Ads

لکھنو کے تاریخی باورچی

اودھ کو نوابوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔اسی علاقے خاص طور پہ صدرمقام ،لکھنؤ نے باورچیوں کی قدردانی کی اور ایسے ماہرین فن کو جنم دیا جن کی نسلیں پشت در پشت اس فن کی ماہر سمجھی جاتی رہیں ۔ آج بھی کسی باورچی کا لکھنؤ سے تعلق رکھنا ہی اس کی مہارت کی سب سے بڑی سند اور دلیل ہے۔

جب واجد علی شاہ کلکتہ کے مٹیا برج میں مقیم تھے تو ایک انگریز افسرکے گھر مدعو ہوئے۔ انھیں انگریزی کھانے کھلائے گئے اور ہندوستانی کھانوں پر طنز کیا گیا۔ان کا ایک رکاب دار یہ گفتگو سن رہا تھا۔ وہ مصر ہوا کہ انگریز کی دعوت کی جائے۔ واجد علی شاہ بادل ناخواستہ راضی ہوئے۔جب انگریز آیا تو رکابدار نے دسترخوان پر صرف ایک بڑا سا کدو لا کر رکھ دیا۔ انگریز کو غصہ آیا کہ اس کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔واجد علی شاہ نے انگریزکے ہاتھ میں چھری دی۔ جب اس نے کدو کاٹا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ کدو کے اندر طرح طرح کے ہندوستانی کھانے سجے تھے۔

اردو کے معروف مصنف عبدالحلیم شرر کا بیان ہے کہ لکھنؤ کے بعض رکابدار مسلم کریلے ایسی نفاست اور صفائی سے پکاتے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان میں بھاپ تک نہیں لگی اور بالکل ہرے اور کچے دسترخوان پر لا کر رکھے ہیں۔مگر کاٹ کر کھائیے تو لذیذ اور بامزہ۔کسی نواب نے اپنے دوست کے گھر خوان بھیجا۔ جب خوان کھولا گیا تو ایک طشتری میں ایک کچا کدو رکھا تھا۔ دیکھ کر طبیعت مکدر ہو گئی۔ نوکر سے کہا، لے جاؤ ،کل پکا لینا۔ خوان لانے والا ہنس کر بول’’ حضور اسے پکانے کی ضرورت نہیں، یہ پکا پکایا ہے۔‘‘

واجد علی شاہ کا ایک رکابدار نوابی دور کے بعد ایک رئیس کا نوکر ہوا اور ان کے لیے مسور کی دال پکائی۔ وہ دسترخوان پر رکھے سارے کھانے چھوڑ کر دال کھا کر انگلیاں چاٹتے رہے۔انھوں نے رکابدار سے دال پکانے کی ترکیب پوچھی۔ رکاب دار نے اجزا اور ان کے اخراجات کی تفصیل بتائی۔ دال صرف تین پیسے کی اور دیگر اجزا 36 روپے کے تھے۔ رئیس چلا اٹھے’’ نامعقول تین پیسے کی دال پر اتنا خرچ؟‘‘ رکابدار یہ سن کر کھڑا ہوگیا اور یہ کہتا ہوا چلا گیا ’’یہ منھ اور مسور کی دال۔‘‘

ایک بار واجد علی شاہ کے دسترخوان پر ایک ظرف میں رکھے مربے پر نواب سلیمان قدر کو قورمے کا دھوکہ ہو گیا ۔ نواب موصوف صاحب ذوق تھے ۔ان کے یہاں بھی بہترین اور ہنرمند باورچی ملازم تھے۔ انھوں نے واجد علی شاہ کو خصوصی طور پر کھانے کی دعوت دی۔ وہ بھی تیار ہو کر گئے کہ دھوکا نہ ہو لیکن پھر بھی دھوکا کھا گئے۔دسترخوان پر چنے جانے والے تمام خوان شیریں تھے یہاں تک کہ دسترخوان، ظروف اور طشتریاں تک شکر سے تیار کی گئی تھیں۔ ایسے ہی باورچیوں کے جانشین بیسویں صدی کے اوائل تک بقید حیات تھے۔

بعض رکابدار گوشت کی چھوٹی چھوٹی چڑیاں بناتے اور اس قدر احتیاط سے پکاتے کہ ان کی صورت بگڑنے نہیں پاتی تھی۔ یہ چڑیاں پلاؤ پر اس طرح سجائی جاتیں گویا پلیٹ میں بیٹھی دانا چگ رہی ہوں۔اچھے کھانوں کی طلب ان قصوں کو تازہ کر دیتی ہے۔ ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے مقدور بھر اپنے بزرگوں کی تقلید کرنی چاہیے تاکہ پھر ایک بار کھانوں پر بہار آ جائے اور ہمارے آج کے قصے آئندہ نسل کے لیے محفوظ ہو جائیں۔

 

The post لکھنو کے تاریخی باورچی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2DNPxVj
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment