Ads

سیاحت کا فروغ مگر کس قیمت پر؟

گزشتہ دنوں ایکسپریس نیوز کی ویب سائٹ پر ’وادی کنول‘ کا تعارف پیش کیا تھا، جس پر درجنوں افراد نے فیڈ بیک دیا اور اس کاوش کو سراہا۔ وزارت سیاحت آزاد کشمیر نے بھی اس اقدام پر داد دی۔ بلاگ کے نتیجے میں سیکڑوں افراد کا اس گمنام اور سیاحوں کی نظروں سے اوجھل وادی سے تعارف ہوا۔ وادی کنول کو دنیا کے سامنے لانے میں مقامی نوجوانوں اور سوشل میڈیا صارفین کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔

بلاگ میں آزاد کشمیر حکومت کو وادی میں ایکو ٹورازم کے فروغ اور سیاحت کےلیے تجاویز بھی دی تھیں۔ لیکن آزاد کشمیر حکومت نے وادی کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے بجائے اس کے حسن کو گہن لگانے کا مںصوبہ پیش کردیا۔ محکمہ سیاحت کے ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر حکومت نے وادی کی خوبصورت جھیل اور چھایاں کا سیاحتی مقام ایک غیر مقامی فرد کو لیز پر دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں جگہ کی پیمائش کی گئی۔ تاہم دیگر معاملات طے ہونا ابھی باقی ہیں۔

گزشتہ بلاگ یہاں سے پڑھیے: نیلفری، وادی کنول جہاں پریوں کا مسکن ہے

ایکو ٹورازم اس وقت دنیا بھر میں مقبول ہورہا ہے۔ سیاح مختلف سیاحتی مقامات کی سیر کے دوران قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اٹھاتے ہیں۔ بنیادی طور پر ایکو ٹورازم یا ماحول دوست سیاحت کی ابتدا ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہوئی، جبکہ اس کو زیادہ فروغ 20 برس قبل اور سوشل نیٹ ورکنگ میں اضافے کے بعد حاصل ہوا۔ ماہر ماحولیات شجاتہ نارائین کے مطابق ایکو ٹورزام ایسی سیاحت ہے، جو قدرتی ماحول پر اثرانداز نہیں ہوتی، جس سے مقامی معیشت بہتر ہوتی ہے، تہذیبوں کا تبادلہ ہوتا ہے، جبکہ سب سے زیادہ اس سیاحت کے فروغ سے ماحولیاتی تعلیم کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ وسط امریکی ملک کوسٹاریکا نے سب سے پہلے ایکو ٹورازم کے فروغ کےلیے اقدامات کیے۔ حکومت نے تمام حیاتیاتی مساکن کی حفاظت کےلیے اقدامات کیے۔ بڑے پیمانے پر قومی پارکس بنائے۔ کوسٹاریکن حکومت نے جنگلات کی حفاظت کےلیے بھی نہ صرف عملی اقدامات کیے بلکہ ان کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا۔ لیکن پاکستان میں اس کے برخلاف اقدامات کیے جاتے ہیں۔

مری کا سیاحتی مقام، ناران اور کاغان کے علاقے، شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کے تفریحی مقامات پر حیاتیاتی مساکن کو بری طرح تباہ کیا گیا۔ اب آزاد کشمیر حکومت نے جہاں سیاحت کے فروغ کے عزم کا اظہار کیا ہے، وہیں اہم سیاحتی مقامات کوخود چلانے کے بجائے ٹھیکیداری نظام کے حوالے کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

وادی نیلوفر لیز پر دینے کا سب سے بڑا نقصان یہاں کی قدرتی چراگاہ کی تباہی کا موجب ہوگا۔ وادی میں سڑکوں کی تعمیر سے چراگاہ زمینی کٹاؤ کا شکار ہوگی۔ جس سے اس کا حسن برباد ہوجائے گا۔ دوسرا سب سے بڑا نقصان مقامی زمیندار یا کسان کو ہوگا۔ جن کا دارومدار مال مویشیوں پر ہے۔ نیلفری اور اس سے متصل چراگاہوں میں ضلع بھر کے پچاس فیصد دیہاتوں اور قصبوں کے افراد گرمیوں میں اپنے مویشی چرانے کےلیے لاتے ہیں۔ علاقہ لیز پر دینے سے جانوروں کو پالنے کا ایک بڑا ذریعہ بند ہوجائے گا، جس سے لائیو اسٹاک انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

رواں سیزن کے دوران 30 ہزار سیاحوں نے وادی کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران متعدد ملحقہ علاقوں کے تاجروں نے منافع کمایا۔ لیکن اگر اس قدرتی مسکن کو ایک ٹھیکیدار کے حوالے کردیا جائے گا تو مقامی تاجروں کا روزگار بند ہوجائے گا۔

پاکستان سمیت دنیا بھر کے حیاتیاتی مساکن لیز پر دینے کا جہاں بھی تجربہ کیا گیا، اس کے مثبت نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ ایک فرد جو کسی بھی علاقے پر سرمایہ لگاتا ہے، وہ اسے پورا کرنے کےلیے دی گئی ضمانتوں اور معاہدوں کی پاسداری بھی نہیں کرتا۔

وہ وادی جس میں عام آدمی آزادانہ گھوم سکتا ہے، جانوروں کو بھی جینے کی آزادی ہے۔ ٹھیکداری نظام آنے سے انسانوں اور جانوروں کو سانس لینے کا بھی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

انٹرنیشنل ایکو ٹورازم سوسائٹی نے ماحول دوست سیاحت کے چند اصول متعارف کرائے ہیں۔ ان اصولوں کے مطابق اس سیاحت کے ذریعے ماحول کی تباہی کا باعث بننے والے طبعی، سماجی اور عملی اقدامات کو محدود کیا جانا چاہیے۔ عوام اور سیاحوں میں ماحولیاتی اور ثقافتی آگاہی اور احترام بڑھایا جائے۔ سیاحوں اور مقامی افراد پر مثبت اثرات مرتب کیے جائیں۔ مقامی افراد کے معاشی مفادات کا خیال رکھا جائے۔ ماحول پر کم اثرات مرتب کرنے والی سہولیات دی جائیں۔ حکومت مقامی افراد کے مذہبی عقائد اور معاشی معاملات کے تحفظ کو یقینی بنائے اور انہیں اپنے علاقے کی سیاحت سے حاصل ہونے والی مفادات میں بھرپور شریک کرے۔

مندرجہ بالا اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وادی کنول کی لیز پر غور کیا جائے تو یہ لیز کسی بھی طرح سے ان اصولوں پر پورا نہیں اترتی۔ ضلع حویلی کے سیاستدان بالواسطہ یا بلاواسطہ اس ڈیل سے مستفید ہورہے ہیں، جبکہ مقامی افراد کو سہانے خواب دکھا کر اس مبینہ ڈیل کےلیے ذہنی طور پر تیار کیا جارہا ہے۔

آزاد کشمیر حکومت سیاحوں کو سہولیات دینے میں بظاہر ناکام نظر آرہی ہے۔ لیکن مقامی افراد اور تاجر اپنے حصے کا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت آزاد کشمیر میں قیام و طعام اور ٹرانسپورٹ کی قیمتیں انتہائی کم اور مناسب ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مقامی افراد کو ماحولیات سے آگاہی دے، انہیں تجربہ اور تربیت فراہم کرے، جس سے ان کا معیار زندگی بلند ہو۔ لیکن ریاستی حکومت اپنے مخصوص افراد کو نوازنے کےلیے ماحول کی قربانی دے رہی ہے۔

وادی نیلوفر میں سیاحت کے فروغ کےلیے بساہاں اور جبی سیداں شاہراہ کو مکمل پختہ کیا جائے۔ ککڈارہ گلی سے نیلفری تک ہائیکنگ ٹریک کو خوبصورت پودوں سے آراستہ کیا جائے۔ نیلفری جھیل اور دیگر جگہوں کو سیاحوں کےلیے بالکل مفت کیا جائے، جبکہ مقامی افراد کو چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاری کےلیے تیار کیا جائے۔ سیاحوں کو کیمپنگ کےلیے آمادہ کیا جائے، کیوں کہ یہی اس وادی کا حسن ہے۔

یاد رکھیے! وادی میں چہار سو پھیلے نیلوفر، گلاب اور پتریس کے پھول اس کا حسن ہیں۔ تعمیراتی سرگرمیاں اور ٹھیکیداری نظام ان پھولوں، جانوروں اور سبزے کو قتل کردے گا۔ جب حسن ہی نہیں ہوگا تو وادی کی طرف توجہ کون دے گا؟ وادی کے نوجوانوں کو بھی اپنے ماحول کے تحفظ کےلیے ذاتی مفادات کے بجائے نسلوں کی بقا کےلیے جدوجہد کرنا ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post سیاحت کا فروغ مگر کس قیمت پر؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2S4imAI
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment