Ads

معاشی دباؤ کا سبب کیا ہے؟

حکومت نے معاشی دباؤ سے نمٹنے کے لیے متعدد غیر روایتی اقتصادی اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ان اقدامات سے بلاشبہ غریب پر زد پڑتی ہے، اسے روز ایک نئے قانون اور ضابطہ میں جکڑنے کی تدبیریں ہورہی ہیں، جرمانے ہورہے ہیں، مارکیٹ فورسز میں ہیجان ہے اور تجارتی و کاروباری حلقوں میں قیاس آرائیوں کے ساتھ تشویش کی ایک لہر بھی دوڑی ہے۔

معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت پر نئی افتاد کیا نازل ہوئی ہے پوری معیشت کے در ودیوار ہل گئے ہیں ۔وزیراعظم عمران خان، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، وزرائے مملکت ، اور دیگر حکومتی معاونین صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’ کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر‘‘ کے اصول کے تحت کثیر المقاصد اسٹرٹیجی اپنائے ہوئے ہیں اور کوشش ہورہی ہے کہ معاشی صورتحال کو جلد از جلد قابو میں لایا جائے، لہذا ملک بھر میں معاشی نظام کو سمت مہیا کرنے کے لیے کارروائیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔

بے نامی اکاؤٹس،اثاثوں کی تفتیش کے لیے اتھارٹی کی تشکیل، پراپرٹی مالکان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے صوبوں کا تعاون مانگا کیاگیاہے،اثاثے ظاہر کرنے کے لیے کیش آخری تاریخ تک اکاؤنٹس میں رکھنا لازمی ہوگا۔ سپریم کورٹ نے قراردیا ہے کہ کرپشن کی رقم مر کر بھی ادا کرنا ہوگی ، عدالت نے صوبہ سندھ کے مرحوم ڈی ایس پی اور ان کی اہلیہ کی اپیلوں پر فیصلہ دیتے ہوئے 3 کروڑ ادا کرنے کرنے کا حکم دیا ،اپیل کنندہ کا موقف تھا کہ جرمانہ ادا نہیں کرسکتے۔

میڈیا کے مطابق ریڑھی لگانے سے لے کر ہر قسم کے کاروبار کے لیے رجسٹریشن لازمی قرار دیدی گئی ہے، رجسٹریشن نادرا سہولت مراکز پر ہوگی۔ رجسٹریشن نہ کروانے والے ریڑھی والوں سے لے کر ہر قسم کے کاروبار کرنے والے خلاف کاروائی ہوگی ۔بجٹ کے نفاذ کے بعد پیر سے ٹیکسٹائل، لیدر، اسپورٹس اشیاء، کارپٹس، سیمنٹ ، اینٹیں،سگریٹ، سریا سمیت دیگر اسٹیل مصنوعات،گھی، کوکنگ آئل،مشروبات و منرل واٹر،میک اپ کا سامان، جوسز،سی این جی،چینی،برانڈڈ اشیاء، فروزن اشیاء ،پینٹس، وارنش، الیکٹرک و ہوم اپلائنسز،لبریکنٹ آئل،اسٹوریج بیٹریاں، سیمنٹ،ایل این جی،ہیرے جواہرات، سونا چاندی، گاڑیاں، ماربل،ٹرانسپورٹ کرائے اور تمام درآمدی اشیاء مہنگی کردی گئی ہیں۔

جب کہ کیپٹل گین ٹیکس کے لیے جائیداد کا ہولڈنگ پیریڈ جوپہلے تین سال تھا بڑھا دیا ہے۔پہلے تین سال بعد پراپرٹی کی فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس سے چھوٹ تھی۔ اب یہ مدت تعمیر شدہ جائیداد کے لیے پانچ سال اور پلاٹ کے لیے دس سال کردی گئی ہے ۔سُپر ٹیکس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔بینکوں کے لیے آمدنی کا فارمولا لاگو کردیا گیا ہے ۔ایک لاکھ ماہانہ تنخواہ والوں پراڑھائی ہزار روپے ماہانہ ٹیکس عائد کردیا گیاہے ۔80 لاکھ سے اوپر والی پراپرٹی انکم پر ٹیکس20 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کردیا گیا ہے۔

ٹرانسپورٹ سروسز پر ٹیکس کی شرح دو سے بڑھا کر چار فیصد کردی گئی ہے۔ مقامی رائلٹی پر پندرہ فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے جب کہ یکم جولائی سے ایکٹو ٹیکس پئیر لسٹ میں آنے کے لیے دیر سے گوشوارے جمع کروانے پر ایک ہزار سے20 ہزار روپے جرمانے دینا ہونگے۔ نان فائلرز کے لیے جائیداد و گاڑیاں خریدنے پر پابندی ختم کردی گئی ہے تاہم انھیں جائیداد یا گاڑی خریدنے کے 45 دن میں ریٹرن جمع کروانا ہوگی۔ ریٹرن جمع نہ کروانے پر ایف بی آر از خود ٹیکس کا تعین کرکے ریکوری کا نوٹس جاری کرے گا۔

عدم ادائیگی پر پراسیکیوشن ہوگی جس میں بھاری جرمانے اور ایک سال سے تین سال تک کی قید ہوسکے گی ۔ادھر سی این جی کی قیمت بڑھنے سے عام لوگ متاثر ہونے لگے ہیں، بیروزگاری اور مہنگائی بڑھ گئی ہے، نئے ٹیکسوں کے خلاف ملک گیر اضطراب جنم لے رہا ہے، فیصل آباد، گوجرانوالہ میں سیکڑوں ٹیکسٹائل یونٹ بند ہوگئے جب کہ کراچی کے سائٹ ایریا میں 700 ٹیکسٹائل پراسیسنگ ملوں کی پیداواری سرگرمیاں معطل ہیں،ڈالر کی اڑان اور فضائی و ریلوے کے مسافرکرایوں میں اضافہ کیا گیا ہے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں، متوسط طبقہ کی کمر دہری ہوچکی،اطلاع ہے کہ گاڑیوں کی نئی رجسٹریشن ہوگی، ٹرانسفر،ٹوکن اور ودہولڈنگ ٹیکس میں کئی گنا اضافہ لاگو ہوگا تو عوام کہاں جائیں گے۔

ان کے لیے جان وتن کا رشتہ قائم کرنا مسئلہ بن جائے گا، حکمراں ٹیکسوں کے نفاذ اور سرکاری خزانہ میں اضافہ کو معیشت کے توازن سے ہم آہنگ رکھیں، ماہرین معاشیات نے خبردار کیا ہے کہ یک طرفہ دباؤ بڑھتا گیا تو عوام کی چیخیں ہی نہیں دم نکل جائے گا ، میڈیا اور اپوزیشن نے ملک کا دیوالیہ نکلنے کے خدشات بھی ظاہر کیے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بجائے متوسط طبقے اور غریب کو جینے کا حق دے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا درست ہے کہ غریب عوام اور اپوزیشن کو ختم کرنے سے استحکام قطعاً نہیں آئیگا۔ عوام ریلیف سے محروم لیکن اہل اقتدار اور وزرا ،مشیر،اور حکومتی عہدیدار ہر قسم کی مراعات لے رہے ہیں،یہ دو عملی بند ہونی چاہیے۔

The post معاشی دباؤ کا سبب کیا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Jik7pQ
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment