Ads

قومی چیلنجز اور اجتماعی سیاسی میثاق

قطر نے ڈیپازٹس کی مد میں پاکستان میں3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے ہفتہ اور اتوار کو پاکستان کے دو روزہ دورہ میں دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے ۔

ان کے دورے کے بعد قطر کی جانب سے اب امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی کی ہدایت پر قطر کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے پاکستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اعلان کیا ہے جو ڈیپازٹ اور ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کی صورت میں ہو گی ، حکومتی حلقوں کے مطابق اس نئی سرمایہ کاری کے بعد قطر کی پاکستان میں سرمایہ کاری 9 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گی ، میڈیا اور اقتصادی مشیروں کا کہنا ہے کہ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے دورہ پاکستان کے ثمرات نظر آنے لگے ہیں۔

معاشی صورتحال میں جزوی پیش رفت کے عندیے ظاہر کیے جا رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک پیسے اکٹھے نہیں کیے جائیں گے ملک آگے نہیں جا سکتا، انھوں نے ایمنسٹی اسکیم اور ایف بی آر کی دیگر اصلاحات اور کارروائیوں کے حوالے سے واضح کیا کہ جو اپنی جائیداد نہیں بتائے گا وہ ضبط ہو گی، عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں ریاست کمزور لوگوں کی ذمے داری لے گی، کاروبار کے لیے ریگولیٹری فریم ورک ناگزیر جب کہ رجسٹریشن کو ہر قیمت پر سہل ہونا چاہیے۔

بادی النظر میں ملکی سماجی و سیاسی صورتحال پر وزیراعظم کا انداز نظر ایکشن کا تقاضہ کرتا ہے اور وزیراعظم ایک ایسی سریع الحرکت معیشت کی منتظر ہیں جس میں قومی خزانہ لبالب بھرا ہوا ہو، حکومتی اقدامات، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، کاروباری طبقات، تجارتی حلقے، اسٹاک ایکسچینج بڑے پیمانہ پر معاشی استحکام کی اچھی خبریں دیں اور اپوزیشن کی کسی بات کا عوام نوٹس نہ لیں۔

مگر ایسا عملیت پسندی کی اس موجودہ دنیا میں ہونا ممکن نہیں، قومی جذبہ زندہ ہو سکتا ہے مگر اس کے لیے جمہوری قیادت، عدلیہ ، نیب ، انتظامی و عسکری ادارے اور جمہوری قوتوں کا اس نکتہ پر اتفاق ناگزیر ہے کہ قومی بقا اور ملکی استحکام کی منزل فیئر پلے، انصاف پسندی ، مساوات اور جمہوری اشتراک عمل ہی سے ملے گی ۔ کشیدگی، محاذآرائی، نعرے بازی ، الزام تراشی ، بہتان طرازی اور انتقامی پالیسیوں سے ہمیشہ نقصان کا خطرہ ہوتا ہے، اس اندیشے کو مہمیز ملنے کا امکان، ان افواہوں اور قیاس آرائیوں سے زیادہ ہو سکتا ہے جن سے سنجیدہ تجارتی طبقے خبردار بھی کر رہے ہیں۔

ایک ٹی وی ٹاک میں سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے ان طلاعات پر تشویش ظاہر کی کہ معاشی استحکام لانے، سرمایہ کاری اورغیر ملکی زرمبادلہ میں اضافہ ، ایمنسٹی اسکیم اور ریئل اسٹیٹ کی ویلویشن میں چھاپہ مار اسکواڈز کی جو باتیں کی جا رہی ہیں وہ ہوش مندانہ نہیں ہیں، اس سے معاشرہ اور کاروباری و تجارتی طبقات میں خوامخواہ کی بے چینی پیدا ہو گی جو حکومت کے صائب اور مثبت معاشی ایجنڈے کو بھی نقصان پہنچائے گی۔

میڈیا پر مسلسل ایمنسٹی کے لوپ ہولز گنوائے جا رہے ہیں اور ماہرین صبح رات اسی کوشش میں ہیں کہ عوام کا کوئی گھر ان کے انسپکشن، چیینگ اور ’’ریڈ‘‘ سے محفوظ نہ ہو۔ ایسا معاشی پلان جس کے بھی ذہن رسا میں ہے اسے قوم کے بہترین مفاد میں ایک سے زیادہ بار توازن و تعقل کے ساتھ فہمیدہ معاشی مسیحاؤں کو سامنے پیش کیا جائے تا کہ عوامی حلقوں کو کسی قسم کے خوف اور سراسیمگی سے واسطہ نہ پڑے، بلکہ عوام اور کاروباری لوگ زیادہ سے زیادہ حکومتی اقتصادی پالیسیوں میں دل کھول کر تعاون کریں۔ تاہم بعض مفاد پرست بھی اس کوشش میں ہوں گے کہ حکومت کی اقتصادی، ایمنسٹی ، معاشی،  مالیاتی و ٹیکس پالیسیوں کے نفاذ اور اطلاق پر ہڑبونگ پیدا ہو، بدمزگی کے مظاہرے دیکھنے میں آئیں ، مارکیٹ ، عوام اور اسٹاک ایکسچینج پر اس کے برے اثرات مرتب ہوں۔ لہذامعاشی اقدامات اور پالیسیوں میں شفافیت پر کوئی آنچ نہیںآنی چاہیے۔

حکومت کے بہترین ذہن اگر حقیقت پسندی، زمینی حقائق، معاشی تقاضوں اور قومی ضروریات کے مطابق تدابیر اختیار کریں گے تو لازماً ان کے بہترین نتائج قوم کے سامنے آئیں گے لیکن اس میں شرط اول یہی ہے کہ عوام ہوں یا کاروباری اور تجارتی معاملات سے وابستہ طبقات کسی کو طاقت اور چھڑی سے سیدھا کرنے کے مائنڈ سیٹ سے کام نہ لیا جائے، یہ ملک سب کا ہے، معاشی ایشوز اور سرمایہ کاری سے متعلق اہم اقدامات کے بیچ حکومت اور صنعت و سرمایہ کاری کی شخصیات اور اداروں میں حد درجہ انصاف، انتظامی شفافیت اور مالیاتی احتیاط و قانونی پیچیدگیوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔

وزیراعظم نے ایک سے زیادہ بار کہا ہے کہ بس تھورا سا وقت چاہیے، اس کے بعد معیشت سنبھل جائے گی، مگر کہنا اور اس پر عمل کرنا ایک مختلف معاملہ ہے۔ حکومت اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافہ کرنے کے دعوے کر رہی ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں 35 کروڑ کا خرچہ کم ہوا ہے، حکومت نے کفایت شعاری پر دیگر اقدامات بھی اٹھائے ہیں، بعض پر اعتراضات ہوئے مگر in the long run یہ دیکھنا ہو گا کہ حکومت نے آمدنی بڑھانے کے لیے جو غیر روایتی منصوبے شروع کرائے کیا وہ مفید ثابت ہو رہے ہیں، اسی طرح ریلوے، سرکلر ریلوے کراچی، بیمار اور خسارے میں چلنے والے اداروں کی نج کاری پر بھی یکسوئی سے کوئی قابل عمل فیصلہ جلد ہونا چاہیے۔

مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے اپنے ایک ٹویٹ میں نئی قطری سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سرمایہ کاری کے لیے تین ارب ڈالر کی رقم پاکستانی خزانے میں جمع کروانے کا اعلان کیا ہے، اس پر میں امیر قطر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

دریں اثناء وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امیر قطر کی طرف سے بھاری سرمایہ کاری کا اعلان وزیراعظم عمران خان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار ہے، اس بیرونی سرمایہ کاری سے پاکستان کو معاشی خسارے سے نکلنے میں مدد ملے گی، بہت جلد پاکستان دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لے گا۔

پاکستان کی قطر کے ساتھ نئی شراکت داری دوطرفہ تعلقات کا نیا آغاز ہے۔ موجودہ حکومت نے مذہبی اور دیگر سیاحتی مقامات کے لیے ویزوں کا اجراء آسان بنایا ہے اور مختلف مراعات کا اعلان کیا ہے۔ قطر پاکستان سے افرادی قوت کی تعداد بڑھانے پر بھی متفق ہے۔ انھوں نے کہاکہ قطر نے پاکستانی چاول کی درآمد پر عائد پابندیاں ہٹا دی ہیں۔

بلاشبہ دوست اور برادر ملکوں سے اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری کی پیشکشوں کی اہمیت اور افادیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے مگر بنیادی ہدف ملکی معیشت پر اپوزیشن جماعتوں کی تنقید اور بجٹ کی نامنظوری میں مضمر خطرات ہیں۔ اپوزیشن کل جماعتی کانفرنس سے حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مہنگائی ، ٹیکسوں، بیروزگاری سے معاشی قتل ہو رہا ہے، انھوں نے حکومتی طرز عمل ، سنسرشپ اور قدغن لگانے کی پالیسیوں پر شدید ردعمل دیا ہے، پیپلز پارٹی کے مطابق 193 ملین لوگ ٹیکس دے رہے ہیں باقیوں کو ڈاکو قراردیا جا رہا ہے، قرضہ کمیشن کے قیام کو بھی غیر آئینی اور غیر جمہوری کہا گیا ہے، یوں متحدہ اپوزیشن آیندہ چند مہینوں میں ایک مکمل شو ڈاؤن کی طرف جانے کا ادارہ ظاہر کر چکی ہے، اس لیے صائب حکمت عملی یہی ہے کہ حکمراں اپوزیشن سے سینگ لڑانے کی مہم جوئی سے گریز کریں بلکہ قومی چیلنجز کے پیش نظر ایک اجتماعی میثاق ، یا خیر سگالی جیسا کوئی معاہدہ عمرانی طے پا جائے جس پر سب کا اتفاق ہو اور جمہوری عمل کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ اسی میں سب کا مفاد ہے۔

The post قومی چیلنجز اور اجتماعی سیاسی میثاق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2X01DPT
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment