گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے اپنے حالیہ بیان میں بعض اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی بڑھی تو ہمیں بھی شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا ، اگر زرمبادلہ کے ذخائر نہ گھٹیں، حکومت مرکزی بینک سے قرضے نہ لے اور بچت وسرمایہ کاری کا حجم بڑھ جائے تو ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں آئی ایم ایف سے رجوع نہ کیا جائے۔
ملکی قرض جی ڈی پی کا 80 فیصد ہوگیا۔ یہ بات انھوں نے پیرکوانسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی میں پاکستان کی معیشت اور میکرواکنامک چیلینجزکے موضوع پرلیکچردیتے ہوئے کہی۔
معاشی ماہرین ہوسکتا ہے گورنر اسٹیٹ بینک کے قرض نہ لینے، بچت وسرمایہ کاری کا حجم بڑھنے کے مفروضے پر آئی ایم ایف سے آیندہ رجوع نہ کرنے کے بڑے فیصلے کا عندیہ دے رہے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے، حکومت قرض کی مفت مئے پینے کی عادت سے ہاتھ کھینچ لیتی ہے، سادگی اور کفایت شعاری کو اقتصادی نظام کی سمت ایک ٹھوس اور قابل عمل پیش رفت سمجھتی ہے تو اسے مثبت تبدیلی اور دلیرانہ فیصلہ کی ابتدا قراردیا جاسکتا ہے۔
بادی النظر میں حکومتی معاشی مسیحاؤںکی ساری معاشی تگ و دو آئی ایم ایف سے امدادی پروگرام لینے یا نہ لینے کی بحث کے محورکے گرد گھومتی رہی ہے اور سانپ وسیڑھی کا کھیل کئی ہفتے جاری رہا، میڈیا نے اسےTo Be or Not to Be’’اے برق میں رہوں نہ رہوں آشیاں رہے‘‘ کی فیصلہ کن صورتحال سے جوڑ دیا تھا چنانچہ حکومت نے انجام کار آئی ایم ایف سے رجوع کرہی لیا اور ملکی معیشت کو درپیش بحران سے نکالنے کے لیے 6 ارب ڈالر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
معاشی مبصرین کے مطابق اس سے حکومت کو ’’ بریتھنگ اسپیس ‘‘ مل گئی۔ اور اگر اسے وزیراعظم عمران خان کے سابقہ بیان کی روشنی میں دیکھا جائے جو آئی ایم ایف سے کچھ مانگنے سے گریز پر مبنی تھا تو گورنر اسٹیٹ بینک کے ارشادات آئی ایم ایف سے فاصلہ کرنے کا خوش آیند عندیہ سمجھنا چاہیے، لیکن اس عہد اور کمٹمنٹ پر پورا اترنے کے لیے حکومت اور مالیاتی امور کے نگرانوں کو ملکی معیشت کی حقیقی صورتحال کے ادراک سے پہلو تہی کرنے سے اجتناب کا مشورہ ہی دیا جاسکتا ہے۔
اس انداز نظر میں استقامت اس لیے بھی درکار ہے کہ پی ٹی آئی کی طرز حکمرانی یو ٹرن کے میکنزم ، فلسفے اور حکمت عملی کو اپنا سیاسی اصول بنا چکی ہے، اور اس تناظرمیں دیکھا جائے تو وزیراعظم خراب کارکردگی والے وزرا کوتبدیل کرنے جارہے ہیں ، یہ غیر معمولی شیک اپ ہوگا جس سے وزراء سمیت بیوروکریسی ، انتظامی ڈھانچہ اور پولیس سسٹم تک میں فیصلوں کے زلزلے کی گڑگڑاہٹ محسوس کی جا سکے گی۔
دریں اثناء پہلی بار وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ڈانٹ پڑی ہے، وزیراعظم نے ان سے ڈنگی کے بے قابو ہونے اور سیکڑوں قیمتی جانوں کے اتلاف پر پنجاب کے محکمہ صحت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عثمان بزدار کو ایک ہفتے کی مہلت دے دی ہے، بتایا جاتا ہے کہ گڈگورننس کے فقدان اور وزرا کے شاہانہ طرز عمل اور تجاہل عارفانہ کے خلاف پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارکان پھٹ پڑے۔ تاہم بنیادی تطہیر اور تبدیلی اس وقت تک بے معنی ہوگی جب تک وفاقی کابینہ میں رد وبدل اور گڈگورننس کے اثرات نچلی سطح تک عوامی مسائل کے حل میں ممد ومعاون ثابت نہیں ہوتے، عوام ریلیف کو ترس رہی ہیں۔
مہنگائی بے قابو جب کہ غربت اور بیروزگاری پہلے دن سے آج تک سر موکسی تبدیلی اور ترقی و خوشحالی کا عندیہ دینے سے قاصر ہے، معاشی ثمرات میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔گورنراسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ حکومت معاشی استحکام اورکاروبارمیں آسانی پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
ملک میں بچت اور سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے ، سرمایہ کاری کی راہ میں آنے والی مشکلات کو ختم کرنا ہوگا۔ وہ یقین دلاتے ہیں کہ عالمی مارکیٹوں میں پاکستان کی خدمات اور اشیاء مسابقت کے قابل ہونے کی صورت میں معاشی استحکام آئے گا، پاکستان انٹرپرینیورکا ٹیلنٹ بہت زیادہ ہے اور آئیڈیازکی بھی کوئی کمی نہیں، نجی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے ماحول پیدا کرنا پڑے گا۔
صحت مند مسابقت کاماحول پیدا کرنے کے لیے مسابقتی کمیشن کا اہم کردارہے۔ انھوں نے کہاکہ آئی ایم ایف آخری سہولت تھی جو استعمال ہوئی، شرح مبادلہ کو مارکیٹ سے ہم آہنگ کیا گیا۔ مارکیٹ بیس ریٹ مارکیٹ کے حالات اور توقعات کا حاصل ہے۔ توقعات بسا اوقات زیادہ ہوجاتی ہیں اس صورتحال میں اسٹیٹ بینک مداخلت کرے گا۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہورہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خسارہ صرف درآمدات کم کرکے کم ہوا ہے اوربرآمدات کا حجم بھی بڑھا ہے۔ سرمایہ کاری کے کھاتوں میں رقوم آرہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ تبدیلی مشکل تھی لیکن شرح تبادلہ کو استحکام ہے۔ڈیٹا بتاتا ہے کہ نجی سرمایہ کاری کم شرح پر بھی نہیں بڑھ رہی تھی۔ پالیسی ریٹ پر تنقید ہے کہ سرمایہ کاری کم ہوگی۔
انھوں نے کہاکہ حکومت نے اسٹیٹ بینک سے قرض نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ زرمبادلہ ذخائر سب سے پہلے آئی ایم ایف پروگرام کا پتہ دیتے ہیں۔ نجی سرمایہ کاری بڑھانے کی اور وجوہات ہیں۔ زرمبادلہ ذخائر میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب اسٹیٹ بینک مارکیٹ میں ڈالر بیچتاہے، اس عمل سے متعلق مالیاتی ڈسپلن بنا رہے گا۔ ہم خطے میں سب سے کم سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ سیونگ بڑھا کر سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے جس میں اضافہ نہیں ہورہا ۔ مجھے تشویش ہے کہ ریفارم کا سلسلہ جاری رہے گا۔
صرف شرح سود سے نمو نہیں بڑھے گی۔ تاہم معیشت مستحکم ہورہی ہے۔ ایز آف ڈوئنگ بزنس کا بڑا عمل دخل ہوگا۔ پالیسی ریٹ سوا تیرہ ہے۔ رواں سال ہمارے مہنگائی بڑھنے کا تخمینہ 12 فیصد ہے۔ ایکسپورٹ بڑھائے بغیر ہم اپنا معیار زندگی نہیں بڑھا سکتے۔ شرح سود بچت بڑھاتی ہیں۔ فن ٹیک اور ٹیکنالوجی بچتوں کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقرکا کہنا ہے کہ ملکی قرض جی ڈی پی کا 80 فیصد ہوگیا ہے۔ حکومت معاشی استحکام اورکاروبارمیں آسانی پیداکرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ ملک میں بچت اور سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری کی راہ میں آنیوالی مشکلات کوختم کرناہوگا۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خساروں جیسے دو اہم مسائل کا سامنا رہا ہے۔ماہانہ دو ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہواتھا۔ 2014 سے 2017 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ماہانہ 2 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا تھا۔
گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ملک کی معیشت کا دوسرا بڑا مسئلہ مالیاتی خسارہ ہے، بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر بھی تسلسل سے گرتے رہے۔رضا باقر کا مزید کہنا تھا کہ مہنگائی بڑھنے کا سبب بیرونی اور اندرونی وجوہ ہیں۔ ملکی قرض جی ڈی پی کا 80 فیصد ہوگیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے بعد برآمدات میں بہتری ہونا شروع ہوئی ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران ملکی برآمدات کا حجم 12 فیصد تھا جو اب بڑھ کر 27 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اب ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مسلسل گھٹ کر نصف سے بھی کم ہوگیا ہے، مئی 2019 میں ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے طلب و رسد کے تابع رکھا گیا۔
اعدادوشمار کے سرکاری تناظر میں ارباب اختیار کو معاشی نمو اور ترقی و خوشحالی کے دعوؤںکو زمینی حقائق سے جانچنا چاہیے۔ سب اچھا نہیں ہے۔ بدترین لوڈ شیڈنگ جاری ہے، مہنگائی کا جن ناچ رہا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز اوربہیمانہ جرائم بڑھ گئے ہیں۔ تعلیم وصحت کی صورتحال جوں کی توں ہے۔ لازمی ہے کہ حکومت معاشی منظر نامہ میں عوام کی توقعات کے مطابق تبدیلیاں لائے، عوام کو جمہوری ثمرات کا ملنا اب یقینی ہونا چاہیے۔
The post معاشی ثمرات کی فراہمی اصل چیلنج appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mNw7Zj
0 comments:
Post a Comment