وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومتی ترجمانوں کے اجلاس میں ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم کے دورہ چین، ایران اورسعودی عرب کے علاوہ اپوزیشن کے ممکنہ احتجاج اور دھرنے سے متعلق حکمت عملی پر بھی گفتگو کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دورہ چین کامیاب رہا، کشمیر کے مسئلے پر چین ہمارے ساتھ ہے۔
بلاشبہ ملکی سیاسی و معاشی صورتحال کے وسیع تر تناظر میں وزیراعظم کے وہ ریمارکس اور معروضات قابل غور ہیں جو انھوں نے جے یو آئی سے مذاکرات کے حوالے سے کہے ، ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں کوئی کمیٹی قائم نہیں کی گئی ، کمیٹی کے قیام کی فی الحال ضرورت نہیں ، مذاکرات کا آپشن موجود ہے، اگرکوئی خود بات کرنا چاہے تو دروازے بند نہیں ، مدرسہ ریفارمز سمیت اہم ایشوز پر کوئی بات کرنا چاہے تو بھی اعتراض نہیں تاہم وزیراعظم نے کہا کسی کو قانون توڑنے کی اجازت نہیں دے سکتے، ایسا ہوا تو قانون حرکت میں آئیگا۔
ادھر اجلاس میں موجود ارکان کی رائے تھی کہ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے اعلان کردہ آزادی مارچ کا مسئلہ افہام و تفہیم سے حل ہو جانا چاہیے۔ اجلاس کے ارکان نے کہا کہ وزیراعظم کی کامیاب سفارتکاری سے پاکستان عالمی تنہائی سے نکل گیا ہے۔
بلاشبہ ترجمانوں سے اجلاس میں اس حکومتی اعلامیہ اور بیانیہ کی روشنی میں موجودہ پیدا شدہ سیاسی صورتحال تفصیلی تجزیہ کی متقاضی ہے ، اور جہاں تک مذاکرات کے آپشن کی بات ہے وزیراعظم کی طرف سے یہ اچھا فیصلہ ہے، اس آپشن کو نتیجہ خیز بنانے کی ضرورت ہے ، اسے عارضی سیاسی شور سمجھنے یا ڈنگ ٹپانے کی کوشش سے نہ جوڑا جائے کیونکہ سیاسی خلفشار اور کشیدگی کے بادل ملک کے سیاسی افق پر بڑی دیر سے منڈلا رہے ہیں، خدشات اور تحفظات کا ایک خطرناک دورانیہ شروع ہونے کی دھمک سنائی دے رہی ہے، بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں، قیاس آرائیوں کا بازار بھی گرم ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت دھرنے کے معاملہ میں مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات نہیں کرے گی۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ سیاسی حقائق سے چشم پوشی کی لغزش کسی سانحہ کا باعث ہی نہ بن جائے اور حقیقت کو خرافات میں گڈ مڈ کرنے والے کامیاب ہو جائیں۔ بعینہٖ حکومت کو لاشعوری طور پر اس بات کا ادراک تو ہوگا کہ سیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کا تہیہ کر لیا ہے ، ان کے مطابق مارچ موجودہ حکومت سے آزادی حاصل کر کے دم لے گا، عوام کی بدحالی کی ذمے دار حکومت ہے، 27 اکتوبر کو روکا گیا تو بند راستے کھولیں گے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اسلام آباد آزادی مارچ کے سلسلہ میں کارکنوں کے لیے24 نکات پر مشتمل ہدایت نامہ بھی جاری کیا ہے، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور دھرنے کی پوری طرح حمایت کا اعلان کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کو خط میں سب کچھ لکھ کر بھیج دیا ہے ، وہ احتساب عدالت پیشی پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ نواز شریف نے کہا کہ ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر قائم ہیں۔
واضح رہے کہ نواز شریف کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کی مکمل حمایت کے اعلان کے بعد ایک اہم پیشرفت کے طور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے ن لیگ کے اہم رہنماؤں کا اجلاس بھی طلب کر لیا۔ وفاقی کابینہ کا اجلاس 16 اکتوبر کو طلب جب کہ اس کا 15 نکاتی ایجنڈا بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آزادی مارچ پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں دو دو آرا ہیں، شہباز مخالف جب کہ نواز شریف حمایت میں ہیں، انھوں نے یہ سوال بھی کیا کہ بلاول کس کے اشارے پر سپورٹ کر رہے ہیں، ادھر وفاقی وزیر مذہبی امور و حج پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مولانا سیاسی شغل فرما رہے ہیں، انھیں ریاست مدینہ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، وہ اسلام آباد نہیں آئیں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ بھی اسی انداز نظر کے حامی ہیں، انھوں نے کہا کہ کوئی مائی کا لعل حکومت گرا نہیں سکتا اور مولانا اسلام آباد نہیں آئینگے۔ انھوں نے ریڈ زون اور اس کے اطراف قانون و آئین کی عمداری کی دیوار قائم کرنے پر سختی سے عملدرآمد کا عندیہ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا۔
ایسے اعصاب شکن اور امتحانی لمحات میں صبر و تحمل ، معاملہ فہمی، تدبر و حکمت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ملکی معیشت کے معاملات سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں، حکومت کی ساری تگ ودو اس بات پر ہے کہ معاشی صورتحال قابو میں ہے، حالات بہتر ہونے جارہے ہیں، ماہرین معاشیات کے مطابق 3 ماہ میں ملک کا تجارتی خسارہ 35 فیصد کم،5.7 رہ گیا ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ مالی سال کی اسی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 8.8 ارب ڈالر تھا، درآمدات میں 20.5 فی صد کمی آئی ، جولائی تا ستمبر برآمدات میںاضافہ نہ ہونے پر ریونیو80 ارب کم ہونے کے باعث شاید حکومت سالانہ برآمدات کا ہدف حاصل نہ کر سکے۔ یہ اعداد وشمار کا ظاہری گورکھ دھندا ہے اس سے ہٹ کر بھی عوام کی بدحالیوں اور مجبوریوں کا ایک تپتا ہوا صحرا ہے جس میں عوام تاحال ریلیف اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔
اگر غیرجانبداری سے ملکی سیاست و معیشت اورخطے کی داخلی و عالمی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہر محب وطن شخص کی خواہش ہوگی کہ ملک بحران اور بے یقینی وکشیدگی سے جلد نجات حاصل کرے مگر اس کی کلید مکالمہ میں مضمر ہے، جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی مذاکرات کے دروازے کاکھلا رہنا ہے۔ حکومت چاہے تو خود کو معاشی اور سیاسی مسائل کے دلدل سے نکال سکتی ہے، احتساب کے عمل کو بلا امتیاز جاری رکھتے ہوئے حکمراں سیاسی و جمہوری عمل کو یرغمال بنانے سے روک سکتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ نظام حکمرانی سے دانشورانہ اور غیرمتشددانہ اختلاف تہذیبی رویے کی نشانی ہے، 71 برس میں ہمارے حکمرانوں کوسیاسی کلچر ، پارلیمانی و انتخابی شفافیت اور معیشت کے استحکام کی بنیاد رکھنی چاہیے تھی، اس کام سے کسی نے ہمیں نہیں روکا۔ یہ کوتاہیاں ہمارے سیاسی روییوں کے انحطاط اور اضمحلال اور آئین سے انحراف کی دردانگیز صورتحال کی غمازی کرتی ہیں۔ سیاسی مدبر اکثر اپنے انٹرویوز میں اس پشیمانی کا ذکر کرتے ہیں کہ ہم میں رواداری کا فقدان ہے۔
ادھر ایک سابق بھارتی چیف جسٹس مرکنڈے کاٹجو بھارتی سسٹم، کشمیر میں مودی کے ظلم وستم پر بے خوفی سے بیان دیتے ہیں، وہ ججز کی اس بھارتی نسل سے تعلق رکھنے والے بتائے جاتے ہیں جو انصاف پسندی کی راہ میں کسی رکاوٹ کو برداشت نہیںکرتے تھے۔ کیا ہم اظہار رائے کی آزادی کے اتنے بھی قابل نہیں رہے۔ ارباب سیاست اور 22 کروڑ عوام کے سامنے بے شمار چیلنجز ہیں۔ مسائل کا ایک برموڈا ٹرائنگل ہماری بصیرت کا امتحان لے رہا ہے۔ جج مرکنڈے کاٹجو مودی پر کاری ضرب لگاتے ہیں وہ بھارتی سسٹم کی بوسیدگی کو للکارتے ہیں ۔
ہمیں بھی پاکستان میں کرپشن ،کشیدگی،محاذ آرائی اور دریدہ دہنی سے پاک سماج کی دعا ہی نہیں عملی کوششیں کرنا چاہئیں۔ ہمارے سامنے ایک طرف کھائی اور دوسری طرف شاہراہ ہے، فیصلہ حکمرانوں کو کرنا ہے اور جلد کرنا ہے۔
The post فیصلہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35x2Vaf
0 comments:
Post a Comment