پی ٹی آئی کے دوستوں سے گزارش ہے کہ ہاتھ ہلکا رکھیں۔ اب دھرنے، جلسے اور اپوزیشن کا وقت ختم ہوا؛ اب آپ کی جماعت اپنے جلسوں اور انتخابی مہم میں بڑے بڑے دعوے کرنے کے بعد برسر اقتدار ہے۔ اب تنقید برداشت کیجیے اور سوشل میڈیا پر ہاتھ ہولا رکھیے۔
گزشتہ دنوں ایک صحافی نے وزیراعظم کے پہلے دن اور پچھلے وزیراعظم کے وقت کا ذکر کیا کیا، پی ٹی آئی کے سپورٹرز آپے سے باہر ہوگئے۔ ہر دوسری پوسٹ اس صحافی کے خلاف آنے لگی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کا یہ رویہ سیاسی عدم برداشت کی علامت ہے لیکن اب انہیں سمجھنا ہوگا کہ تنقید ہر کسی کا جمہوری حق ہے لہذا جس اقتدار میں آنے کےلیے ان کی جماعت نے سوشل میڈیا پر الٹے سیدھے پروپیگنڈے کیے ہیں، اب حکومت ان حرکتوں سے نہیں چلنے والی۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ جس سادگی کے نام پر تحریک انصاف کی حکومت عوام میں مقبولیت کی سیاست کھیل رہی ہے اس سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ نومنتخب حکومت کی کابینہ کے اب تک دو اجلاس ہو چکے ہیں مگر جس طرح وزیراعظم نے پہلے خطاب میں عوامی مسائل پر تقریر کی تھی، اس کے برعکس کابینہ اجلاسوں میں عوامی ترجیحات پر کوئی ایجنڈا نظر ہی نہیں آیا۔ یعنی پانی، بجلی، روزگار اور صحت کے شعبے میں بہتری یا انتہاء پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کےلیے کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی بلکہ حیرت ہوئی وزیراطلاعات کے منہ سے یہ بات سن کر کہ کابینہ نے ماس ٹرانزٹ منصوبوں کا آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ چلیے! آپ کی حکومت، آپ کا فیصلہ۔
پھر فواد چودھری نے مزید کہا کہ ان منصوبوں پر اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ نہ جانے وہاں موجود کسی بھی صحافی نے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ جب یہ منصوبے اتنے ہی بھاری پڑ رہے ہیں تو انہیں بند کیوں نہیں کردیتے؟ ویسے بھی آپ کی قیادت کی نظر میں یہ سوائے کرپشن کے اور کچھ نہیں تھے، انہیں بند کرکے سکون سے تحقیقات کرواتے رہیے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی اب تک کے حالات سے صرف دو ہی باتیں اخذ کر پا رہا ہوں کہ موجودہ حکومت کا فوکس یا تو فقط انتقامی کاروائیوں پر رہے گا یا پھر یہ صرف باتیں بنانے پر ہی زور رکھے گی؛ ورنہ یہ ساری چیزیں ویسے بھی ساتھ چلائی جاسکتی تھیں۔ بہتر ہوتا کہ خان صاحب کے خطاب کے بعد جاگنے والی امید کا تسلسل بندھا رہتا اور کابینہ کے اجلاسوں میں عوامی مسائل کے ممکنہ حل پر غور کیا جاتا کیونکہ پانچ سال گزرنے کے بعد عوام کو یہ کہہ کر بے وقوف نہیں بنایا جاسکے گا کہ وزیراعظم تین کمروں والے گھر میں رہے پھر بھی مہنگائی کم نہ ہوسکی، وہ دو بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومتے رہے لیکن پیٹرول کی قیمت نہ سنبھال سکے، مخصوص طیارے میں سفر نہ کیا مگر پی آئی اے کو خسارے سے نہ نکال سکے، سرکاری ملازمین کو نمازِ جمعہ کے بعد دفتر بلوالیا مگر رشوت ستانی نہ ختم کرسکے۔
عوام مسائل کا حل چاہتے ہیں، باتیں اور دکھاوا نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post خان صاحب! عوام حل چاہتے ہیں، باتیں اور دکھاوا نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PEok9H
0 comments:
Post a Comment