Ads

اندھے غار کے اندر

ایتھوپیا پندرہ سال پہلے تک دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں شمار ہوتا تھا‘ آپ کو وہاں جہالت بھی ملتی تھی‘ بیماری بھی‘ جرائم بھی اور افلاس بھی لیکن یہ ملک اس وقت بزنس کے لیے آئیڈیل ملکوں میں شمار ہوتا ہے‘ کیوں؟ وجہ میرے ایک جاننے والے نے بتائی‘ یہ صاحب کراچی میں رہتے تھے‘ یہ بیس سال قبل ادیس ابابا گئے اور ایک چھوٹی سی فیکٹری لگا لی‘ یہ فیکٹری دیکھتے ہی دیکھتے تین بڑی بڑی فیکٹریوں میں تبدیل ہو گئی۔

آج ان کے پاس چھ ہزارملازمین ہیں اور یہ ذاتی جہاز کے مالک ہیں‘ میں نے ان سے اس ترقی کی وجہ پوچھی تو یہ مسکرا کر بولے ’’تسلسل‘ میں 1997 میں ایتھوپیا آیا‘ حکومت نے ان بائیس برسوں میں یہاں اپنی کوئی معاشی پالیسی نہیں بدلی‘ کمپنی رجسٹریشن سے لے کر ٹیکس کی شرح تک ایتھوپیا میں آج تک بزنس کا کوئی قانون‘ کوئی قاعدہ اور کوئی روایت تبدیل نہیں ہوئی‘ ہم نے 1997 میں جہاں اور جتنا ٹیکس جمع کرایا تھا ہم آج بھی وہیں اور اتنا ہی ٹیکس جمع کرا رہے ہیں۔

حکومتیں آتی اور جاتی رہیں‘ ملک میں فسادات بھی ہوتے رہے اوراریٹریا کے ساتھ جنگ بھی شروع ہو گئی‘نسلی فسادات بھی ہوئے اور اگست 2016میں اپوزیشن نے سیاسی اور معاشی اصلاحات کے لیے احتجاج بھی کیا‘ حکومت نے مظاہرین پر گولی چلا دی‘ 500 لوگ ہلاک ہوگئے لیکن ملک کی معاشی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی چناں چہ ایتھوپیا میں بزنس مین مطمئن ہیں اور یہ اطمینان ملک کی معاشی حالت میں بہتری کا باعث بن رہا ہے‘‘ وہ اس کے بعد تاسف بھری آواز میں بولے ’’ایتھوپیا کے مقابلے میں پاکستان کی مارکیٹ عدم توازن کا شکار ہے‘ میں 1997میں جن کمپنیوں کو پہلے دس نمبر پرچھوڑ کر گیا تھا وہ تمام تر کمپنیاں اور مالکان تباہ ہو گئے۔

وہ خاندان سمیت ملک سے باہر چلے گئے‘ مجھے آج ان میں ایک بھی شخص اور ایک بھی کمپنی نظر نہیں آتی‘ میرے بے شمار دوست یورپ‘ افریقہ اور مڈل ایسٹ سے اپنا سرمایہ لے کر پاکستان گئے اور پھر بری طرح تباہ ہوئے‘ ان کی رقم بھی ڈوب گئی‘ جائیدادوں پر بھی قبضہ ہو گیا اور یہ ڈاکوؤں اور دہشتگردوں کی گولی کا نشانہ بھی بن گئے اور ان میں سے جو ایک آدھ بچ گیا وہ پولیس‘ نیب یا عدالت کے ہتھے چڑھ گیا‘‘ وہ رکے اور پھر بولے ’’2011میں بنگلہ دیش کی ایکسپورٹس 18بلین ڈالر تھیں‘ پاکستان کے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز وہاں گئے‘ فیکٹریاں لگائیں اور آج بنگلہ دیش کی ایکسپورٹس 40 بلین ڈالر ہیں جب کہ پاکستان آج بھی رو دھو کر صرف 20 بلین ڈالر پر کھڑا ہے۔

کیوں؟ آپ لوگوں نے کبھی سوچا‘‘ میں خاموش رہا‘ وہ بولے ’’پاکستان سرمایہ کاری کے لیے غیر محفوظ ملکوں میں شمار ہوتا ہے‘ یہ سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے کے لیے اپنی پالیسیاں نرم کرتا ہے‘ سرمایہ کار ریاست پر یقین کر کے پاکستان آتے ہیں اور پھر ریاست اپنی پالیسی تبدیل کر دیتی ہے اور یوں ارب پتی بھی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر آ جاتے ہیں اور ملک کو بھی ری ورس گیئر لگ جاتا ہے‘‘ وہ رکے اور بولے ’’پاکستان کو اب اپنی اداؤں پر غور کر لینا چاہیے‘ اسے فیصلہ کر لینا چاہیے اسے بزنس‘ صنعت اور سرمایہ چاہیے یا نہیں کیوں کہ ایتھوپیا جیسے ملک بھی بزنس اور انڈسٹری میں پاکستان سے بہت آگے نکل گئے ہیں‘‘۔

یہ بات آپ کو بظاہر افسانہ دکھائی دے گی لیکن یہ خوف ناک حد تک حقیقت ہے‘ میں آپ کے سامنے چند مثالیں رکھتا ہوں اور آپ پھر اندازہ کیجیے‘ ایتھوپیا جیسا ملک بھی پاکستان سے کتنا آگے نکل گیا اور یہ کس قدر تیزی سے آگے نکل رہا ہے‘ پہلی مثال المہدی گروپ ہے‘ یہ گروپ کراچی کی پنجوانی فیملی کی ملکیت ہے‘ گروپ کے سربراہ حسن پنجوانی 12 سال قبل وزٹ کے لیے ایتھوپیا آئے‘ حکومت کے چند ارکان سے ملاقات ہوئی‘ حکومت نے انھیں ایتھوپیا میں کارخانہ لگانے کی پیشکش کی‘ یہ نیم دلی سے تیار ہوئے‘ چھوٹا سا کارخانہ لگایا اور یہ کارخانہ 12 سال میں بہت بڑا انڈسٹریل گروپ بن گیا۔

یہ لوگ ایتھوپیا کے سب سے بڑے ایکسپورٹر بن گئے‘ گروپ میں آج ٹیکسٹائل مل بھی ہے‘ ماچس فیکٹری بھی‘ اسپورٹس گڈز بھی اور سلاٹر ہاؤس بھی‘ گروپ میں دو ہزار ملازمین ہیں اور ان دو ہزار لوگوں کو صرف 30 پاکستانی کنٹرول کر رہے ہیں اور کسی فیکٹری اور کسی دفتر میں کبھی کوئی ایشو نہیں ہوا‘ پنجوانی گروپ نے اس دوران پاکستان میں کاروبار بند کر دیا‘ فیکٹریاں اور کارخانے ایتھوپیا شفٹ کر دیے اور کراچی میںان کا صرف دفتر رہ گیا‘ فیملی تک لندن اور ایتھوپیا جا کر بیٹھ گئی‘ یہ امریکا اور یورپ کو بھی ٹیکسٹائل گڈز فراہم کرتے ہیں اور پاکستان کے تاجروں کو بھی‘ دوسرا بڑا پاکستانی انڈسٹریل گروپ الاثر انڈسٹریز ہے۔

گروپ کے مالک نوشاد حسین ہیں‘ یہ بھی کراچی میں رہتے تھے‘ یہ دس سال پہلے ایتھوپیا شفٹ ہوئے‘ انڈسٹری لگائی اور انڈسٹری دس سال میں گروپ بن گئی‘ گروپ میں 15 سو لوگ ملازم ہیں‘ ان میں صرف 18 پاکستانی ہیں‘ یہ 18 پاکستانی زبردست طریقے سے گروپ چلا رہے ہیں‘ یہ فیملی بھی برطانیہ اور ایتھوپیا میں رہتی ہے‘ کراچی میں صرف ان کا دفتر ہے اور بس‘ اسی طرح پاکستان کا گروپ حلال فوڈ بھی ایتھوپیا شفٹ ہو چکا ہے‘ دس پاکستانی ایک ہزار مقامی لوگوں کے ساتھ دھڑا دھڑ کام کر رہے ہیں‘ ڈنگ ڈانگ ببل گم کی فیکٹری بھی پاکستان سے ایتھوپیا جا چکی ہے‘ فیکٹری میں 25 پاکستانی اور آٹھ سو مقامی لوگ کام کرتے ہیں جب کہ ریکس ڈینم (Rakees Denim) بھی ایتھوپیا پہنچ چکی ہے۔

اس میں صرف دس پاکستانی ہیں اور یہ چھ سو مقامی ورکرز کے ساتھ ٹھیک ٹھاک کام کر رہی ہے‘ یہ صرف چند مثالیں ہیں‘ پاکستان کے کل 45 گروپ اس وقت ایتھوپیا میں ہیں اور یہ دھڑا دھڑ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں ایتھوپیا میںکپاس کا ایک پھول بھی پیدا نہیں ہوتا‘ یہ فیکٹریاں چین سے کپاس‘ دھاگا اور کپڑا منگواتی ہیں‘ پراسیس کرتی ہیں اور ایکسپورٹ کر دیتی ہیں اور یہ کاروبار صرف پاکستانیوں تک محدود نہیں‘ ایتھوپیا میں برطانیہ‘ آئر لینڈ‘ بھارت‘ چین اور امریکا کے بے شمار گروپس موجود ہیں اور یہ بھی دھڑا دھڑ کام کر رہے ہیں‘ حکومتیں آتی ہیں‘ حکومتیں جاتی ہیں‘ مارشل لاء بھی لگ جاتے ہیں اور فسادات بھی ہو جاتے ہیں مگر کوئی شخص‘ کوئی حکومت صنعت کاروں‘ بزنس مینوں اور سرمایہ کاروں کو نہیں چھیڑتی‘ یہ اطمینان سے کام کرتے رہتے ہیں۔

ہم اب ان سہولتوں کی طرف آتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے سرمایہ کار بھی ایتھوپیا جا رہے ہیں‘ ایتھوپیا کے ماڈل کے چار عنصر ہیں‘ پہلا عنصر ٹیکس سسٹم ہے‘ ایتھوپیا نے 20 سال پہلے سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکس سسٹم بنایا اور اس سسٹم میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی‘ آپ اگر ایتھوپیا میں فیکٹری لگانا چاہتے ہیں تو آپ پر کوئی ٹیکس نہیں ہو گا بس آپ کو تین کام کرنا ہوں گے۔

آپ آدھا مال لوکل مارکیٹ اور آدھا بیرون ملک بھجوائیں گے تا کہ پیداوار میں توازن رہ سکے‘ آپ مینجمنٹ کے علاوہ تمام نوکریاں مقامی لوگوں کو دیں گے اور تین آپ فیکٹریوں کا سارا فضلہ ضایع کریں گے‘ کیمیکلز کی وجہ سے ملک میں ماحولیات کا ایشو پیدا نہیں ہونا چاہیے‘ دوسرا عنصر انڈسٹری کے یوٹیلٹی بلز بہت کم ہیں‘ بجلی پاکستانی دو روپے فی یونٹ ملتی ہے‘ پانی مفت ہے‘ آپ زمین سے جتنا چاہے پانی نکالیں اور استعمال کریں بس قریب ترین بستیوں کو پینے کا پانی فراہم کرنا آپ کی ذمے داری ہو گی‘ لیبر بہت ہی سستی ہے‘ پاکستان کے اڑھائی ہزار روپے ماہانہ میں مزدور مل جاتا ہے اور یہ نخرے بھی نہیں کرتا‘ ملازمین کنٹریکٹ پر بھرتی ہوتے ہیں اور کنٹرکیٹر ان کا ذمے دار ہوتا ہے۔

یہ ہڑتال اور دھرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے‘ تین آپ اگر مال ایکسپورٹ کرتے ہیں تو 20 فیصد ’’ری بیٹ‘‘ ملتی ہے اور یہ ایک بڑی رقم ہے اور چار حکومت سرمایہ کاروں کو داماد جتنا احترام دیتی ہے‘ آپ سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں‘ حکومت زمین بھی دے گی۔

انفرااسٹرکچر بھی بچھا کر دے گی‘ بینک اور سرکاری اداروں کے دروازے بھی کھول دے گی اور آپ کو سیکیورٹی بھی فراہم کرے گی چناں چہ پاکستان سمیت دنیا جہاں کے سرمایہ کار دھڑا دھڑ ایتھوپیا جا رہے ہیں جب کہ آپ اس کے مقابلے میں پاکستان میں سرمایہ کاروں‘ تاجروں اور صنعت کاروں کی حالت دیکھ لیجیے‘ کل تاجروں کا گروپ دہائی دینے کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس پہنچ گیا‘ آرمی چیف تاجروں اور سرمایہ کاروں کے لیے آخری لائف لائن تھے‘ تاجروں نے آرمی چیف سے کہا ’’نیب کے ساتھ معیشت نہیں چل سکتی‘ نیب کا معمولی افسر دفتر بلاتا ہے اور سارا سارا دن دفتر کے باہر بٹھائے رکھتا ہے‘ ہم اس بے عزتی کے بعد کیا کام کریں گے‘‘ تاجروں کا کہنا تھا ’’ہمیں عزت اور تحفظ نہیں ملے گا تو ہم سے کام کیسے ہوگا؟‘‘۔

میری ریاست پاکستان سے درخواست ہے دنیا میں اس وقت 20 کامیاب بزنس ماڈل موجود ہیں‘ آپ مہربانی فرما کر کوئی ایک لے لیں اور اسے کم از کم بیس سال کے لیے لاک کر دیں تاکہ ملک میں استحکام آ سکے‘یہ استحکام معیشت کو مضبوط کرے گا‘ آپ صرف بنگلہ دیش‘ ویتنام اور ایتھوپیا کی اسٹڈی کرا لیں‘ آپ صرف یہ دیکھ لیںیہ ملک 20 سال پہلے کہاں تھے اوریہ ہم سے کیسے آگے نکل گئے؟

آپ کو چند منٹوں میں بات سمجھ آ جائے گی‘ آپ اس کے بعد کوئی ایک ماڈل لے لیں اور اسے مکمل طور پر نافذ کر دیں‘ یہ ملک بچ جائے گا‘ ہم اندھے غار کے دہانے پر نہیں کھڑے ہیں‘ ہم اس کے اندر داخل ہو چکے ہیں بس دروازہ بند ہونا باقی ہے اور پھر ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں لہٰذا خدا کے لیے اب تو سنبھل جائیں‘ یہ ملک ہے‘ یہ پتنگ بازی کا میچ نہیں کہ پتنگ کٹ گئی تو نئی لے لیں گے‘ یہ ملک اگر چلا گیا تو یہ دوبارہ نہیں مل سکے گا‘ یہ نعمت واپس نہیں آ سکے گی۔

The post اندھے غار کے اندر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VaNIHn
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment