وہ خاصے مذہبی ہیں، گھر میں داخل ہوتے زوردار آواز سے سلام کرتے ہیں۔ ان کے جوان اور کچھ ادھیڑ عمر کے صاحبزادوں کی بھی یہ بہت اچھی عادت ہے۔ والد بزرگوار آنے جانے والوں، ٹھیلے والوں، سبزی والوں اور کام کرنے والوں سے بھی مسکرا کر خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ خاصے مقبول بھی ہیں۔
نمازی پرہیزگار ہیں حاجی بھی ہیں، اسی سال ان کی اہلیہ اور بیچ کے صاحبزادے بھی حج کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ایسا نہیں کہ وہ صرف مذہبی ہیں بلکہ وہ اور ان کی فیملی پڑھی لکھی، باشعور بھی ہے پردے کا اپنے خاندان میں بہت خیال کرتے ہیں۔ خیر سے ایک ہی گھر میں پانچ چھ بیٹے بمعہ اہل و عیال کے بڑے سکون سے رہتے ہیں۔
کسی بڑے مفکر نے انسان کو معاشرتی حیوان بھی قرار دیا ہے اب یہ ان بڑے لوگوں نے کیوں کہا اور کس لیے کہا کچھ ایسا ہی درج بالا تحریر میں صاحب کے متعلق کہتے عجیب سا تو محسوس ہے لیکن یہ نامناسب بھی نہیں ہے۔ پانی کی کمی کا شکار کراچی ہمیشہ اپنے شہریوں کو پانی کی قدر کرنے کا احساس دلاتا رہا ہے لیکن یہاں یہ حال تھا کہ گو سرکاری نل سے پانی کم کم ہی آتا تھا لیکن برقیاتی مشین اس کی تلاش میں ساری ساری رات چلتی رہتی اور جب پانی کی موٹر نیچے ٹینک سے اوپر چھت پر بنے ٹینک پر منتقلی کے لیے چلتی تو وہ بھی بڑی مشکل سے رکتی ساری گلی اس مصنوعی بارش سے بھیگتی رہتی۔
عید کے روز ساری فیملی نماز پڑھنے چلی گئی یقینا پانی کی ضرورت کے باعث موٹر چلائی گئی ہوگی تو پھر رکی نہیں جب ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ لوگ پلٹے تو اس وقت تک سارے محلے والے اور گزرنے والے اپنے نئے نکور کپڑوں کو پانی کے چھینٹے اور مصنوعی ندی کے بہاؤ سے بچاتے اور انھیں مغلظات سے نوازتے جاتے۔
سرکاری پانی سے چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی تو اس قلت کو پورا کرنے کے لیے قدرتی طور پر پانی حاصل کرنے کے لیے بغیر کسی روک ٹوک کا کنواں کھدوا لیا گیا تب سے لے کر اب تک گھر کے سامنے ایک کیچڑ کا سماں ہی رہتا ہے سنا تھا کہ نیچے کا باتھ روم خراب تھا۔ لہٰذا کپڑے بھی اس طرح دھوئے جاتے رہے کہ ان کا پانی گلی کی سڑک پر بے دھڑک چھوڑ دیا جاتا پھر کچھ لوگوں نے سمجھایا کچھ منت کچھ سماجت کام آئی یوں اس جان کے جلاپے سے تو ذرا جان بچی پر اب گھر کے سامنے گٹر کے ڈھکن کو ذرا سا سرکا دیا گیا ہے تاکہ اوپر سے ٹینک سے برستے پانی کو اپنا راستہ بنانے میں دقت نہ ہو۔
صاحبو! بات اسی پر ختم نہیں ہوتی ہے۔ سال بھر بعد گھر بھر کی چپلیں، جوتے ہر سائز کے گھر کے چبوترے پر کوڑے کی مانند ڈھیر کردیے جاتے ہیں اب آتے جاتے جس غریب غربا کا دل چاہے سائز چیک کرے اور لے جائے کچھ یہی حال کپڑوں کا بھی ہے کہ پڑے رہتے ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ صرف یہی نہیں گھر میں کسی قسم کا بھی کام ہو مثلاً سفیدی، پلمبری، بقر عید کے بکرے گائے وغیرہ تو پہلے تو گھر میں ہی کوڑے کو سنبھالا جاتا ہے پھر ایک دن سب یا تو چبوترے پر ڈھیر ورنہ ردی پیپر والے کو بیچ دیا گیا اور جو بچ گیا پھر گھر کے باہر۔ رات کے بارہ بجے یا دو اگر ان کے گھر میں مہمانوں کی آمد و رفت ہے تو سمجھ لیں کہ رات کی نیند غائب۔ غرض پانچ چھ اسکوٹروں کا اسٹینڈ گاڑیوں کا شور اور بلند ہارن اب کون سمجھا سکے کہ صاحب تو خود ہی عالم ہیں۔
وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کراچی میں صفائی کی مہم کے حوالے سے سیوریج میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کے خلاف حکومت کی مدد کرنے والوں کے لیے ایک لاکھ روپے کا نقدی کی صورت میں انعام کا اعلان کیا ہے۔ یہ سن کر کچھ حیرت اور کچھ مسرت بھی ہوئی۔ یہ درست ہے کہ پچھلے چند مہینوں سے کراچی کے گٹر ابل رہے ہیں، سڑکیں گندے پانیوں سے سیراب ہیں اور اب بارشوں کے حوالے سے بھی ایسی ہی صورتحال ہے اپنے کراچی کی یہ حالت پہلے تو نہ تھی۔ جو ہم اور عام لوگ نہیں جانتے وہ دوسرے لوگ سب جانتے ہیں کہ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلایا جاتا تھا گندگی و غلاظت کے حوالے سے دنیا بھر میں ممتاز ہوتا جا رہا ہے۔
گٹروں اور نالوں کو جیسے سیل کردیا گیا ہے۔ بہت سے نادیدہ افراد کے علاوہ بھی دیدہ ور اس قسم کے عمل میں انجانے میں ہی ملوث ہیں انھیں کوڑے سے صرف سازشی عناصر ہی نہیں بھرتے بلکہ غیر سازشی عناصر بھی اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔ وزیر اطلاعات کا کہنا بھی بالکل درست ہے کہ شہر بھر میں چار لاکھ سے زائد مین ہولز اور ہزاروں کلو میٹر کی سڑکوں پر حکومت پہرہ نہیں دے سکتی۔
کیونکہ ان مین ہولز اور سڑکوں کا استعمال صرف حکومتی ادارے ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی عوام کرتی ہے۔ آج ہم سب سڑکوں کی بری حالت پر چیخ رہے ہیں، گندے پانیوں سے جہاں گاڑیوں اور اسکوٹر سواروں کا نکلنا محال ہے ذرا سوچیے پیدل چلنے والوں کے لیے ایسے مقامات کتنے اذیت ناک ہوتے ہیں۔
خوبصورت سڑکوں کے کنارے اور درمیان میں ہرے بھرے درخت لہلہا رہے ہیں وہیں ان کے ساتھ ساتھ سڑک پر کوڑے کی ڈھیریاں ہماری معاشرتی حیوانیت کا مذاق اڑا رہی ہیں کہ یہ وہی کراچی شہر ہے جہاں کبھی سڑکیں پانی سے دھلا کرتی تھیں ، جہاں فجر کی اذانوں سے پہلے خاکروبوں کی جھاڑو لگانے کی آواز سے خاتون خانہ جاگ جایا کرتی تھیں اس زمانے میں اوور ہیڈ برجز گنتی کے ہوں گے لیکن سڑکیں صاف ستھری سیاہ تارکول کی چمکتی نظر آتی تھیں جہاں بارشوں کے بعد چھوٹے بڑے گڑھوں کی بھرمار نہ ہوتی تھی۔
گٹروں کے اوپر لوہے کے بھاری ڈھکن ہوا کرتے ہیں۔ گھروں کے پیچھے ذرا چھوٹی گلیاں صاف ستھری ہوا کرتی تھیں اور کہیں تو سیمنٹ و بجری سے پکی بھی تھیں۔ ہر علاقے میں بچوں کے لیے ایک پارک ہوا کرتا تھا جس کے کھلنے کے اوقات شام کے ہوا کرتے تھے اور مغرب کے بعد اندھیرا پھیلنے سے پہلے مالی حضرات تالے ڈال دیا کرتے تھے۔ باغوں میں ہری بھری گھاس اور رنگ برنگے پھول بھی ہوا کرتے تھے گو بچوں کے لیے اس وقت طرح طرح کے جھولے نہ ہوا کرتے تھے پر دو تین طرح کے کھیلنے کے جھولے اور دیگر ہوا کرتے تھے۔
پانی کی تلاش میں برقیاتی مشینوں کو چلایا نہ جاتا تھا، لوگوں کی آنکھوں میں شرم و مروت ہوا کرتی تھی وہ بزرگ جو باقاعدگی سے نماز پڑھنے مسجد جاتے بچے خوشی خوشی دوڑ کر ان سے ہاتھ ملانے میں مسرت محسوس کرتے۔ وہ میرا اپنا کراچی تھا۔ آج بھی میرا ہی ہے لیکن آج سیوریج میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو پکڑنے کے لیے انعام کا اعلان ہوا ہے گھروں سے باہر کوڑا کرکٹ اور ملبہ پھینکنے والوں اور تھوکنے والوں کو سزا۔ شاید اس لیے کہ ہم علم رکھتے ہوئے بھی لاعلم ہیں گو ہم سب جانتے ہیں کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘
The post اپنا کراچی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2nF3UnT
0 comments:
Post a Comment