راقم الحروف کو کہنے دیجیے کہ ہر زمانے کے رنگ نرالے ہوتے ہیں۔ کیوں نہ ہوں، اس لیے کہ ہر صدی کے ہر زمانے کے ہر معاشرے میں کچھ واقعات ایسے گزرے ہیں کہ جو رہتی دنیا تک تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ اہل دانش متفق ہیں کہ انسان کی جبلت میں شامل ہے کہ وہ کچھ انوکھا کر دکھائے، یہی وجہ ہے کہ تاریخ انسانی کی کتاب کے اوراق اچھے بُرے حالات و واقعات سے بھرے پڑے ہیں جن کا مقصد آنے والوں کےلیے سبق اور اُن کے مستقبل کو گزرے کل اور آج سے بہتر بنانا ہے۔
معذرت قبل اَز گفت، ساری باتیں اور نظریات و خیالات اپنی جگہ ٹھیک، مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حرام مال سے نیک عمل بھی خاک ہے؛ اور حق و سچ کی حمایت کرنے کے بجائے دنیاوی چمک دمک کے حصول کی لالچ سے جھوٹے کو سچ ثابت کرنا اور کرانا، اصل میں گمراہ اور جھوٹے کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔ حق و سچ کی حمایت کرنے والے کےلیے لازم ہے کہ وہ انسان لالچ سے پاک اور ایماندار ہو۔ اس کے بغیر کوئی خواہ کتنا ہی مقبول اور شہرت یافتہ کیوں نہ ہو، وہ حق و سچ کی موٹروے پر حق کا عَلم اُٹھا کر نہیں بھاگ سکتا۔ اہل علم ودانش کہتے ہیں کہ انسانوں کی جبلت میں لالچ جسم میں گردش کرتے خون کی طرح شامل ہے، انسان نے اپنی ضرورتوں کا حاجت روا پیسے کو مان لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام زمانوں کے انسانوں کی مجبوری پیسہ رہا ہے، جبکہ آج کا جیتا جاگتا سانس لیتا انسان تو مادہ پرستی میں ایسا غرق دکھائی دیتا ہے کہ جیسے اس میں جائز و ناجائز اور اچھے بُرے کی تمیز ختم ہوکر رہ گئی ہو۔ آج اس سے بغیر پیسہ اور مطلب اچھائی کی توقع اور اُمید رکھنا صدی کا مذاق بن گیا ہے۔
غرض یہ کہ مادہ پرستی نے اکیسویں صدی کے انسان کی عقل پر پردہ اور آنکھوں پر ایسی سیاہ پٹی باندھ رکھی ہے کہ آج کے انسان کو پٹی کے اندر سے بھی سوائے روپے پیسے کے کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ آج کی دنیا میں انسان کے بنائے ہوئے ہر ایک شعبے میں، ہر معاملے میں انسان نے خود کو پیسے کے تابع کر رکھاہے؛ خواہ شعبہ تعلیم، صحت، سیاست، معیشت، قانون و انصاف، تخلیق و تحقیق، تعمیر و تعمیرات ہو یا شعبہ صحافت، تمام شعبہ ہائے زندگی میں پیسہ ہی حاجت روا اور (نعوذ باللہ) خدا کا درجہ رکھنے لگا ہے۔ تب ہی دنیا کی تہذیبوں، مُلکوں اور معاشروں میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ آج کے دور میں دولت مندوں کے ہاتھوں میں جو پیسہ ہے، وہ اسے انسانوں کی تقدیر بنانے اور بگاڑنے کےلیے ایسے استعمال کررہے ہیں جیسے یہی تقدیرانسانی کے بڑے دیوتا ہیں۔
معاف کیجیے گا، میرے دیس پاکستان میں آف شور کمپنیوں کے مالکان پانامے و اقامے اور جعلی بینک اکاؤنٹس سے اربوں کھربوں مُلکی دولت لوٹ کھانے والوں نے بھی ایسا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے مُلکی سیاست میں جمہوریت کا لبادہ اُڑھ کر اپنے کالے دھن کو قومی و نجی اداروں اور بیرون ممالک میں اپنی جائیدادیں بنانے میں کچھ اس طرح سے انویسٹ کیا ہوا ہے کہ آج جدھر دیکھو، ہر جانب سے ان کا ہی پیسہ نکلتا اور بولتا ہوا نظر آرہا ہے۔ قومی لٹیروں اور مجرموں کا پیسہ اس طرح سے اداروں سے بولتا اور چیختا چلاتا سامنے آرہا ہے جیسے کہ ادھر قومی مجرموں نے جانتے بوجھتے ہوئے، پہلے سے اپنے بچاؤ کےلیے سرمایہ کاری کررکھی ہے تاکہ جب کبھی، کہیں سے بھی احتساب کا ڈنڈا چلے یا کوئی آواز ان کے خلاف بلند ہو، تو پھر ان قومی لٹیروں اور مجرموں کو احتساب سے بچانے کےلیے ان کے چیلے چانٹے ان کی حمایت میں نکل کھڑے ہوں۔ اَب ایسا منظر روز دیکھنے کو مل رہا ہے۔
یعنی کہ آج قومی لیٹروں کے حق میں ان کا پیسہ تو پیسہ، اَب تو لفافے اور لفافے والے بھی ان کےلیے بولتے اور آہ و فغاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی بھی روز اپنا الیکٹرونک میڈیا دیکھ لیجیے، پتا چل جائے گا کہ کہاں کہاں قومی لٹیروں اور مجرموں کا پیسہ اور بھاری بھرکم لفافے لے کر کون کون احتسابی اداروں سے انہیں بچانے کےلیے کیسے چیخ چلا رہا ہے! لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی کےلیے گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ یہ دولت جس نے بھی لوٹی ہے، بیشک وہ قومی مجرم ہے۔ اسے قومی جرم کی کڑی سزا ضرور ملنی چاہیے۔
مگر اس معاملے میں دیر کیوں ہورہی ہے؟ یہ بات کچھ سمجھ نہیں آرہی؛ جب کہ، اس کے برعکس، کوئی غریب ننگا بھوکا پیٹ کی آگ بجھانے کےلیے ایک روٹی چوری کرلے تو قانون اور انصاف کے ادارے فوراً حرکت میں آکر غریب روٹی چور کو زندگی بھر کےلیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کردیتے ہیں۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک حکومت و قانون اور انصاف و احتساب کرنے والے ادارے اربوں اور کھربوں قومی دولت لوٹ کھانے والوں کو ضمانتوں پر رہائی کی سہولیات فراہم کرکے انہیں کیوں رعایت پر رعایت دے رہے ہیں؟ جب قومی لٹیروں کے خلاف تمام شواہد موجود ہیں تو پھر کسی ڈیل کےلیے حکومت کی ڈھیل کیوں ہے؟ ہمارے سیاست دانوں نے جمہوریت کو بھی اپنے مفادات کےلیے اپنے پیسے کی طاقت سے خرید لیا ہے۔
آج ہمارا کوئی بھی سیاست دان یا حکمران بتادے کہ اس نے پچھلی دو دہائیوں میں اپنے اور اپنی پارٹی یا اپنی ہم خیال سیاسی جماعتوں کے سوا کتنے جمہوری ثمرات عوام الناس تک منتقل کیے ہیں؟ تو یقیناً جواب صفر در صفر آئے گا، کیوں کہ کسی نے بھی اصل معنوں میں جمہوری ثمرات عوام الناس تک اس طرح نہیں پہنچائے جس کا تقاضا جمہوریت کرتی ہے۔
پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ اسے اب تک جتنے حکمران اور سیاست دان بھی ملے ہیں، سب نے جمہوریت کی تعریف اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر ہی کی ہے؛ اور جمہوریت کو اپنے ذاتی اور سیاسی مفاداتی طبقے تک تقسیم کیا ہے، اور اس کے ثمرات کو اپنے مفادات تک محدود رکھا ہے… کیوں کہ انہوں نے ہمیشہ عام انتخابات میں سرمایہ کاری کی اور جمہوریت کو اپنی ’’انویسمنٹ‘‘ سے خریدا ہے۔ یہاں ہمیں یہ ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ جب ایسا ہوگا تو پھر سیاستدانوں اور حکمرانوں کی جمہوریت بھی پرائیویٹ سیکٹر میں ہی چلے گی۔ جس طرح آج کل ہمارے سرمایہ کار، سیاست دان اور حکمران، جمہوریت کو اپنے اپنے مفادات کےلیے، اپنے جیسے طبقے کےلیے استعمال کررہے ہیں، اسے دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ آج اسی وجہ سے ہمارے مُلک کا غریب، جمہور اور جمہوری ثمرات سے محروم ہے۔
یقین جانیے کہ اَب تو بنیادی حقوق سے محروم مفلوک الحال غریب پاکستانی جمہوریت کی ایک جھلک کو بھی ترس رہا ہے۔
اَب جب تک آف شور کمپنیوں کے مالکان اور جعلی بینک اکاؤنٹس سے اربوں کھربوں قومی دولت لوٹ کھانے والے حکمرانوں اور سیاست دانوں سے ملک پاک نہیں ہوجاتا؛ اُس وقت تک ہمارے ہر ادارے میں پیسہ اور لفافہ بولتا رہے گا؛ اور ہر الیکشن میں سرمایہ کاری ہوتی رہے گی۔ یوں جمہوریت سیاست دانوں اور حکمرانوں کے ہاتھوں بکتی رہے گی اور سیاست دان جمہوریت کو پرائیویٹ (نجی) طور پر اپنی مرضی سے، اپنے لیے استعمال کرتے رہیں گے۔ جبکہ عوام الناس کو جمہوری ثمرات سے محروم رکھیں گے کیوں کہ میرے مُلک کے دولت مند سیاست دانوں نے پیسے سے جمہوریت کو بھی خرید لیا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post سیاست دانوں کے ہاتھوں جمہوریت کی نجکاری appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2V4a54y
0 comments:
Post a Comment