے بہت زیادہ معلومات ہوئیں۔ اس دور میں، میں نے بہت سے فنکاروں کو سُنا جس سے مجھے استاد امیر خان کی انفرادیت کا بھی پتہ چلا‘ جب ریڈیو پر استاد امیر خان کا پروگرام ہوتا تو میری خوشی کی انتہاء نہ رہتی‘ پھر میں نے ان کی بہت سی ریکارڈنگز تلاش کیں، انہیں سُنتا رہا اور ان کے انداز کو اپنے ذہن میں بٹھاتا چلا گیا‘ ان کا سُر لگانے کا خاص انداز میں نوٹیشن کے حساب سے یاد کرنے لگا کہ اس خیال بندش کا انہوں نے کس سُر سے آغاز کیا، استھائی میں کون کون سے سُر لگائے ہیں‘ انترے میں یہ کس سُر سے اٹھے ہیں، آگے جا کر کون کون سے سُر استعمال کرکے واپس آئے ہیں۔ شروع شروع میں مجھے بہت مشکل پیش آئی، میں سوچتا تھا یار تم نے اتنی بڑی چھلانگ لگا دی کہ لائٹ میوزک سے کلاسیکل موسیقی کی طرف آ گئے‘ یہ تو بڑا وسیع فیلڈ ہے۔

دراصل میں نے ایک طویل عرصہ انتظار کیا اور دعائیں مانگیں کہ یا اللہ مجھے ایک ایسا وقت دے میں کلاسیکل کی ریاضت کروں اور اس فیلڈ میں باقاعدہ داخل ہو جاؤں اور پھر یہ وقت آیا، جب میرے بچے امانت علی اور کرامت علی چار پیسے گھرمیں لانے لگے تو میں نے قوالی کو خیر باد کہہ دیا اور کسووال میں اپنے گھر بیٹھ گیا، پھر میں نے سات سال کا ایک ریاضتی چلا کاٹا‘ میں نے اتنا ریاض کیا کہ رات اور دن کا کوئی فرق ہی نہ رہا‘ میرے اس ریاض کا آغاز 1983ء میں ہوا اور 1990ء تک چلا‘ میں نے سارا وقت سُر منڈل کے ساتھ ریاض کیا یعنی تار کے ساز کے ساتھ، میرے پاس ان دنوں ایک بہت اچھا ہارمونیم بھی تھا جرمن ساختہ لیکن میں نے سُر منڈل کے ساتھ ریاض کو ترجیح دی‘ ان سات سال میں ریاض کرتے کرتے میں اتنا پختہ ہو گیا تھا کہ گاتے گاتے میں گھر سے باہر چلا جاتا‘ راستے میں گنگناتا رہتا اور جب گھر آ کر سُر منڈل پر ہاتھ رکھتا تو سُر منڈل سے وہی سر نکلتا جس سے میں گا رہا ہوتا تھا۔

ایکسپریس:۔ کسووال سے لاہور شفٹ ہونے کے بعد آپ کے کلاسیکل موسیقی کے کیریئر کا آغاز کیسے ہوا‘ اس فیلڈ میں آپ کی قبولیت کا مقام کیا تھا۔؟

استاد مبارک علی:۔ ایک دور تھا میں نے لاہور شہر میں فلم اور ٹی وی میں گانے کے لئے بڑے جتن کئے لیکن مجھے کوئی کامیابی نہ حاصل ہوئی‘ کسووال میں ریاض کے ساتھ ساتھ میرا ایک اور سفر بھی جاری تھا، وہ میری روحانی عقیدت کا سفر تھا‘ میں نے کسووال میں حضرت نانو شہیدؒ کے مزار پر سالہا سال چاکری کی‘ میں نے وہاں ہر وہ کام کیا جس کا مجھے حکم دیا گیا اور جب میں کسووال سے اپنا ریاض مکمل کرکے لاہور آیا تو ان سے باقاعدہ اجازت لے کر اور ان کی دعاؤں کے سائے میں آیا۔ اسی شہر میں جہاں میں ناکام ہو گیا تھا جب ایک ولی کامل کی دعائیں لے کر آیا تو لاہور جیسے میرا انتظار کر رہا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے دعاؤں کی منظوری کا ایک وقت طے کر رکھا ہوتا ہے اور وہ وقت میری دعاؤں کی منظوری کا تھا۔ 1991ء میں ہم کسووال سے لاہور شفٹ ہوئے‘ اسی سال میں نے لاہور ریڈیو پر کلاسیکل موسیقی کا ایک پروگرام کیا‘ جس سے میں بطور کلاسیکل گائیک متعارف ہوا‘ 1992ء میں پہلی بار میں نے آل پاکستان میوزک کانفرنس میں گایا‘ جس سے میری شہرت دور دور تک پھیل گئی اور لوگوں نے مجھے کلاسیکل گائیک تسلیم کر لیا‘ یوں میرا نام ونشان بن گیا اور نام بھی کس فن میں بنا جو دنیا کا مشکل ترین فن اور شعبہ ہے یعنی کلاسیکل موسیقی۔

ایکسپریس:۔ موسیقی کے حلقوں میں آپ اپنے لائٹ میوزک کے حوالے سے متعارف تھے، بطور کلاسیکل گلوکار آپ کو اپنے ہم عصر گانے والوں کے کیسے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا؟

استاد مبارک علی:۔ دیکھیں جب میں کلاسیکل موسیقی کی فیلڈ میں آیا تو امانت علی‘ فتح علی اور نزاکت‘ سلامت کی جوڑیاں گا چکی تھیں اور اپنا عہد گزار چکی تھیں‘ ان کے علاوہ جو لوگ تھے میں ان کو کراس کرکے ہی آگے آیا اور کوئی آئے گا تو اسی طرح کراس کرکے ہی آئے گا‘ نام بنائے گا۔ ہم سے پہلے روشن آراء بیگم‘ امانت علی‘ فتح علی‘ نزاکت، سلامت‘ امید علی خان اور چھوٹے غلام علی خان سبھی اپنے دور کے بہت اچھے گائیک تھے جو معیاری کلاسیکل ان لوگوں نے پیش کیا وہ اب نہیں ہے۔ آل پاکستان موسیقی کانفرنس میں گانے کے بعد ایک دم میرا چرچا ہو گیا تو لوگ حیران ہو گئے، یہ تو لائٹ موسیقی کا آدمی تھا ایک دم کلاسیکل کی طرف کیسے آگیا، آخر یہ کہاں چھپ کر سارا ریاض کرتا رہا جس کا اظہار اس کے گانے میں ہو رہا ہے، یہ تبدیلی واقعی کوئی عام بات نہیں تھی لیکن میں وہی کہوں گا میرا عشق اور میری مانتا میرے کام آگئی، جب کلاسیکل موسیقی کے حوالے سے میری شہرت ہو گئی تو سلامت علی خان جو میری بنیاد اور ابتداء تک کو جانتے تھے بھی میرے اس فیلڈ میں آنے پر حیران تھے کہ یہ بندہ تو غزل اور کافی گانے والا تھا، اس نے اتنی بڑی جست کیسے بھر لی‘ اور پھر یہ کیسا رنگ اور اسلوب لے کر آیا ہے۔

استاد امیر خان اندور والے کا جو یہاں پاکستان میں کسی اور کے پاس ہے ہی نہیں‘ آخر انہوں نے بھی کہا یار مبارک تم امیر خان کو فالو کرتے ہو‘ تمہارے گانے سے ان کی خوشبو آتی ہے‘ باقی تم ہمارے بھائی ہو ہمارے ننھیالی خاندان سے ہو‘ تمہارے کلاسیکل کی طرف آنے کی ہمیں بڑی خوشی ہے اس فیلڈ میں ایک اچھے فنکار کا اضافہ ہوا ہے۔ ابتدا میں مجھ سے محبت کرنے والوں میں استاد غلام شبیر خان‘ جعفر خان اور فلم میوزک ڈائریکٹر سلیم اقبال بھی تھے جو میرے بہت اچھے دوست تھے‘ ہر کوئی یہی کہتا تھا یار مبارک علی کو سن کر لطف آتا ہے‘ لیکن مجھ سے گھرانوں کے لوگ حسد بھی کرتے رہے لو جی ہم گھرانے والے ہیں یہ ایک سائیڈ سے اٹھا، کلاسیکل موسیقی کی طرف آیا اور اس کا نام بن گیا یا ہم گھرانے والوں کے ہوتے ہوئے یہ کیوں اچھا گاتا ہے۔

ایکسپریس:۔ خیال گائیکی میں آپ کی انفرادیت اور شہرت کا ایک حوالہ آپ کی تخلیق کردہ بندشیں بھی ہیں‘ یہ بتائیے خیال گائیکی میں اختراع کے اس مقام تک آپ کیسے آئے پھر خیال بندشیں آپ نے بنائیں تو استاد بڑے غلام علی خان، استاد امیر خاں اور استاد فیاض خان کی طرح اپنا تخلص کیوں نہیں رکھا۔؟

استاد مبارک علی:۔ جن دنوں میں استاد امیر خان کی گائیکی بطور طالب علم بغور سن رہا تھا تو خیال بندشوں اور ان کے بولوں پر بھی ایک خاص انداز سے غورو فکر کر رہا تھا۔ استاد امیر خان نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا پُوربی زبان میں خیال بندشیں آسان ہونی چاہئیں، بول ٹھمری نما اور چار مصرعوں میں ہوں جو عام لوگوں کی سمجھ میں بھی آئیں۔ میرا جو ریاض اور ریسرچ کا دور ہے، اس دوران میں ریڈیو اور دیگر ذرائع سے اپنا علم بڑھاتا رہا‘ کچھ استاد امیر خان کی روحانی مدد اور دعائیں مجھے پہنچیں اور میرا ذہن روشن ہوتا چلا گیا، پھر مجھے خیال بندش کی اختراع کی تکنیک آگئی، میں نے پھر بے شمار بندشیں اور ترانے تخلیق کئے۔ اب آپ کا یہ سوال کہ میں نے اپنا کوئی تخلص کیوں نہیں رکھا تو اسے آپ میری عاجزی اور انکساری سمجھ لیں‘ مجھے بہت سے لوگوں نے کہا خان صاحب بندشیں آپ کی تخلیق کردہ ہیں تو آپ اپنا تخلص بھی رکھیں لیکن میں کہتا ہوں نہیں میں نائیک نہیں ہوں، یہ درجہ اور مقام نائیکوں کا ہے۔

خیال بندش تخلیق کرنے والے واقعی بڑے لوگ تھے اور نائیک کے درجے کے بھی وہی مستحق تھے‘ میں نے تو اپنی مجبوری اور ضرورت کے تحت خیال بندشیں تخیلق کی ہیں۔ میں بھی اگر نائیک لوگوں کی طرح تخلص رکھوں تو یہ بے ادبی میں شامل ہو جائے گا‘ نائیک وہی ہیں جن کو دنیا نے نائیک تسلیم کیا ہے۔ نائیک کا درجہ بہت بلند ہے‘ میں تو صرف گائیک ہوں۔ میرے بھتیجے جاوید بشیر اور اکبر علی انڈیا جاتے ہیں تو ان سے پوچھا جاتا ہے آپ کے گرو کون ہیں، وہ میرا نام بتاتے ہیں تو فرمائش کی جاتی ہے ان کی بنائی ہوئی کوئی خیال بندش سنائیں، یہ سناتے ہیں تو وہ لوگ بہت خوش ہوتے ہیں واہ آپ کے گرو نے تو کمال کردیا، میرے اکثر ماننے والے اور شاگرد گانے سے پہلے میرا نام لیتے ہیں استاد مبارک علی خان کی بندش سُنا رہے ہیں، میرے لئے یہی اعزاز کافی ہے۔

ایکسپریس:۔ آپ کی تخلیق کردہ خیال بندشیں ٹھمری انگ کی خیال بندشیں ہیں جن میں استھائی اور انترے کے التزام کے ساتھ ساتھ بولوں میں بھی ٹھمری انگ ملتا ہے، اپنی اس خصوصیت کے حوالے سے کچھ بتائیں؟

استاد مبارک علی:۔ دیکھیں اکثر خیال بندشیں ٹھمریوں کے بولوں سے ہی متاثر ہو کر بنائی گئی ہیں، اساتذہ کا کہنا ہے خیال بندش ایسی ہو جو لوگوں کی سمجھ میں آئے اور پتہ چلے گانے والا اپنے منہ سے یہ بول ادا کر رہا ہے، پھر گانے کا انداز ایسا ہونا چاہئے کہ سامعین خوش ہو جائیں یہ نہ کہیں پکے راگ سمجھ نہیں آتے‘ خیال بندش جسے ہم ’’لچھن گیت‘‘ بھی کہتے ہیں میں تلفظ کا خاص خیال رکھا جانا چاہئے یعنی سننے والا سُر کے ساتھ ساتھ بولوں کا بھی لطف اٹھائے‘ پہلے نائیکوں نے جو بندشیں بنائی ہیں بول وہ بھی بہت اچھے ہیں لیکن ان میں گنجلتا بہت ہے‘ جب خیال بندشیں ٹھمری انگ میں بننے لگیں تو لوگوں نے بہت پسند کیں۔ میں اکثر سٹیج پر کہتا ہوں جتنا خوبصورت راگ ہے، خیال بندش اس سے بھی خوبصورت ہونی چاہئے جس طرح غزل اور گیت کی کمپوزیشن ہوتی ہے خیال کی بھی ہونی چاہئے، بول جیسے غزل اور گیت میں واضح ہوتے ہیں خیال بندش میں بھی پوری صحت کے ساتھ ادا ہونے چاہئیں۔

ایکسپریس:۔آپ کے خیال میں کلاسیکل گانے والے فن کار کو کن اوصاف کا حامل ہونا چاہئے‘ یہ بھی بتائیں پاکستان ایسے معاشرے میں کلاسیکل موسیقی کو عوامی مقبولیت کیونکر مل سکتی ہے؟

استاد مبارک علی:۔ کلاسیکل موسیقی کی فیلڈ میں سب سے پہلے اچھی تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے پھر فن کار کے اندر ایک تجسس ہونا چاہئے، وہ راگوں کے بارے میں تحقیق کرے کہ اس راگ کو کون کون سے اساتذہ کس انداز سے گاتے رہے ہیں‘ پھر اچھا ریاض ہونا چاہئے، یہ نہیں ریاض ہی اوٹ پٹانگ کیا ہوا ہو‘ ریاض سے ہی گلوکار بنتا ہے اور ریاض سے ہی بگڑتا ہے‘ اچھا استاد مل جائے اور اچھی ریاضت ہو جائے تو پھر بات بنتی ہے۔ اگر فن کار ہر جگہ اپنی مرضی کرے گا تو وہاں کمی رہ جائے گی، اس لئے رہبر بہت ضروری ہے بغیر رہبر کے موسیقی کے فن میں راستہ نہیں ملتا اور فن کار ساری زندگی الجھا ہی رہتا ہے‘ جن لوگوں نے اچھی تعلیم کسی اچھے استاد سے حاصل کی ریسرچ اور اچھا ریاض کیا کیونکہ ریاض ہوتا ہی اس لئے ہے کہ اپنے گانے میں کمی کجی دور کی جائے۔

فن کار خود اندازہ لگائے مجھ میں کیا کمی ہے، کیا نقص ہے، وہی فن کار سدھر سکتا ہے جسے اندازہ ہو مجھ میں کیا کمی ہے۔ ہمارے کلاسیکل گانے والے زحمت ہی نہیں کرتے اچھے لوگوں کو سنا جائے، ہمارے فن کار دوسروں کو سننے میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں، آپ ہی بیٹھ کر خود کو عظیم تصور کر لیتے ہیں یا اپنے خاندان کو عظیم سمجھنے لگتے ہیں۔ بہت سے گائیک خیال گائیکی کو مبہم بنا کر پیش کرتے ہیں جسے لوگ سن تو لیتے ہیں لیکن بعد میں یہی کہتے ہیں ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا‘ اساتذہ کہتے ہیں جو سلجھا ہوا گائیک ہوتا ہے وہ سمجھا کر گاتا ہے‘ وہ اپنے گانے کی ترتیب ہی ایسی رکھتا ہے کہ ہر خاص و عام کو اچھا لگے اور لوگ کہیں کلاسیکل موسیقی تو بہت اچھی ہے اور ان کا کلاسیکل گائیکی کے بارے میں تصور ہی بدل جائے‘ یہ صرف گانے والے پر منحصر ہے وہ ایسا کر کے دکھائے‘ اپنی گائیکی کو اچھے طریقے سے پیش کرے‘ اسی طرح کلاسیکی موسیقی پاپولر ہو سکتی ہے اور میں نے ایسا کر کے دکھایا ہے۔

ایکسپریس:۔اس قدر ناشناس ملک میں کیا آپ اپنی اب تک کی پذیرائی سے مطمئن ہیں؟

استاد مبارک علی:۔ کلاسیکل موسیقی میں میری اصل کمائی یہی ہے خدا نے میرا نام و نشان بنا دیا‘ میری شہرت ہی میری اصل کمائی ہے اصل بات تو نام بننے کی ہے، شہرت تو نام پر ختم ہوتی ہے۔ دراصل کسی کا نام ہوجانا ہی شہرت ہوتی ہے اور نام میرے پاس ہے، پاکستان میں بھی میرا نام ہے لیکن پاکستان سے باہر میرا نام زیادہ ہے‘ انڈیا میں مجھے خصوصی طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں مجھ پر یہ خصوصی کرم ہوا ہے خدا کا کہ فن کے نمایاں لوگوں میں میرا نام موجود ہے، یہی میری زندگی بھر کی کمائی ہے۔ یہ ملال اپنی جگہ یہ ملک بے قدر ہے یہاں فن کار کی قدر نہیں کی جاتی‘ میرے بڑے بھائی عاشق علی خان مجھ سے بھی اچھا گاتے تھے لیکن ان کو کوئی مقام نہیں دیا گیا‘ ان کی وفات پر بھی کسی ادارے نے ان کو خراج تحسین پیش نہیں کیا‘ یہ موت کا بھی احساس نہیں کرتے۔ انڈیا کے فن کاروں کی غیرمعمولی پذیرائی دیکھ کر رشک تو آتا ہے لیکن پھر سوچتا ہوں ہم اپنے وطن میں ٹھیک بیٹھے ہیں یہاں ہم اذانیں بھی سنتے ہیں اور ریاض کی آواز بھی۔

ٹھمری گانے کے لئے خاص لہجے کی ضرورت ہوتی ہے
ٹھمری بہت سے لوگوںنے گائی ہے مجھ سے بھی اکثر ٹھمری کی فرمائش کی جاتی ہے جیسے خیال گاتے ہوئے میں، استاد امیر خان کو فالو کرتا تو اسی طرح ٹھمری گاتے ہوئے استاد بڑے غلام علی خان کی تقلید کرتا ہوں کیونکہ جیسی ٹھمریاں استاد بڑے غلام علی خان اور برکت علی خان نے گائی ہیں، ویسی کسی نے بھی نہیں گائیں، وہ ٹھمری کے ایک خاص انداز کے موجد ہیں، دیگر لوگوں نے بھی ٹھمریاں گائی ہیں جو میڈیا کے ذریعے معروف بھی ہوئیں لیکن بات پھر بھی نہیں بنی کیونکہ ٹھمری کیلئے ایک خاص انداز اور لہجے کی ضرورت ہوتی ہے، اکثر ٹھمری گانے والوں کے پاس ٹھمری کا لہجہ ہی نہیں ہے، ٹھمری کا جو اصل اسلوب ہے وہ بڑے غلام علی خان اور برکت علی خان کے پاس ہی ہے، ان جیسی ٹھمری کوئی گا ہی نہیں سکتا‘ میں جب ٹھمری گاتا ہوں تو باقاعدہ ان کا نام لیتا ہوں اب آپ کو استاد بڑے غلام علی خان کی ٹھمری سنا رہا ہوں۔

The post خیال گائیکی کو آسان بنانا فنکار کے اپنے بس میں ہوتا ہے، استاد مبارک علی خان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2DGWkji
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment