سید محمد عرفان کی کہانی نے مجھے دکھی کر دیا‘ میں نے رات کے پچھلے پہر اس کا خط پڑھا اور میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں‘ میں اٹھا اور کھڑکی کھول دی‘ اکتوبر کی خنکی کمرے میں گردش کرنے لگی‘ اسلام آباد میں اکتوبر کا مہینہ حیران کن ہوتا ہے‘یہ مہینہ جاتی ہوئی گرمیوں کی خوشبو کو سردی کے لحاف میں لپیٹ کر ایک نیا‘ ایک انوکھا ذائقہ تخلیق کرتا ہے۔
ہم اسلام آباد کے باسی اس ذائقے سے واقف ہیں لہٰذا ہم اکتوبر کے مہینے میں جی بھر کر اس کا لطف اٹھاتے ہیں‘ میں اکثر ڈپریشن‘ ٹینشن اور اینگزائٹی میں رات کے وقت کھڑکی کھول دیتا ہوں اور اس وقت تک ٹیرس پر بیٹھا رہتا ہوں جب تک پورا جسم سن نہیں ہو جاتا‘ محمد عرفان کے خط نے بھی اینگزائٹی پیدا کر دی اور میں نے خود کو پچھلی رات کے سرد سناٹے کے حوالے کر دیا‘ میں خط پکڑ کر ٹیرس پر بیٹھ گیا اور دیر تک بے حسی اور حکومتی نالائقی کا سیاپا کرتا رہا۔ سید محمد عرفان کون ہے آپ خود اس کی زبان سے سنیے۔ ’’میں نے بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد سے بی ایس ٹیلی کام انجینئرنگ کیا‘ میں نے کلاس میں سلور میڈل لیا اور میں ویلز (برطانیہ) چلا گیا۔
میں نے وہاں سے موبائل اینڈ سیٹلائیٹ کمیونی کیشن میں ماسٹرز کی ڈگری لی اور میں اس کے بعد یورپین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ای آئی ٹی) کے اسکالر شپ پر برلن اور پیرس چلا گیا‘ میں نے وہاں سے بھی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی اور آرکی ٹیکچر میں ڈگریاں لے لیں چناں چہ میں کہہ سکتا ہوں میں ٹیلی کام میں ایک پڑھا لکھا شخص ہوں لیکن میں ہوں کون؟ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں‘ میرا نام سید محمد عرفان ہے اور میں پیشے کے اعتبار سے ایک ٹیلی کام انجینئر ہوں‘ میرے والد اسلام آباد کے ایک فارن مشن میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں‘ میں نے جولائی 2012ء میں برطانیہ کے شہر ویلز میں گلیمورگ یونیورسٹی سے اعزاز کے ساتھ موبائل اور سیٹلائیٹ کمیونی کیشنز میں ماسٹر ڈگری لی۔
میرے پروجیکٹ کا مرکزی خیال ٹیلی کام کا چوتھاا سپیکٹرم تھا‘ میں نے اس پروجیکٹ میں اعزاز حاصل کیا‘میں نے اس سے قبل 2010ء میں بحریہ یونیورسٹی سے ٹیلی کام انجینئرنگ میں گریجویشن کی اور میں نے 3.75 سی جی پی اے کے ساتھ اپنی جماعت میں دوسری پوزیشن حاصل کی‘ میں نے سیکنڈری اور اس کے بعد کی تعلیم اسلام آباد ماڈل کالج سے حاصل کی‘ میں ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں‘ والدین میانوالی کے گاؤں نورنگا سے اسلام آباد آئے‘نورنگا پنجاب کے سب سے زیادہ نظرانداز کیے جانے والے علاقوں میں سے ایک علاقہ ہے‘ 2012ء کے بعد زمین کے مسلسل کٹاؤ کی وجہ سے اب ہمارا گاؤں مکمل طور پر دریا برد ہوچکا ہے۔
ہمارے بزرگوں کی قبریں تک پانی میں بہہ گئی ہیں‘ مجھے بچپن سے بیرون ملک تعلیم کا شو ق تھا‘ میں نے بی ایس کیا تو میری والدہ نے اپنا تمام زیوربیچ دیا‘ ہمارے پاس پانچ مرلے کا ایک مکان تھا‘ والد نے دس منٹ میں یہ گھر بیچ دیا‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں ہمارا واحد سورس آف انکم ہمارے والد کی تنخواہ تھی‘ ہمارا خاندان آج بھی اسی سورس پر پل رہا ہے مگر ہمارے والدین سمجھتے ہیں ہماری تعلیم میں کی گئی سرمایہ کاری ان کی سب سے بہترین سرمایہ کاری ہے‘ میری بڑی ہمشیرہ نے ایجوکیشن میں ماسٹر ڈگری لے رکھی ہے۔
چھوٹی بہن نے ریاضی میں فرسٹ ڈویژن کے ساتھ ماسٹر ڈگری اور ڈبل میتھ کے ساتھ گریجویشن کی ‘جب کہ میرا چھوٹا بھائی ایئر یونیورسٹی اسلام آباد سے میکاٹرانکس انجینئرنگ میں ڈگری لے رہا ہے‘میں واپس اپنی کہانی کی طرف آتا ہوں‘ میں دہری شہریت کا حامل ہوں ‘ میں جب تک چاہتا میں یورپ میں رہ کر کام کر سکتا تھالیکن میں اس کے باوجود جولائی 2012ء میں اپنے وطن کی خدمت کے لیے پاکستان واپس آ گیا‘ میں نے پاکستان آ کر تقریباً ہر ٹیلی کام کمپنی میں درخواست بھیجی‘ملک میں 300 کمپنیاں ہیں‘ میں سب کے پاس گیا لیکن کسی کمپنی نے مجھے درخواست موصول ہونے کی اطلاع تک دینا گوارہ نہیں کیا۔
مجھے کچھ نجی کمپنیز سے کالز آئیں لیکن انھوں نے مجھے نوکری دینے سے اس وجہ سے معذرت کرلی کہ انھیں تجربہ کار انجینئرز کی ضرورت تھی‘میں یہ جان کر حیران رہ گیا دنیا کا کوئی شخص نوکری کے بغیر تجربہ کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ میں نے انھیں پیش کش کی میں تجربہ حاصل کرنے کے لیے بہت کم تنخواہ پر بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوںمگر مجھے کسی نے گھاس نہیں ڈالی‘ میں نے کئی حکومتی اداروں میں بھی درخواست بھیجی لیکن میرے ’’پینڈو‘‘ ہونے کی وجہ سے مجھے پذیرائی نہ مل سکی۔
یہ شاید اس وجہ سے تھی کہ میں کسی اہم شخصیت یا کسی ممبر قومی اسمبلی‘ صوبائی اسمبلی یا سینیٹر کا بیٹا نہیں ہوں یا پھر میں کسی جج یا جرنیل کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا‘ بہرحال میرے دوستوں نے مشورہ دیا اور میں اپریل 2013ء میں نوکری کی غرض سے برطانیہ چلا گیا‘ میں نے اپلائی کیا اور مجھے سویڈن میں برطانیہ کی صف اول کی ٹیلی کام کمپنی الکاٹیل نے کنٹریکٹ پر ’’گریجویٹ اسمال سیل انجینئر‘‘ کے طور پر نوکری دے دی لیکن بدقسمتی سے سال بعد کمپنی فروخت ہو گئی اور تمام ملازمین فارغ کر دیے گئے ‘ میں دسمبر 2014ء میں ایک بار پھر پاکستان واپس آ گیا اور مختلف اداروں کو پھر سے درخواستیں بھیجنا شروع کر دیں۔
میں نے ٹیلی کام سیکٹر میں نوکری حاصل کرنے کے لیے مختلف اداروں کو 2500 درخواستیں بھیجیں لیکن کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا‘ اس عرصے میں ایک بڑی شخصیت کی مہربانی سے مجھے ایک بڑی ٹیلی کام کمپنی میں مارچ 2015ء سے لے کر مئی 2015ء تک تین ماہ کے لیے 7500 روپے کے معمولی معاوضے پرانٹرن شپ اور دو ماہ کے لیے تنخواہ کے بغیر نوکری ملی‘ اس میں بھی روزانہ 75 روپے کھانے کے کٹ جاتے تھے‘ میں تین ماہ بعد یہاں سے بھی فارغ ہوگیا‘ میں اب آہستہ آہستہ پاکستان میں نوکری حاصل کرنے کی امید کھوتا جا رہا تھا‘ میں روز سوچتا تھا یہ ملک شاید اہم شخصیات کے لیے بنا ہے۔
یہ ہم جیسے لوگوں کا ملک نہیں‘میں یہ سوچنے پر بھی مجبور ہو گیا تھا میں نے شاید ٹیلی کام سیکٹر کا انتخاب کر کے غلطی کی یا ہمارے ملک کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے‘سسٹم جان بوجھ کر پڑھے لکھے لوگوں کو باہر دھکیلتا ہے‘ میں اسی گومگو کی کیفیت میں تھا کہ ستمبر 2017ء میں مجھے ٹیلی کام میں ایک اور ماسٹر کے لیے یورپین اسکالر شپ مل گیا‘ مجھے ایک سال برلن (جرمنی) اور دوسرا سال رینیز (فرانس) میں گزارنا تھا‘ میں نے اکتوبر 2017ء میں نمل یونیورسٹی سے جرمن زبان کا چند ہفتے کا کورس کیا اور میں جرمنی آ گیا۔
برلن میں اپنا پہلا سال مکمل کیا اور دوسرے سال کے لیے فرانس کی مایہ ناز ساربون یونیورسٹی میں داخل ہو گیا ‘ اللہ کا شکر ہے میں نے اپنی دوسری ماسٹر ڈگری بھی کام یابی سے مکمل کر لی‘میں اب ایک بار پھر پاکستان آنا چاہتا ہوں لیکن دل ڈرتا ہے‘ میں آپ سے بس یہ پوچھنا چاہتا ہوں کیا واقعی پاکستان میں نیا پاکستان بن گیا ہے اور مجھے واپس آ جانا چاہیے یا نہیں‘میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میں نے جرمنی جانے سے پہلے اپنے والد کی گاڑی کریم کے ساتھ رجسٹر کر لی تھی‘ میں اس سے تھوڑے بہت پیسے کما لیتا تھا اور میں نے ایک مایہ ناز ٹیلی کام کمپنی میں بغیر تنخواہ کے چند ہفتے کے لیے کام بھی کیا تھا‘ یہ میری کہانی ہے۔
مجھے نہیں سمجھ آ رہی میں آپ کو یہ کہانی کیوں سنا رہا ہوں‘ میں شاید ایک کنفیوز نسل کا کنفیوز شخص ہوں‘ میرے والدین نے اپنی ساری جمع پونجی میری اور میرے بہن بھائیوں کی تعلیم پر لگا دی اور میں پوری زندگی یہ سوچ کر پڑھتا رہا میں اپنے ملک کی خدمت کروں گا‘ میں یہ سوچ کر بار بار پاکستان بھی آتا رہا‘ مجھے دنیا بھر کی یونیورسٹیاں باصلاحیت سمجھتی ہیں‘ یہ مجھے بار بار اسکالر شپ بھی دیتی ہیں‘ میں اپنی تعلیم اور صلاحیت میں بھی اضافہ کر لیتاہوں لیکن میں جب بھی کوئی اچھی ڈگری لے کر واپس آتا ہوں تو درخواستیں دینے کے علاوہ میرا کوئی کام نہیں ہوتا‘مجھے ساڑھے سات ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ کام نہیں ملتا اور یہ کام بھی دو تین ماہ بعد ختم ہو جاتا ہے لیکن میں اس کے باوجود ڈٹا ہوا ہوں۔
میں اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد ایک بار پھر پاکستان آؤں گا‘ پھر درخواستیں دوں گا‘ مجھے نوکری مل گئی تو سو بسم اللہ نہ ملی تو میں والد کی گاڑی کریم کے ساتھ چلالوں گا اور اپنا دال دلیہ کر لوں گا مگر ہمت نہیں ہاروں گا‘ میں کوشش کرتا رہوں گا‘ میں آپ سے یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں۔
ہمارے وزیراعظم روز ٹیلی ویژن پر کہتے ہیں پاکستان کے باصلاحیت اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو باہر کی نوکریوں کو لات مار کر پاکستان آنا چاہیے‘ ہم لات مار کر آ بھی جاتے ہیں لیکن جب پاکستان پہنچتے ہیں تو نوکریوں کی تلاش میں اپنی لاتیں گھساتے رہتے ہیں‘ ہم یہ لاتیں گھساتے گھساتے ختم ہو جاتے ہیں‘ایسا کیوں ہوتاہے؟ اور ہمارے وزیراعظم اگر ہمیں باعزت روزگار نہیں دے سکتے تو پھر یہ ہمیں واپس کیوں بلاتے ہیں‘ یہ دنیا بھر میں بکھرے میرے جیسے نوجوانوں کو پاکستان کی خدمت کی دعوت کیوں دیتے ہیں؟‘‘
سید محمد عرفان کا خط ختم ہو گیا اور میں دکھی دل کے ساتھ یہ خط ہاتھ میں پکڑ کر ٹیرس پر بیٹھا رہا‘ میرے پاس محمد عرفان کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا‘ شاید وزیراعظم‘ ٹیلی کام اتھارٹی یا کابینہ کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب موجود ہو‘ شاید ناامیدی کے اس قبرستان میں کسی قبر سے کوئی آواز آ جائے‘ کوئی مُردہ بول اٹھے۔
The post ایک ٹیلی کام انجینئر کی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2qbPFYq
0 comments:
Post a Comment