Ads

کشمیر کا مسئلہ اور ہندوتوا

پچھلے چند دنوں سے ہم سمیت دنیا کے وہ سارے لوگ جو ہر جگہ اور جنوبی ایشیا کے عوام کو معاشی حوالے سے خوشحال اور سماجی حوالے سے بھائی بندوں کے رشتے میں جڑے دیکھنا چاہتے تھے وہ ایک چھوٹی سی چند سطری خبر سے آزردہ اور مایوس ہوگئے۔ 71 سال سے امید اور ناامیدی کا جو کھیل برصغیر میں کھیلا جا رہا ہے اس کا اینڈ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

ابھی چند دن پہلے برسوں بعد ٹی وی اسکرین پر ایک خصوصی خبر کے طور پر یہ مژدہ عوام کو سنایا جاتا رہا کہ ’’بھارت پاکستان سے مذاکرات کے لیے تیار ہوگیا ہے۔‘‘ برسوں بلکہ عشروں بعد یہ خوش خبری ایسی تھی کہ اس خطے کا بھلا چاہنے والے بہت مسرور تھے کہ چلو ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘ لیکن ہوا یہ کہ یہ خبر بجلی کی طرح کروڑوں انسانوں کے دلوں اور آنکھوں میں چمک کر دیوانوں کے خواب کی طرح گم ہوگئی۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ میڈیا میں یہ خبر خصوصی بلٹن کی طرح چلتی رہی کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہوگیا ہے۔ اس خبر سے خوش ہونے والے اس حقیقت کو بھول گئے تھے کہ ہندوتوا اور عظیم ہندوستان کا اقتدار ایک ایسے کٹر ہندو کے ہاتھوں میں ہے، جسے دنیا گجرات کے قاتل کے نام سے جانتی ہے۔ اچھی اور پر امید خبر کے جواب میں مودی حکومت کی طرف سے جو تردید آئی ہے وہ کچھ یوں ہے۔ ’’بھارت کی مذاکرات پر آمادگی کی تردید‘‘ اس مایوس کن تردید میں کہا گیا ہے کہ مودی نے پاکستانی ہم منصب کے پیغامات کا جواب دیا، مذاکرات کی بات نہیں کی۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اس حوالے سے صحافیوں کی طرف سے کیے گئے، سوالوں کے جواب میں فرمایا کہ مروجہ سفارتی روایت کے مطابق وزیر اعظم اور بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستانی ہم منصبوں کی جانب سے موصول ہونے والے تہنیتی پیغامات کا صرف جواب دیا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ نریندر مودی نے جوابی خط میں لکھا ہے کہ دہشت، تشدد اور عداوت سے پاک اعتماد کی فضا قائم کرنا ضروری ہے۔ اس جواب پر سوال کرنے والوں نے یہ سوال کیا کہ ان خطوط میں مذاکرات کے حوالے سے کوئی بات کی گئی ہے؟ تو دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ان میں ایسی کوئی بات نہیں کی گئی۔

ادھر پاکستانی ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم اور بھارتی وزیر خارجہ کا عمران خان اور وزیر خارجہ کو خطوط کا لکھا جانا موجودہ سفارتی پروٹوکول کا حصہ ہے۔ پاک بھارت مذاکرات کے آگے بڑھنے کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن واضح ہے۔ ترجمان امور خارجہ پاکستان نے کہا کہ پاکستان کو اپنی پوزیشن بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں، جنوبی ایشیا میں امن اور خوشحالی اور تمام تر مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھنے سے آتی ہے ، دونوں ملکوں کے مسائل میں جموں و کشمیر کا حل بھی شامل ہے۔ تعاون کے ذریعے متحرک ہوکر کشیدگی کم کرکے ہی دو طرفہ امن ممکن ہے۔ ذرایع کے مطابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے مودی کے خط کا جلد جواب دیا جائے گا۔ اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور مشاورت مکمل ہونے کے بعد جواب الجواب دیا جائے گا۔

اس سوال و جواب اور تردید سے یہ بات عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس متنازعہ مسئلے پر کس کا موقف شریفانہ اور منطقی ہے اور کس کا موقف غیر شریفانہ اور غیر منطقی ہے۔ اس مسئلے یعنی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جو تاویلات پیش کی جاتی ہیں ان سے قطع نظر حقیقت بس اتنی ہے کہ یہ مسئلہ، مسئلہ کشمیر نہیں بلکہ طاقتور اورکمزور شریفانہ اور غیر شریفانہ موقف کا مسئلہ ہے۔ ہر وقت پر امید رہنا اور امید کا دامن نہیں چھوڑنا کمزور فریقوں کا استدلال ہوتا ہے لیکن ہر چیزکی ایک حد ہوتی ہے۔ بھارتی حکمران طبقہ محض طاقت کی برتری کی وجہ سے 71سالوں سے مسئلہ کشمیر کو لٹکائے ہوئے ہے، اس قسم کے تنازعات میں اصل فریق عوام ہوتے ہیں، لیکن ظلم یہ ہے کہ بھارت عوام کی مرضی کا احترام کرنے کے بجائے 8 لاکھ بھارتی فوج کی طاقت پر بھروسہ کر رہا ہے۔

کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا بھارت میں کوئی ایسی حکومت آئی ہے جو اپنے ’’ملکی مفاد‘‘ کے علاوہ علاقائی اور جنوبی ایشیا کے مشترکہ مفاد کے حوالے سے بھی سوچتی ہو؟ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے اگر اس قسم کے مسائل پر انتہا پسندانہ موقف رکھتی ہے تو یہ نہ کوئی تعجب کی بات ہے نہ حیرت کی۔ذاتی مسئلہ ہو یا قومی مسئلہ معتدل ذہن رکھنے والے لوگ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے لیکن اگر فریق ثانی اپنے نظریات میں انتہا پسند اور طاقت کے نشے میں چور ہو اور شدید نظریات کا حامل ہو تو پھر حریف ملک کو راہ راست پر لانے کے لیے دنیا کے ملکوں سے رجوع کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔

پاکستان کے تعلقات عالمی سطح پر قابل ذکر تو نہیں ہیں لیکن چین، ترکی، روس، ملائیشیا سمیت کئی ملکوں سے بہرحال ایسے دوستانہ تعلقات ہیں کہ ان سے رجوع کرکے اس مسئلے کی سنگینی اور اس مسئلے سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کے پس منظر میں ان ملکوں سے تعاون حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جانی چاہیے۔ چین آبادی کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو خوش قسمتی سے پاکستان کا مثالی دوست ہے اسی طرح ترکی ہے، ملائیشیا ہے، روس ہے یہ ملک اور کچھ زیادہ نہ سہی دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے میں بامعنی تعاون کرسکتے ہیں۔

یہ اپروچ اس لیے ضروری ہے کہ نریندر مودی جو ہندو مہا سبھا جیسی تشدد پسند جیسی جماعتوں کے مشورے پر چلتا ہے۔ مودی جی کا شمار اتنے پڑھے لکھے لوگوں میں نہیں ہوتا جو قومی مفاد کے کھونٹے سے رسی تڑا کر عالمی مفادات کی طرف آئیں۔ اس کے برخلاف صورت حال یہ ہے کہ مودی مہاراج ہندوتوا کی رسی سے لٹکے کشمیر کو بھارت میں آئینی طور پر شامل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مودی بہرحال اتنے سمجھدار تو ہیں کہ کشمیرکا مسئلہ اور بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات کی اہمیت کو جنوبی ایشیا کے مفادات کے پس منظر میں بھی دیکھ سکیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے ادیب، شاعر، دانشور اور فنکار بھی اس مسئلے کے حوالے سے مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ پاکستان ان ملکوں سے سنجیدگی سے رجوع کرے۔

The post کشمیر کا مسئلہ اور ہندوتوا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2RDLLkO
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment