اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس سال کے پہلے چھ ماہ میں 3,812 افغان شہری جاں بحق یا زخمی ہو گئے۔ یہ ہلاکتیں افغانستان کی سرکاری فوجوں، نیٹو فورسز اور عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں میں ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے افغانستان میں سویلین کی حالت زار کے بارے میں ایک لرزہ خیز رپورٹ جاری کی ہے۔ افغان حکومت اور اس کے حامی فورسز طالبان کے خلاف مسلسل لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ طالبان بھی حملے کرتے رہتے ہیں۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ 2019کے اولین نصف عرصہ میں یہ افغان شہری نیٹو ، افغان افواج طالبان کے ہاتھوں ہلاکت کا شکار ہوئے۔ اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بارہ سو شہری تو تخریب کاری کے واقعات میں جان سے گزر گئے۔ ان میں سے سات سو سے زائد ہلاکتیں جنگی جہازوں سے بمباری کے نتیجے میں ہوئیں جب کہ افغان فوج رات کے اندھیرے میں غیر ملکی افواج کے ساتھ مل کر چھاپہ مار کارروائیاں کرتی رہی، اسی دوران بھی عام افغان باشندوں کی ہلاکتیں ہوتی رہیں۔
علاوہ ازیں طالبان گروپوں اور دولت اسلامیہ یا داعش کی طرف سے تین سو سے زاید افغانوں کو موت کا شکار بنایا گیا۔ بدھ کو سیکیورٹی فورسز کی ایک بس میں دھماکا خیز مواد کے پھٹنے سے کم از کم 30 لوگ مارے گئے۔ حکومت نے طالبان کو ذمے دار قرار دیا ہے جب کہ طالبان کے ترجمان نے اس سرکاری الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ گزشتہ ماہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے اجلاس میں افغان سیاستدانوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ آیندہ سے شہریوں کے ہلاکت کو مکمل طور پر روک دیا جائے گا۔
اس اجلاس میں طالبان کے نمایندے ذاتی حیثیت سے شریک ہوئے تھے۔ دوسری طرف افغان حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرے بالخصوص اس صورت میں جب کابل حکومت کے پاس فی الوقت دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ فوجی قوت بھی موجود ہے جس کو مغربی ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر طالبان کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکتیں اس طرح جاری رہیں تو وہ عوامی حمایت بھلا کس طرح حاصل کر سکیں گے جو وہ چاہتے ہیں۔ بظاہر افغانستان کی صورت حال انتہائی گنجلک بلکہ نا گفتہ بہ لگتی ہے جسے سلجھانے کے لیے خصوصی اقدامات اور انتظامات کی ضرورت ہو گی۔ سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگ و جدل کرنے والوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ عام شہریوں کی ہلاکتوں سے حتی الوسع گریزکریں۔ افغانستان میں خانہ جنگی کا دورانیہ خاصا طویل ہے‘ اگر سال بہ سال ہلاکتوں کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ تعداد لاکھوں میں چلی جائے گی۔
افغانستان کو اس صورت حال سے نکالنے کی سب سے بڑی ذمے داری افغانوں کے متحارب گروپوں کی اپنی ہے کیونکہ ان کی باہمی لڑائی سے دوسری قوتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ افغان گروپوں نے ماضی میں بھی کئی بار امن معاہدے کیے ہیں لیکن بعد میں وہ ان معاہدوں سے منحرف ہو جاتے رہے ہیں۔ اب بھی طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں ‘ طالبان افغانستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تاہم اب ان میں لچک دیکھنے میں آ رہی ہے۔ افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو عام شہریوں کی ہلاکتوں کو مدنظر رکھ کر اپنے اپنے مفادات سے باہر نکلنا ہو گا۔ اگر وہ اپنے مفادات سے ہٹ کر سوچیں تو افغانستان میں امن کا قیام کوئی مشکل نہیں۔
The post افغانستان میں امسال چار ہزار شہریوں کی ہلاکت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SXZ8gz
0 comments:
Post a Comment