مولانا فضل الرحمٰن پہلے دن سے عمران خان کے خلاف رہے ہیں اور خود عمران خان نے بھی فضل الرحمن سے کبھی دوستی اور ہم آہنگی نبھانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ڈاکٹر طاہر القادری سے تو سمجھوتہ کرسکتے ہیں اور کرتے رہے ہیں لیکن مولانا سے ہلکا ہاتھ رکھنے کو تیار نہیں ہوئے۔ بلکہ دھرنے والے دنوں سے لے کر مولانا کی بے عزتی کرنے میں خان صاحب کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔
عمران خان کے ووٹرز بھی مولانا کی توہین کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لال حویلی کے مکین شیخ رشید بھی اُن کی دیکھا دیکھی مولانا کی ہتک کرنے میں پیچھے نہیں رہنا چاہتے۔ حالانکہ پرویز مشرف اور ایم آرڈی کے زمانے میں شیخ رشید مولانا کی سیاست کے سب سے بڑے قصیدہ گو رہ چکے ہیں۔ جب خیبر پختونخوا میں مذہبی جماعتوں پر مشتمل کے اتحاد ایم آرڈی کی حکومت تھی اور ایک آمرکے غلط کاموں کو قانونی تحفظ دینے کے لیے آئین میں ترمیم کی سخت ضرورت تھی۔
اُس وقت مولانا فضل الرحمٰن ہی حکومت کے کام آئے اوردیگر جماعتوں کے سخت مخالفت کے باوجود وہ پرویز مشرف کے اِس وعدے پر کہ آنے والے دسمبر میں وہ وردی اُتار دیں گے وہ مجوزہ سترھویں آئینی ترمیم پر رضا مند ہو گئے۔ مولانا کی سیاست کے شیخ رشید اُن دنوں بہت دلدادہ تھے اور ساری حزب مخالف میں ایک مولانا ہی شیخ رشید کو سب سے ذہین، سمجھدار اور قابل سیاسی رہنما دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن آج چونکہ مولانا عمرانی حکومت کے سب سے بڑے مخالف ہیں تو وہی ممدوح مولانا، شیخ رشید کو سب سے زیادہ ناگوار اور ناپسندیدہ معلوم ہو رہے ہیں۔
مولانا ویسے تو پہلے دن ہی سے اِس حکومت کے سخت مخالف ہیں کیونکہ وہ اِسے عوام کے ووٹوں والی حقیقی حکومت سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ اُن کے بقول اِسے زبردستی ہمارے سروں پر مسلط کیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کا بھی یہی مؤقف ہے لیکن وہ مولانا کی طرح فی الحال کسی تحریک یا ایجی ٹیشن پر راضی نہیں ہیں۔ اُن کے خیال میں حکومت کے کارکردگی اِس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے پانچ سال پورے کر پائے۔ عوام رفتہ رفتہ اُس کے خلاف خود ہی سڑکوں پر نکل آئیں گے۔
اور یوں اِسے لانے والے خود ہی اپنے فیصلوں پر پچھتائیں گے ۔ لہذا فی الحال ہمیں حکومت گرانے میں اتنی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے، مگر مولانا دسمبر سے پہلے پہلے آزادی مارچ کرنے اور اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ حزب اختلاف کی دیگر دو بڑی جماعتیں بھی اُن کے ساتھ اِس مارچ کا حصہ بنیں۔ اور اِس مقصد سے وہ گزشتہ تین ماہ سے گفت و شنید بھی کر رہے ہیں لیکن ملک کی دونوں سیاسی جماعتیں کوئی جواب دینے سے قاصر ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے کچھ کچھ رضامندی ظاہر کی ہے لیکن انھیں بھی دسمبر سے پہلے ایسی کسی تحریک کی کامیابی کے آثار دکھائی نہیںدیتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مولانا کو کوئی حتمی تاریخ دینے سے انکاری ہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ اگر یہ تحریک ناکامی سے دوچار ہو گئی تو اُن کی ساری سیاست پر پانی پھر جائے گا اور یوں ہو سکتا ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ سخت مشکلات سے دوچار ہو جائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی مکمل اور واضح طور پر اِس وقت کسی بھی احتجاجی تحریک کا حصہ بننے پر تیار نہیں ہے۔ سیاسی فیصلے کرنے میں پیپلز پارٹی سے زیادہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جو اُسے مات دے سکے۔
اُس کے سارے فیصلے تمام ممکنہ نتائج کو سامنے رکھ کرکیے جاتے ہیں۔ وہ مفادات اور مصلحت پسندی کے اُصولوں پر سختی سے قائم ہے، وہ جب چاہتی ہے تو سینیٹ کا حلیہ بدل دیتی ہے اور جب چاہتی ہے تو خاموشی کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتی ہے۔ مسلم لیگ اگر اُس کے سابقہ چیئرمین رضا ربانی کی حمایت کرنے لگے تووہ اسٹیبلشمنٹ کے تیور دیکھتے ہوئے اُس سے بھی اپنا ہاتھ اُٹھا لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں بھی دیکرکسی ایسے عذاب اور عتاب سے محفوظ رہی ہے جن سے میاں نواز شریف اپنے بھولے پن کی وجہ سے آج گزر رہے ہیں۔
سیاست میں جس ہشیاری اور چالبازی کی ضرورت ہوتی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اُس سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ جب چاہتی ہے بلوچستان کی صوبائی حکومت لمحوں میں گرا سکتی ہے اور سینیٹ میں مسلم لیگ کو نیچا دکھانے کے لیے رضاربانی کی قربانی دیکر ایک ایسا چیئرمین منتخب کروا سکتی ہے جس کے انتخاب کو پی ٹی آئی بھی اپنی جیت تصور کر رہی ہو۔ اُس کی خوبی یہ ہے کہ وہ بظاہر کسی ایسی تحریک کا حصہ بننا نہیں چاہتی جس سے حکومت کو قبل ازوقت گرایا جا سکے۔ یوں وہ موجودہ حکمرانوں کو یہ پیغام بھی دینا چاہتی ہے کہ وہ بھی ہمارے معاملے میں اپنا ہاتھ ہلکا رکھے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی صوبائی حکومت کو بھی کسی ممکنہ بحران سے بچائے رکھنا چاہتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے فیصلے آج بھی آصف زرداری کر رہے ہیں۔ وہ جتنے ذہین، دور اندیش اور بالغ نظر ہیں پاکستان کی موجودہ سیاسی کھیپ میں اُن کا ثانی کوئی نہیں ۔ وہ مولانا کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے لیکن اُن کے کہنے پرکسی ایسی تحریک کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتے جو موجودہ حکومت کے زوال کا باعث بنے۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اِس وقت پنجاب میں پیپلز پارٹی کا عملاً کوئی وجود نہیں۔ موجودہ حکومت کی معزولی کے نتیجے میں اگر قبل از وقت انتخابات ہوئے تو اقتدار پھر بھی اُن کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ لہذا پھر وہ ایسی کسی تحریک کاحصہ بھلا کیونکر بنیں۔ اُن کا مؤقف ہے کہ ہم دھرنے کی سیاست کے حامی اور قائل نہیں ہیں۔
ہم نے بھی خان صاحب کے دھرنے کی مخالف اِسی لیے کی تھی حالانکہ ہم اُس وقت اپوزیشن کا حصہ تھے اور ہماری سب سے بڑی مخالف جماعت مسلم لیگ (ن) برسراقتدار تھی۔ ہم چاہتے تو پی ٹی آئی کے ساتھ ملکر حکومت کا تختہ گول کر سکتے تھے لیکن جمہوریت کی خاطر ہم نے ایساکرنے سے اجتناب برتا، ہم آج بھی اِسی مؤقف پر سختی سے قائم ہیں۔ بظاہر یہ مؤقٖف انتہائی مناسب اور قابل ستائش ہے لیکن بلوچستان کی مسلم لیگی حکومت گرانے میں جو ہنر مندی اور چابک دستی اُس وقت زرداری صاحب نے دکھائی تھی وہ کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے۔ اُس وقت انھیں جمہوریت کے اُصولوں کی پاسداری شاید یاد نہیں رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت آج کل احتساب کے مراحل سے گزر رہی ہے۔
اندرون خانہ کسی خفیہ سمجھوتے اور ڈیل کے امکانات سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کا مولانا کے دھرنے سے انکار اُن کے لیے کسی ممکنہ ریلیف اور راحت کا باعث بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹریٹ پاور دکھانے کی سب سے بڑی دعویدار جماعت مولانا کے مارچ میں بھی شرکت سے گریزاں ہے۔ وہ مولانا کو مکمل مایوس اور انکار بھی نہیں کر رہی لیکن مولانا کے ساتھ کسی احتجاج میں شامل بھی ہونا نہیں چاہتی۔ اُسے اِس احتجاج کے تمام ممکنہ نتائج کا ادراک بھی ہے کہ کامیابی کی صورت میں بھی اُس کے سر پر اسلام آباد میںحکمرانی کا تاج ہرگز نہیں سجے گا اور اُس کے حصے میں وہی ایک صوبائی حکومت آئے گی لیکن ناکامی کی صورت میں وہ شاید اِس سے بھی محروم ہو جائے۔ اِسی لیے وہ یہ خطرہ ہرگز ہرگز مول نہیں لے سکتی۔
The post آزادی مارچ اور پیپلزپارٹی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2pcsQDG
0 comments:
Post a Comment