Ads

سلام اللہ سائیں!

سلام اللہ سائیں!

ڈرتے ڈرتے آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔ آپ اتنے بڑے سردار ہو، سب سے بڑے سائیں ہو، کہیں میری اس جسارت پر ناراض ہی نہ ہوجاؤ۔ کیونکہ ادھر، ہمارے علاقے کا بڑا سردار بہت غصے والا ہے۔ اس کے سامنے جاتے ہوئے میری ٹانگیں کانپتی ہیں۔ بابا سائیں بتاتے تھے کہ آپ سب سرداروں سے بڑے سائیں ہو۔ اماں بھی آپ کے جاہ و جلال کے بارے میں بتاتی رہتی تھی۔ میں تو شائد ڈر کے مارے آپ کو خط ہی نہ لکھ پاتا، مگر آپ کے عدل و انصاف کے بارے میں جو داستانیں بچپن سے سنتا آرہا ہوں، انہوں نے میرے اندر یہ حوصلہ پیدا کیا ہے کہ آپ کو اپنی بپتا سناؤں۔ اسی لیے یہ خط تحریر کررہا ہوں۔ مجھے امید ہے آپ میرے کم پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے میری تحریر کی شکستگی کو نظرانداز کردیں گے اور پوری توجہ سے میری عرضی سنیں گے اور مجھ عاجز کی غم خواری کےلیے جو ہوسکا، ضرور کریں گے۔

اللہ سائیں! میں پاکستانی ہوں اور صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کی ایک تحصیل رتو ڈیرو کا رہائشی ہوں۔ غریب آدمی ہوں، بڑی مشکل سے کھینچ تان کر مہینے بھر کا راشن پورا کرتا ہوں۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ یہ تو آپ کی تقسیم ہے۔ آپ نے مجھے غریب گھر میں پیدا کیا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مجھے غریب رکھنے میں آپ قصوروار ہیں، میں تو بس یہ بتارہا ہوں کہ میں اپنی مرضی سے غریب نہیں ہوں۔ ایسا نہیں کہ میں نے اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے بہت محنت کی ہے اور ابھی بھی کررہا ہوں۔ لیکن لگتا ہے میرے بیٹے کی بیماری مجھے توڑ ڈالے گی۔

میرا ایک چھ سال کا بیٹا ہے۔ سجاول علی، میری جان۔ بڑا ذہین بچہ ہے۔ میں نے پچھلے سال اسے سکول داخل کروایا ہے۔ جب میں سارے دن کی محنت مشقت کے بعد، تھکا ہارا گھر میں داخل ہوتا ہوں تو اس کی ذہین آنکھوں میں شرارت کی چمک دیکھ کر مجھے یوں لگتا ہے جیسے میری ساری تھکان دور ہوگئی ہے۔

اللہ سائیں! مگر میرے سجاول پر ایک افتاد آن پڑی ہے اور میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس مصیبت سے کیسے اس کی جان چھڑاؤں۔ پچھلے دنوں اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ بڑے اسپتال کے ڈاکٹر نے اس کے ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ سجاول کو کوئی بیماری ہے، جسے ایڈز کہتے ہیں۔ اللہ سائیں! پہلے تو میں سمجھا کہ شائد کوئی عام بیماری ہے۔ ڈاکٹر دوا دے گا تو سجاول ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن ڈاکٹر کی پریشان صورت دیکھ کر مجھے لگا کہ کچھ غلط ہے۔ جب میں نے بیماری کی تفصیل پوچھی تو مجھے جیسے سکتہ ہوگیا۔ کتنی دیر تک تو میرا سانس ہی بند ہوگیا تھا۔ میں رونا چاہتا تھا اور پوچھنا چاہتا تھا کہ میرے معصوم سجاول کو کیسے ایڈز ہوگیا؟ مگر میرے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ میں نے سنا تھا کہ غم سے دل پتھر ہوجاتے ہیں۔ اس دن مجھے لگا میرا دل بھی پتھر کا ہوگیا ہے۔ ایک بے نام سی اداسی میرے اندر ٹھہر گئی ہے۔ میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ ہنسوں، بولوں، مگر میرا من مر گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے سجاول کی بیماری کے ساتھ میں بھی تھوڑا تھوڑا مر رہا ہوں۔

میری بیوی، سجاول کی ماں کا حال مجھ سے الٹ ہے۔ اس کی آنکھوں سے ساون کی ایسی جھڑی لگی ہے کہ بند ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اس کی آنکھیں رو رو کر لال ہوگئی ہیں، بالکل بابا فقیر سائیں کے مزار کے مجاور کی طرح، اور مجھے ڈراتی رہتی ہیں۔ اور سجاول بے چارا اپنی ماں کو چپ کرانے کی کوشش میں ناکام ہوکر، اب ٹکر ٹکر اس کا منہ دیکھتا رہتا ہے۔

اللہ سائیں! یہ مصیبت صرف ہم پر ہی نہیں آئی، بلکہ رتوڈیرو میں پانچ سو سے زیادہ بچے اس بیماری کا شکار ہوچکے ہیں۔ اور جانے یہ سلسلہ کہاں جاکر تھمے گا۔ کسی ٹی وی چینل پر دیکھا تھا، کوئی بتارہا تھا کہ وہ بندہ پکڑا گیا ہے جو اپنی بیماری کا انتقام، صحتمند مریضوں کو ایڈز کے انجکشن لگا کر لیتا تھا۔ کسی اور چینل پر آرہا تھا کہ اس کے ذمے دار وہ معالج ہیں جو تھوڑے سے پیسوں کے لالچ میں ایک ہی سرنج تمام مریضوں میں استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ سرنج نہ بدلنے کا الزام حفاظتی ٹیکے لگانے والوں پر بھی لگاتے ہیں۔ اللہ سائیں! سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، یہ آپ کو پتہ ہوگا۔ آپ کے جاسوس فرشتے آپ کو بتاتے ہوں گے کہ یہاں کیسی اندھیرنگری مچی ہوئی ہے اور ایسا چوپٹ راج ہے کہ راجہ سائیں بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ سنا ہے اس نے گیان لے لیا ہے اور بھٹو سائیں کی قبر سے لپٹ کر پڑا رہتا ہے۔ اب اس کی جگہ بھٹو سائیں کا نواسہ ٹی وی پر آتا ہے۔ وہ ابھی سیاست، سیاست کھیلنا سیکھ رہا ہے اور سیاست میں لتھڑے ہوئے بھاشن دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس سے کوئی امید نہیں۔ وہ بھلا کیا کرے گا؟

اللہ سائیں! بات کدھر سے کدھر نکل گئی۔ میں بھی کیا کروں، ایک غم زدہ باپ کا دل بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔ اسے پتہ نہیں چلتا کہ کون سی بات کہاں کہہ دی ہے۔ اس لیے امید ہے آپ میری یہ گستاخی معاف کردیں گے۔

اللہ سائیں! اگر آپ نے بھی ہماری نہ سنی تو پتہ نہیں کتنے گھر ہیں جو اجڑ جائیں گے اور نجانے کتنی ماؤں کی گود ویران ہوجائے گی۔ مولوی سائیں کہتے ہیں کہ یہ ہماری بداعمالیوں کی اور ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ پہلی مرتبہ میرا دل کیا کہ گھونسا مار کر مولوی سائیں کا منہ توڑ دوں اور پھر ان سے کہوں کہ اگر ایڈز سجاول کے گناہوں کی سزا ہے تو پھر یہ ٹوٹا ہوا جبڑا آپ کے گناہوں کی سزا ہے۔ لیکن میں فقط سوچ کر رہ گیا اوراپنے ارادے پر عمل نہیں کرسکا۔ اب پتہ چلا ہے کہ ان میں بھی ایڈز کی تشخیص ہوئی ہے۔ سنا ہے اب مولوی سائیں نے آپ کو یعنی اللہ سائیں کو موردالزام ٹھہرایا ہے اور کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ سائیں اپنے نیک بندوں کو آزماتا ہے لہٰذا ان کو بھی آزما رہا ہے۔

اللہ سائیں! ایک اور بات کی معافی بھی مانگنی ہے۔ آپ کو چٹھی لکھنے سے پہلے میں ایڈز کے وائرس ’’ایچ۔ آئی۔ وی‘‘ سائیں کا پتہ تلاش کرتا رہا ہوں۔ میرا خیال تھا میں اس کو چٹھی لکھوں یا اس سے مل کر اس کی منت سماجت کروں کہ میرے حال پر رحم کرے۔ آپ کو علم ہے کہ مجھے منت سماجت کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں۔ میرا خیال تھا شائد ’’ایچ۔ آئی۔ وی‘‘ سائیں کا دل پسیج جائے اور وہ ایڈز کو کہہ دے کہ میرے سجاول کے وجود میں گاڑے ہوئے اپنے منحوس پنجے نکال لے۔ ایڈز کو میرا گھر چھوڑنے کا کہہ دے۔ مگر میں نے جس سے بھی ’’ایچ۔ آئی۔ وی‘‘ سائیں کا پتہ پوچھا اس نے میرا مذاق اڑایا۔ حتیٰ کہ اس سلسے میں، میں ڈاکخانے بھی گیا، تاکہ وہاں سے ’’ایچ۔ آئی۔ وی‘‘ سائیں کے ایڈریس کا پتہ چلا سکوں۔ مگر ڈاکخانے والوں نے مجھے پاگل قرار دے دیا اور دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ جب میری کہیں شنوائی نہیں ہوئی تو میں نے تنگ آکر آپ کو چٹھی لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے امید ہے آپ میری گستاخی سے صرفِ نظر کریں گے اور ایڈز سائیں کو کہہ کر میرے سجاول کی اور علاقے کے سارے بچوں کی اس موذی مرض سے جان بخشی کروا دیں گے۔ اگر آپ ایسا کروا دیں تو میں، سجاول کا غم زدہ باپ اور رتو ڈیرو کا رہائشی، اپنی ہر وقت سسکتی ہوئی بیوی اور دیگر اہلِ علاقہ کی طرف سے آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ ہر سال جس دن میرے سجاول میں ایڈز کی تشخیص ہوئی تھی، اس روز کو رتو ڈیرو والے یوم نجات کے طور پر منائیں گے اور جیسے بھٹو سائیں اور بی بی بھٹو کی برسی منائی جاتی ہے، ہم غریب بھی دیگیں پکا کر غریبوں کو کھلائیں گے اور کبھی غریبی کو بوجھ نہیں سمجھیں گے۔ بس ایک التجا آپ کے حضور اگر باریاب ہوجائے کہ میرا سجاول، بلکہ رتوڈیرو کے سارے سجاول جیتے رہیں۔ ہمارے جگر کے ٹکڑے تیری عنایت کردہ عافیت کے سائے میں رہیں۔ ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے۔

ایک غم زدہ اور دکھی باپ
تحصیل رتو ڈیرو، ضلع لاڑکانہ
سندھ، پاکستان

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post سلام اللہ سائیں! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2MjspCA
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment